حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے بحوالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم! اگر تو زمین بھر کر گناہ کرے لیکن میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں زمین بھر کر بخشش تیرے لئے مقرر کردوں گا۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت اس وقت تک خیر پر قائم رہے گی جب تک وہ افطاری میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرتی رہے گی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة سيئ الحفظ ، وسليمان بن أبى عثمان وعدي بن حاتم مجهولان
حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن عبد الله بن شقيق ، قال: قلت لابي ذر لو رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم لسالته، قال: وما كنت تساله؟ قال: كنت اساله هل راى ربه؟ قال: فإني قد سالته، فقال: " قد رايته نورا، انى اراه؟!"، قال عفان: وبلغني عن ابن هشام يعني معاذا، انه رواه عن ابيه كما قال همام:" قد رايته" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ لَوْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَسَأَلْتُهُ، قَالَ: وَمَا كُنْتَ تَسْأَلُهُ؟ قَالَ: كُنْتُ أَسْأَلُهُ هَلْ رَأَى رَبَّهُ؟ قَالَ: فَإِنِّي قَدْ سَأَلْتُهُ، فَقَالَ: " قَدْ رَأَيْتُهُ نُورًا، أَنَّى أَرَاهُ؟!"، قَالَ عَفَّانُ: وَبَلَغَنِي عَنْ ابْنِ هِشَامٍ يَعْنِي مُعَاذًا، أَنَّهُ رَوَاهُ عَنْ أَبِيهِ كَمَا قَالَ هَمَّامٌ:" قَدْ رَأَيْتُهُ" .
عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ کاش! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہوتا تو ان سے ایک سوال ہی پوچھ لیتا، انہوں نے فرمایا تم ان سے کیا سوال پوچھتے؟ انہوں نے کہا کہ میں یہ سوال پوچھتا کہ کیا آپ نے اپنے رب کی زیارت کی ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ سوال تو میں ان سے پوچھ چکا ہوں جس کے جواب میں انہوں نے فرمایا تھا کہ میں نے ایک نور دیکھا ہے، میں اسے کہاں دیکھ سکتا ہوں؟ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن سليمان الاعمش ، عن مجاهد ، عن عبيد بن عمير الليثي ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اعطيت خمسا لم يعطهن احد قبلي بعثت إلى الاحمر والاسود، وجعلت لي الارض طهورا ومسجدا، واحلت لي الغنائم، ولم تحل لاحد قبلي، ونصرت بالرعب، فيرعب العدو وهو مني مسيرة شهر، وقيل لي سل تعطه، واختبات دعوتي شفاعة لامتي، فهي نائلة منكم إن شاء الله، من لم يشرك بالله شيئا" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ اللَّيْثِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي بُعِثْتُ إِلَى الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ، وَجُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا، وَأُحِلَّتْ لِي الْغَنَائِمُ، وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، فَيُرْعَبُ الْعَدُوُّ وَهُوَ مِنِّي مَسِيرَةَ شَهْرٍ، وَقِيلَ لِي سَلْ تُعْطَهْ، وَاخْتَبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي، فَهِيَ نَائِلَةٌ مِنْكُمْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، مَنْ لَمْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے پانچ ایسی خصوصیات دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں چنانچہ رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے اور ایک مہینے کی مسافت پر ہی دشمن مجھ سے مرعوب ہوجاتا ہے، روئے زمین کو میرے لئے سجدہ گاہ اور باعث طہارت قرار دے دیا گیا ہے میرے لئے مال غنیمت کو حلال کردیا گیا ہے جو کہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں ہوا مجھے ہر سرخ و سیاہ کی طرف مبعوث کیا گیا ہے اور مجھ سے کہا گیا کہ مانگیے آپ کو دیا جائے گا تو میں نے اپنا یہ حق اپنی امت کی سفارش کے لئے محفوظ کرلیا ہے اور یہ شفاعت تم میں سے ہر اس شخص کو مل کر رہے گی جو اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔
حدثنا حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا عاصم ، عن المعرور بن سويد ، ان ابا ذر ، قال: حدثنا الصادق المصدوق صلى الله عليه وسلم فيما يروي عن ربه عز وجل، انه قال: " الحسنة بعشر امثالها او ازيد، والسيئة بواحدة او اغفر، ولو لقيتني بقراب الارض خطايا، ما لم تشرك بي، لقيتك بقرابها مغفرة" ، قال: وقراب الارض ملء الارض،حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا يَرْوِي عَنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، أَنَّهُ قَالَ: " الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا أَوْ أَزِيدُ، وَالسَّيِّئَةُ بِوَاحِدَةٍ أَوْ أَغْفِرُ، وَلَوْ لَقِيتَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا، مَا لَمْ تُشْرِكْ بِي، لَقِيتُكَ بِقُرَابِهَا مَغْفِرَةً" ، قَالَ: وَقُرَابُ الْأَرْضِ مِلْءُ الْأَرْضِ،
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صادق ومصدوق نے ہم سے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بیان کیا ہے کہ ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہے جس میں میں اضافہ بھی کرسکتا ہوں اور ایک گناہ کا بدلہ اس کے برابر ہی ہے اور میں اسے معاف بھی کرسکتا ہوں اور اے ابن آدم! اگر تو زمین بھر کر گناہوں کے ساتھ مجھ سے ملے لیکن میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو میں زمین بھر کر بخشش کے ساتھ تجھ سے ملوں گا۔
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، عن مطرف ، قال: قعدت إلى نفر من قريش، فجاء رجل فجعل يصلي يركع ويسجد ثم يقوم، ثم يركع ويسجد لا يقعد، فقلت والله ما ارى هذا يدري ينصرف على شفع او وتر، فقالوا: الا تقوم إليه فتقول له؟! قال: فقمت، فقلت: يا عبد الله، ما اراك تدري تنصرف على شفع او على وتر، قال: ولكن الله يدري، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من سجد لله سجدة، كتب الله له بها حسنة، وحط بها عنه خطيئة، ورفع له بها درجة"، فقلت: من انت؟ فقال ابو ذر: فرجعت إلى اصحابي، فقلت: جزاكم الله من جلساء شرا، امرتموني ان اعلم رجلا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، قَالَ: قَعَدْتُ إِلَى نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَجَاءَ رَجُلٌ فَجَعَلَ يُصَلِّي يَرْكَعُ وَيَسْجُدُ ثُمَّ يَقُومُ، ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَسْجُدُ لَا يَقْعُدُ، فَقُلْتُ وَاللَّهِ مَا أَرَى هَذَا يَدْرِي يَنْصَرِفُ عَلَى شَفْعٍ أَوْ وِتْرٍ، فَقَالُوا: أَلَا تَقُومُ إِلَيْهِ فَتَقُولَ لَهُ؟! قَالَ: فَقُمْتُ، فَقُلْتُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، مَا أَرَاكَ تَدْرِي تَنْصَرِفُ عَلَى شَفْعٍ أَوْ عَلَى وَتْرٍ، قَالَ: وَلَكِنَّ اللَّهَ يَدْرِي، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ سَجَدَ لِلَّهِ سَجْدَةً، كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهَا حَسَنَةً، وَحَطَّ بِهَا عَنْهُ خَطِيئَةً، وَرَفَعَ لَهُ بِهَا دَرَجَةً"، فَقُلْتُ: مَنْ أَنْتَ؟ فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: فَرَجَعْتُ إِلَى أَصْحَابِي، فَقُلْتُ: جَزَاكُمْ اللَّهُ مِنْ جُلَسَاءَ شَرًّا، أَمَرْتُمُونِي أَنْ أُعَلِّمَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
مطرف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں قریش کے کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا اور نماز پڑھنے لگا وہ رکوع سجدہ کرتا پھر کھڑا ہو کر رکوع سجدہ کرتا اور درمیان میں نہ بیٹھتا، میں نے کہا بخدا! یہ تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ بھی نہیں جانتا کہ جفت یا طاق رکعتوں پر سلام پھیر کر فارغ ہوجائے لوگوں نے مجھ سے کہا کہ اٹھ کر ان کے پاس جاتے اور انہیں سمجھاتے کیوں نہیں ہو؟ میں اٹھ کر اس کے پاس چلا گیا اور اس سے کہا کہ اے بندہ خدا! لگتا ہے کہ آپ کو کچھ معلوم نہیں ہے کہ جفت یا طاق رکعتوں پر نماز سے فارغ ہوجائیں، اس نے کہا کہ اللہ تو جانتا ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ کے لئے کوئی سجدہ کرتا ہے اللہ اس کے لئے ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور ایک گناہ معاف کردیتا ہے اور ایک درجہ بلند کردیتا ہے میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ابوذر ہوں تو میں نے اپنے ساتھیوں کے پاس واپس آکر کہا کہ اللہ تمہیں تمہارے ساتھیوں کی طرف سے برا بدلہ دے تم نے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو دین سکھانے کے لئے بھیج دیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف الضعف على بن زيد
حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال علي بن مدرك : اخبرني، قال: سمعت ابا زرعة يحدث، عن خرشة بن الحر ، عن ابي ذر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ثلاثة لا يكلمهم الله، ولا ينظر إليهم يوم القيامة ولا يزكيهم، ولهم عذاب اليم"، قال: قلت: يا رسول الله، من هم؟ خسروا وخابوا! قال: فاعاده رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث مرات، قال:" المسبل، والمنفق سلعته بالحلف الكاذب، او الفاجر، والمنان" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ عَلِيُّ بْنُ مُدْرِكٍ : أَخْبَرَنِي، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمْ اللَّهُ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ هُمْ؟ خَسِرُوا وَخَابُوا! قَالَ: فَأَعَادَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ:" الْمُسْبِلُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ، أَوْ الْفَاجِرِ، وَالْمَنَّانُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین قسم کے آدمی ایسے ہوں گے جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات کرے گا نہ انہیں دیکھے اور ان کا تزکیہ کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ کون لوگ ہیں؟ یہ تو نقصان اور خسارے میں پڑگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات تین مرتبہ دہرا کر فرمایا تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان فروخت کرنے والا اور احسان جتانے والا۔
حدثنا عفان ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، حدثنا الحارث بن حصيرة ، حدثنا زيد بن وهب ، قال: قال ابو ذر : لان احلف عشر مرار ان ابن صائد هو الدجال، احب إلي من ان احلف مرة واحدة انه ليس به، قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثني إلى امه، فقال: " سلها كم حملت به"، قال: فاتيتها فسالتها، فقالت: حملت به اثني عشر شهرا، قال: ثم ارسلني إليها، فقال:" سلها عن صيحته حين وقع"، قال: فرجعت إليها فسالتها، فقالت: صاح صيحة الصبي ابن شهر، ثم قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني قد خبات لك خبئا" قال: خبات لي خطم شاة عفراء والدخان، قال: فاراد ان يقول: الدخان فلم يستطع، فقال: الدخ الدخ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اخسا، فإنك لن تعدو قدرك" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ حَصِيرَةَ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ : لَأَنْ أَحْلِفَ عَشْرَ مِرَارٍ أَنَّ ابْنَ صَائِدٍ هُوَ الدَّجَّالُ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَحْلِفَ مَرَّةً وَاحِدَةً أَنَّهُ لَيْسَ بِهِ، قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي إِلَى أُمِّهِ، فَقَالَ: " سَلْهَا كَمْ حَمَلَتْ بِهِ"، قَالَ: فَأَتَيْتُهَا فَسَأَلْتُهَا، فَقَالَتْ: حَمَلْتُ بِهِ اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا، قَالَ: ثُمَّ أَرْسَلَنِي إِلَيْهَا، فَقَالَ:" سَلْهَا عَنْ صَيْحَتِهِ حِينَ وَقَعَ"، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَيْهَا فَسَأَلْتُهَا، فَقَالَتْ: صَاحَ صَيْحَةَ الصَّبِيِّ ابْنِ شَهْرٍ، ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبْئًا" قَالَ: خَبَأْتَ لِي خَطْمَ شَاةٍ عَفْرَاءَ وَالدُّخَانَ، قَالَ: فَأَرَادَ أَنْ يَقُولَ: الدُّخَانَ فَلَمْ يَسْتَطِعْ، فَقَالَ: الدُّخُّ الدُّخُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اخْسَأْ، فَإِنَّكَ لَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے دس مرتبہ یہ قسم کھانا کہ ابن صیاد ہی دجال ہے اس بات سے زیادہ محبوب ہے کہ میں ایک مرتبہ اس کے دجال نہ ہونے کی قسم کھاؤں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھے اس کی ماں کے پاس بھیجا اور فرمایا اس سے پوچھ کر آؤ کہ وہ ابن صیاد سے کتنے عرصے تک حاملہ رہی؟ چنانچہ میں نے اس سے جاکر پوچھا تو اس نے بتایا میں اس سے بارہ مہینے تک حاملہ رہی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دوبارہ اس کے پاس بھیجا اور فرمایا اس سے یہ پوچھو کہ جب وہ پیدا ہوا تو اس کی آواز کیسی تھی؟ میں نے دوبارہ جا کر اس سے یہ سوال پوچھا تو اس نے بتایا جیسے ایک مہینے کے بچے کی آواز ہوتی ہے یہ اس طرح رویا چیخا تھا۔
پھر ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ میں نے تیرے لئے ایک بات اپنے ذہن میں سوچی ہے بتا وہ کیا ہے؟ اس نے کہا کہ آپ نے میرے لئے ایک سفید بکری کی ناک اور دھواں سوچا ہے وہ " دخان " کا لفظ کہنا چاہتا تھا لیکن کہہ نہ سکا اس لئے صرف دخ دخ ہی کہنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا دور ہو تو اپنی حیثیت سے آگے ہرگز نہیں بڑھ سکتا۔
حكم دارالسلام: حديث منكر لأجل الحارث بن حصيرة، وأما حديث صياد يعني أصل حديثه فقد رواه جماعة من أصحاب النبى عنه بأسانيد صحاح
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا کلام سب سے افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہی ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے منتخب کیا ہے یعنی سبحان اللہ وبحمدہ۔