حدثنا إسماعيل ، عن يونس ، عن الحسن ، عن صعصعة بن معاوية ، قال: اتيت ابا ذر ، قلت: ما بالك؟ قال: لي عملي، قلت: حدثني، قال: نعم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من مسلمين يموت بينهما ثلاثة من اولادهما لم يبلغوا الحنث، إلا غفر الله لهما"، قلت: حدثني، قال: نعم . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من مسلم ينفق من كل مال له زوجين في سبيل الله، إلا استقبلته حجبة الجنة كلهم يدعوه إلى ما عنده"، قلت: وكيف ذاك؟ قال:" إن كانت رجالا فرجلين، وإن كانت إبلا فبعيرين، وإن كانت بقرا فبقرتين" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ صَعْصَعَةَ بْنِ مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا ذَرٍّ ، قُلْتُ: مَا بَالُكَ؟ قَالَ: لِي عَمَلِي، قُلْتُ: حَدِّثْنِي، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَمُوتُ بَيْنَهُمَا ثَلَاثَةٌ مِنْ أَوْلَادِهِمَا لَمْ يَبْلُغُوا الْحِنْثَ، إِلَّا غَفَرَ اللَّهُ لَهُمَا"، قُلْتُ: حَدِّثْنِي، قَالَ: نَعَمْ . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُنْفِقُ مِنْ كُلِّ مَالٍ لَهُ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا اسْتَقْبَلَتْهُ حَجَبَةُ الْجَنَّةِ كُلُّهُمْ يَدْعُوهُ إِلَى مَا عِنْدَهُ"، قُلْتُ: وَكَيْفَ ذَاكَ؟ قَالَ:" إِنْ كَانَتْ رِجَالًا فَرَجُلَيْنِ، وَإِنْ كَانَتْ إِبِلًا فَبَعِيرَيْنِ، وَإِنْ كَانَتْ بَقَرًا فَبَقَرَتَيْنِ" .
صعصعہ بن معاویہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ آپ کے پاس کون سا مال ہے؟ انہوں نے فرمایا میرا مال میرے اعمال ہیں میں نے ان سے کوئی حدیث بیان کرنے کی فرمائش کی تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جن دو مسلمان میاں بیوی کے تین نابالغ بچے فوت ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان میاں بیوی کی بخشش فرما دے گا۔ میں نے عرض کیا کہ مجھے کوئی اور حدیث سنائیے انہوں نے فرمایا اچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو مسلمان اپنے ہر مال میں سے دو جوڑے اللہ کے راستہ میں خرچ کرتا ہے تو جنت کے دربان اس کے سامنے آتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اسے اپنی طرف بلاتا ہے میں نے پوچھا کہ یہ مقام کیسے حاصل ہوسکتا ہے؟ انہوں نے فرمایا اگر بہت سارے غلام ہوں تو دو غلاموں کو آزاد کر دے اونٹ ہوں تو دو اونٹ دے دے اور اگر گائیں ہوں تو دو گائے دے دے۔
حدثنا إسماعيل ، عن يونس ، عن حميد بن هلال ، عن عبد الله بن صامت ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا قام احدكم يصلي، فإنه يستره إذا كان بين يديه مثل آخرة الرحل، فإذا لم يكن بين يديه مثل آخرة الرحل، فإنه يقطع صلاته الحمار والمراة والكلب الاسود"، قلت: يا ابا ذر، ما بال الكلب الاسود من الكلب الاحمر من الكلب الاصفر؟ قال: يا ابن اخي سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما سالتني، فقال:" الكلب الاسود شيطان" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَامِتٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ يُصَلِّي، فَإِنَّهُ يَسْتُرُهُ إِذَا كَانَ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ، فَإِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ، فَإِنَّهُ يَقْطَعُ صَلَاتَهُ الْحِمَارُ وَالْمَرْأَةُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ"، قُلْتُ: يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا بَالُ الْكَلْبِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْكَلْبِ الْأَحْمَرِ مِنَ الْكَلْبِ الْأَصْفَرِ؟ قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ:" الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر انسان کے سامنے کجاوے کا پچھلا حصہ بھی نہ ہو تو اس کی نماز عورت، گدھے یا کالے کتے کے اس کے آگے سے گذرنے پر ٹوٹ جائے گی، راوی نے پوچھا کہ کالے اور سرخ کتے میں کیا فرق ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا بھیتجے! میں نے بھی اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا تھا جیسے تم نے مجھ سے پوچھا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کالا کتا شیطان ہوتا ہے۔
حدثنا جرير ، عن منصور ، عن ربعي بن حراش عمن حدثه، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني اوتيتها من كنز، من بيت تحت العرش، ولم يؤتهما نبي قبلي" يعني الآيتين من آخر سورة البقرة .حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي أُوتِيتُهَا مِنْ كَنْزٍ، مِنْ بَيْتٍ تَحْتَ الْعَرْشِ، وَلَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِيٌّ قَبْلِي" يَعْنِي الْآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سورت بقرہ کی آخری دو آیتیں مجھے عرش کے نیچے ایک کمرے کے خزانے سے دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، رجاله ثقات غير الراوي المبهم الذى روي عنه ربعي، وقد اختلف عليه فى تسميته
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سورت بقرہ کی آخری دو آیتیں مجھے عرش کے نیچے ایک کمرے کے خزانے سے دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سورت بقرہ کی آخری دو آیتیں مجھے عرش کے نیچے ایک کمرے کے خزانے سے دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں جنت کے ایک خزانے کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا لاحول ولاقوۃ الا باللہ (جنت کا ایک خزانہ ہے)
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن زيد بن وهب ، عن ابي ذر ، قال: كنت امشي مع النبي صلى الله عليه وسلم في حرة المدينة عشاء ونحن ننظر إلى احد، فقال:" يا ابا ذر"، قلت: لبيك يا رسول الله، قال: " ما احب ان احدا ذاك عندي ذهبا، امسي ثالثة وعندي منه دينار إلا دينارا ارصده لدين، إلا ان اقول به في عباد الله هكذا" وحثا عن يمينه، وبين يديه، وعن يساره، قال: ثم مشينا، فقال:" يا ابا ذر، إن الاكثرين هم الاقلون يوم القيامة إلا من قال هكذا وهكذا وهكذا" وحثا عن يمينه، وبين يديه، وعن يساره، قال: ثم مشينا، فقال:" يا ابا ذر، كما انت حتى آتيك"، قال: فانطلق حتى توارى عني، قال: فسمعت لغطا وصوتا، قال: فقلت: لعل رسول الله صلى الله عليه وسلم عرض له، قال: فهممت ان اتبعه، ثم ذكرت قوله:" لا تبرح حتى آتيك" فانتظرته حتى جاء، فذكرت له الذي سمعت، فقال:" ذاك جبريل اتاني، فقال: من مات من امتك لا يشرك بالله شيئا، دخل الجنة"، قال: قلت: وإن زنى، وإن سرق؟ قال:" وإن زنى وإن سرق" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرَّةِ الْمَدِينَةِ عِشَاءً وَنَحْنُ نَنْظُرُ إِلَى أُحُدٍ، فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ"، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " مَا أُحِبُّ أَنَّ أُحُدًا ذَاكَ عِنْدِي ذَهَبًا، أُمْسِي ثَالِثَةً وَعِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ إِلَّا دِينَارًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ، إِلَّا أَنْ أَقُولَ بِهِ فِي عِبَادِ اللَّهِ هَكَذَا" وَحَثَا عَنْ يَمِينِهِ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ، وَعَنْ يَسَارِهِ، قَالَ: ثُمَّ مَشَيْنَا، فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّ الْأَكْثَرِينَ هُمْ الْأَقَلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا" وَحَثَا عَنْ يَمِينِهِ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ، وَعَنْ يَسَارِهِ، قَالَ: ثُمَّ مَشَيْنَا، فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، كَمَا أَنْتَ حَتَّى آتِيَكَ"، قَالَ: فَانْطَلَقَ حَتَّى تَوَارَى عَنِّي، قَالَ: فَسَمِعْتُ لَغَطًا وَصَوْتًا، قَالَ: فَقُلْتُ: لَعَلَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَضَ لَهُ، قَالَ: فَهَمَمْتُ أَنْ أَتْبَعَهُ، ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَهُ:" لَا تَبْرَحْ حَتَّى آتِيَكَ" فَانْتَظَرْتُهُ حَتَّى جَاءَ، فَذَكَرْتُ لَهُ الَّذِي سَمِعْتُ، فَقَالَ:" ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَانِي، فَقَالَ: مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِكَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، دَخَلَ الْجَنَّةَ"، قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى، وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ:" وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میرے لئے احد پہاڑ کو سونے کا بنادیا جائے اور جس دن میں دنیا سے رخصت ہو کر جاؤں تو اس میں سے ایک یا آدھا دینار بھی میرے پاس بچ گیا ہو الاّ یہ کہ میں اسے کسی قرض خواہ کے لئے رکھ لوں بلکہ میری خواہش ہوگی کہ اللہ کے بندوں میں اس طرح تقسیم کر دوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ بھر کر دائیں بائیں اور سامنے کی طرف اشارہ کیا پھر ہم دوبارہ چل پڑے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن بکثرت مال رکھنے والے ہی قلت کا شکار ہوں گے سوائے اس کے جو اس اس طرح خرچ کرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ہاتھوں سے دائیں بائیں اور سامنے کی طرف اشارہ فرمایا۔
ہم پھر چل پڑے اور ایک جگہ پہنچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوذر! تم اس وقت تک یہیں رکے رہو جب تک میں تمہارے پاس واپس نہ آجاؤں یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف کو چل پڑے یہاں تک کہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئے تھوڑی دیر بعد میں نے شور کی کچھ آوازیں سنیں میں نے دل میں سوچا کہ کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی حادثہ پیش نہ آگیا ہو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جانے کا سوچا تو مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات یاد آگئی کہ میرے آنے تک یہاں سے نہ ہلنا چنانچہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ وہ واپس تشریف لے آئے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان آوازوں کا ذکر کیا جو میں نے سنی تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو میرے پاس آئے تھے اور یہ کہا کہ آپ کی امت میں سے جو شخص اس حال میں مرے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا، ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا کہ اگرچہ وہ بدکاری یا چوری ہی کرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اگرچہ وہ بدکاری یا چوری ہی کرے)
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا داود بن ابي هند ، عن ابي حرب بن ابي الاسود ، عن ابي الاسود ، عن ابي ذر ، قال: كان يسقي على حوض له، فجاء قوم فقال: ايكم يورد على ابي ذر ويحتسب شعرات من راسه؟ فقال رجل: انا، فجاء الرجل فاورد عليه الحوض فدقه، وكان ابو ذر قائما فجلس، ثم اضطجع، فقيل له: يا ابا ذر، لم جلست، ثم اضطجعت؟ قال: فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال لنا: " إذا غضب احدكم وهو قائم فليجلس، فإن ذهب عنه الغضب وإلا فليضطجع" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ أَبِي حَرْبِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: كَانَ يَسْقِي عَلَى حَوْضٍ لَهُ، فَجَاءَ قَوْمٌ فَقَالَ: أَيُّكُمْ يُورِدُ عَلَى أَبِي ذَرٍّ وَيَحْتَسِبُ شَعَرَاتٍ مِنْ رَأْسِهِ؟ فَقَالَ رَجُلٌ: أَنَا، فَجَاءَ الرَّجُلُ فَأَوْرَدَ عَلَيْهِ الْحَوْضَ فَدَقَّهُ، وَكَانَ أَبُو ذَرٍّ قَائِمًا فَجَلَسَ، ثُمَّ اضْطَجَعَ، فَقِيلَ لَهُ: يَا أَبَا ذَرٍّ، لِمَ جَلَسْتَ، ثُمَّ اضْطَجَعْتَ؟ قَالَ: فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَنَا: " إِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ قَائِمٌ فَلْيَجْلِسْ، فَإِنْ ذَهَبَ عَنْهُ الْغَضَبُ وَإِلَّا فَلْيَضْطَجِعْ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اپنے ایک حوض پر پانی پی رہے تھے کہ کچھ لوگ آئے اور ان میں سے ایک آدمی کہنے لگا کہ تم میں سے کون ابوذر کے پاس جا کر ان کے سر کے بال نوچے گا؟ ایک آدمی نے اپنے آپ کو پیش کیا اور حوض کے قریب پہنچ کر انہیں مارا حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کھڑے تھے پہلے بیٹھے پھر لیٹ گئے کسی نے ان سے پوچھا اے ابوذر! آپ پہلے بیٹھے، پھر لیٹے کیوں؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہوا ہو تو اسے چاہئے کہ بیٹھ جائے غصہ دور ہوجائے تو بہت اچھا ورنہ لیٹ جائے۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، لكن قد اختلف على داود بن ابي هند فى اسناده
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں جنت کے ایک خزانے کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا لاحول ولاقوۃ الا باللہ (جنت کا ایک خزانہ ہے)
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے جو شخص مہینے میں تین دن روزے رکھنا چاہتا ہو، اسے ایام بیض کے روزے رکھنے چاہئیں۔