حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص نماز کا انتظار کرتے ہوئے مسجد میں بیٹھا رہے وہ نماز ہی میں شمار ہوتا ہے۔
حدثنا ابو النضر ، حدثنا عبد الرحمن يعني ابن عبد الله بن دينار ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل في بعض مغازيه، فابلى بلاء حسنا، فعجب المسلمون من بلائه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما إنه من اهل النار" , قلنا: في سبيل الله مع رسول الله! الله ورسوله اعلم , قال: فجرح الرجل، فلما اشتدت به الجراح وضع ذباب سيفه بين ثدييه، ثم اتكا عليه، فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقيل له: الرجل الذي قلت له ما قلت، قد رايته يتضرب والسيف بين اضعافه , فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إن الرجل ليعمل بعمل اهل الجنة فيما يبدو للناس، وإنه لمن اهل النار، وإنه ليعمل عمل اهل النار فيما يبدو للناس، وإنه لمن اهل الجنة" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ، فَأَبْلَى بَلَاءً حَسَنًا، فَعَجِبَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ بَلَائِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَا إِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ" , قُلْنَا: فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ! اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ: فَجُرِحَ الرَّجُلُ، فَلَمَّا اشْتَدَّتْ بِهِ الْجِرَاحُ وَضَعَ ذُبَابَ سَيْفِهِ بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، ثُمَّ اتَّكَأَ عَلَيْهِ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ: الرَّجُلُ الَّذِي قُلْتَ لَهُ مَا قُلْتَ، قَدْ رَأَيْتُهُ يَتَضَرَّبُ وَالسَّيْفُ بَيْنَ أَضْعَافِهِ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فِيمَا يَبْدُوَ لِلنَّاسِ، وَإِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّهُ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ فِيمَا يَبْدُو لِلنَّاسِ، وَإِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک غزوے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک آدمی تھا جس نے خوب جوانمردی کے ساتھ میدان جنگ میں کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے مسلمان اس سے بہت خوش تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ آدمی جہنمی ہے ہم نے عرض کیا کہ اللہ کے راستے میں اور اللہ کے پیغمبر کے ساتھ ہونے کے باوجود؟ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں دوران جنگ اس آدمی کو ایک زخم لگا جب زخم کی تکلیف شدت اختیار کرگئی تو اس نے اپنی تلوار اپنی چھاتی پر رکھی اور اسے آرپار کردیا یہ دیکھ کر ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر بتایا کہ جس آدمی کے متعلق آپ نے وہ بات فرمائی تھی اسے میں نے اپنے جسم میں تلوار پیوست کرتے ہوئے دیکھا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان بظاہر لوگوں کی نظروں میں اہل جنت والے اعمال کر رہا ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ اہل جہنم میں ہوتا ہے اسی طرح انسان بظاہر لوگوں کی نظروں میں اہل جہنم والے اعمال کر رہا ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ جنتی ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2898، م: 112، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل عبدالرحمن بن عبدالله
حدثنا عبد الصمد ، قال: حدثنا عبد الرحمن يعني ابن عبد الله بن دينار ، حدثنا ابو حازم ، عن سهل بن سعد ، انه قيل له: هل راى رسول الله صلى الله عليه وسلم النقي قبل موته بعينه يعني: الحوارى؟ قال: " ما راى رسول الله صلى الله عليه وسلم النقي بعينه حتى لقي الله عز وجل , فقيل له: هل كان لكم مناخل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: ما كانت لنا مناخل , قيل له: فكيف كنتم تصنعون بالشعير؟ قال: ننفخه فيطير منه ما طار" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنَّهُ قِيلَ لَهُ: هَلْ رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّقِيَّ قَبْلَ مَوْتِهِ بِعَيْنِهِ يَعْنِي: الْحُوَّارَى؟ قَالَ: " مَا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّقِيَّ بِعَيْنِهِ حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ , فَقِيلَ لَهُ: هَلْ كَانَ لَكُمْ مَنَاخِلُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: مَا كَانَتْ لَنَا مَنَاخِلُ , قِيلَ لَهُ: فَكَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ بِالشَّعِيرِ؟ قَالَ: نَنْفُخُهُ فَيَطِيرُ مِنْهُ مَا طَارَ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال سے قبل اپنی آنکھوں سے میدے کو دیکھا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں سے کبھی میدے کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ اللہ سے جا ملے سائل نے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں کے پاس عہد نبوت میں چھلنیاں ہوتی تھیں؟ انہوں نے فرمایا ہمارے پاس چھلنیاں نہیں تھیں سائل نے پوچھا پھر آپ لوگ جو کے ساتھ کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہم اسے پھونکیں مارتے تھے جتنا اڑنا ہوتا تھا وہ اڑ جاتا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم ، عن ابيه ، عن سهل بن سعد ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالخندق وهم يحفرون، ونحن ننقل التراب على اكتافنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اللهم لا عيش إلا عيش الآخرة، فاغفر للمهاجرين , والانصار" .حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَالْخَنْدَقِ وَهُمْ يَحْفِرُونَ، وَنَحْنُ نَنْقُلُ التُّرَابَ عَلَى أَكْتَافِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَةِ، فَاغْفِرْ لِلْمُهَاجِرِينَ , وَالْأَنْصَارِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ غزوہ خندق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ خندق کھود رہے تھے اور اپنے کندھوں پر اٹھا اٹھا کر مٹی نکال کر لیجا رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر فرمانے لگے اے اللہ! اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اے اللہ! مہاجرین و انصار کی بخشش فرما۔
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا ابو حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: كان قتال بين بني عمرو بن عوف، فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم، فاتاهم بعد الظهر ليصلح بينهم، وقال:" يا بلال، إن حضرت الصلاة ولم آت، فمر ابا بكر فليصل بالناس" , قال: فلما حضرت العصر اقام بلال الصلاة، ثم امر ابا بكر فتقدم بهم، وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بعدما دخل ابو بكر في الصلاة، فلما راوه صفحوا، وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يشق الناس حتى قام خلف ابي بكر، قال: وكان ابو بكر إذا دخل في الصلاة لم يلتفت، فلما راى التصفيح لا يمسك عنه، فالتفت فراى النبي صلى الله عليه وسلم خلفه، فاوما إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده ان امضه، فقام ابو بكر هنية، فحمد الله على ذلك، ثم مشى القهقرى، قال: فتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم , فصلى بالناس، فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاته، قال:" يا ابا بكر، ما منعك إذ اومات إليك ان لا تكون مضيت؟" , قال: فقال ابو بكر لم يكن لابن ابي قحافة ان يؤم رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال للناس: " إذا نابكم في صلاتكم شيء، فليسبح الرجال، وليصفح النساء" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: كَانَ قِتَالٌ بَيْنَ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُمْ بَعْدَ الظُّهْرِ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ، وَقَالَ:" يَا بِلَالُ، إِنْ حَضَرَتْ الصَّلَاةُ وَلَمْ آتِ، فَمُرْ أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ" , قَالَ: فَلَمَّا حَضَرَتْ الْعَصْرُ أَقَامَ بِلَالٌ الصَّلَاةَ، ثُمَّ أَمَرَ أَبَا بَكْرٍ فَتَقَدَّمَ بِهِمْ، وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَمَا دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فِي الصَّلَاةِ، فَلَمَّا رَأَوْهُ صَفَّحُوا، وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشُقُّ النَّاسَ حَتَّى قَامَ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ لَمْ يَلْتَفِتْ، فَلَمَّا رَأَى التَّصْفِيحَ لَا يُمْسَكُ عَنْهُ، فَالْتَفَتَ فَرَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَهُ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ أَنْ امْضِهْ، فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ هُنَيَّةً، فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ مَشَى الْقَهْقَرَى، قَالَ: فَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ، قَالَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا مَنَعَكَ إِذْ أَوْمَأْتُ إِلَيْكَ أَنْ لَا تَكُونَ مَضَيْتَ؟" , قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لَمْ يَكُنْ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يَؤُمَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ لِلنَّاسِ: " إِذَا نَابَكُمْ فِي صَلَاتِكُمْ شَيْءٌ، فَلْيُسَبِّحْ الرِّجَالُ، وَلْيُصَفِّحْ النِّسَاءُ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ انصاری لوگوں کے درمیان کچھ رنجش ہوگئی تھی جن کے درمیان صلح کرانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے نماز کا وقت آیا تو حضرت بلال سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کیا اے ابوبکر! نماز کا وقت ہوچکا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں موجود نہیں ہیں کیا میں اذان دے کر اقامت کہوں تو آپ آگے بڑھ کر نماز پڑھا دیں گے؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہاری مرضی چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان و اقامت کہی اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر نماز شروع کردی۔ اسی دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے لوگ تالیاں بجانے لگے جسے محسوس کر کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارے سے فرمایا کہ اپنی ہی جگہ رہو لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے آگے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھا دی نماز سے فارغ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر! تمہیں اپنی جگہ ٹھہرنے سے کس چیز نے منع کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ ابن ابی قحافہ کی یہ جرأت کہاں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا تم لوگوں نے تالیاں کیوں بجائیں؟ انہوں نے عرض کیا تاکہ ابوبکر کو مطلع کرسکیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تالیاں بجانے کا حکم عورتوں کے لئے ہے اور سبحان اللہ کہنے کا حکم مردوں کے لئے۔
حدثنا يونس بن محمد ، حدثنا حماد ، حدثني عبيد الله بن عمر ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: حماد: ثم لقيت ابا حازم فحدثني به، فلم انكر مما حدثني شيئا، قال: كان قتال بين بني عمرو بن عوف، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم بعد الظهر، فاتاهم ليصلح بينهم، وقال لبلال:" إن حضرت الصلاة ولم آت، فمر ابا بكر فليصل بالناس" , قال: فلما حضرت الصلاة، اذن، ثم اقام، فامر ابا بكر فتقدم، فلما تقدم جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما جاء صفح الناس، قال: وكان ابو بكر إذا دخل في الصلاة لم يلتفت، قال: فلما رآهم لا يمسكون التفت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فاوما إليه بيده ان امضه، قال: فرجع ابو بكر القهقرى، قال: وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة، قال:" يا ابا بكر، ما منعك إذ اومات إليك ان تمضي في صلاتك؟" قال: فقال: ما كان لابن ابي قحافة ان يؤم رسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم قال: " إذا نابكم في الصلاة شيء فليسبح الرجال، وليصفق النساء" .حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: حَمَّادٌ: ثُمَّ لَقِيتُ أَبَا حَازِمٍ فَحَدَّثَنِي بِهِ، فَلَمْ أُنْكِرْ مِمَّا حَدَّثَنِي شَيْئًا، قَالَ: كَانَ قِتَالٌ بَيْنَ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الظُّهْرِ، فَأَتَاهُمْ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ، وَقَالَ لِبِلَالٍ:" إِنْ حَضَرَتْ الصَّلَاةُ وَلَمْ آتِ، فَمُرْ أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ" , قَالَ: فَلَمَّا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ، أَذَّنَ، ثُمَّ أَقَامَ، فَأَمَرَ أَبَا بَكْرٍ فَتَقَدَّمَ، فَلَمَّا تَقَدَّمَ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جَاءَ صَفَّحَ النَّاسُ، قَالَ: وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ لَمْ يَلْتَفِتْ، قَالَ: فَلَمَّا رَآهُمْ لَا يُمْسِكُونَ الْتَفَتَ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ بِيَدِهِ أَنْ امْضِهْ، قَالَ: فَرَجَعَ أَبُو بَكْرٍ الْقَهْقَرَى، قَالَ: وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، قَالَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا مَنَعَكَ إِذْ أَوْمَأْتُ إِلَيْكَ أَنْ تَمْضِيَ فِي صَلَاتِكَ؟" قَالَ: فَقَالَ: مَا كَانَ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يَؤُمَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ قَالَ: " إِذَا نَابَكُمْ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ فَلْيُسَبِّحْ الرِّجَالُ، وَلْيُصَفِّقْ النِّسَاءُ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ انصاری لوگوں کے درمیان کچھ رنجش ہوگئی تھی جن کے درمیان صلح کرانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے نماز کا وقت آیا تو حضرت بلال سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کیا اے ابوبکر! نماز کا وقت ہوچکا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں موجود نہیں ہیں کیا میں اذان دے کر اقامت کہوں تو آپ آگے بڑھ کر نماز پڑھا دیں گے؟ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہاری مرضی چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان و اقامت کہی اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر نماز شروع کردی۔ اسی دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے لوگ تالیاں بجانے لگے جسے محسوس کر کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارے سے فرمایا کہ اپنی ہی جگہ رہو لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے آگے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھا دی نماز سے فارغ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکر! تمہیں اپنی جگہ ٹھہرنے سے کس چیز نے منع کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ ابن ابی قحافہ کی یہ جرأت کہاں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا تم لوگوں نے تالیاں کیوں بجائیں؟ انہوں نے عرض کیا تاکہ ابوبکر کو مطلع کرسکیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تالیاں بجانے کا حکم عورتوں کے لئے ہے اور سبحان اللہ کہنے کا حکم مردوں کے لئے۔
حدثنا احمد بن عبد الملك ، حدثنا حماد بن زيد ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إن للجنة بابا يقال له: الريان , قال: يقال يوم القيامة: اين الصائمون؟ هلموا إلى الريان، فإذا دخل آخرهم، اغلق ذلك الباب" .حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ لِلْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ: الرَّيَّانُ , قَالَ: يُقَالُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: أَيْنَ الصَّائِمُونَ؟ هَلُمُّوا إِلَى الرَّيَّانِ، فَإِذَا دَخَلَ آخِرُهُمْ، أُغْلِقَ ذَلِكَ الْبَابُ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جنت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام " ریان " ہے قیامت کے دن یہ اعلان کیا جائے گا کہ روزے دار کہاں ہیں؟ ریان کی طرف آؤ جب ان کا آخری آدمی بھی اندر داخل ہوچکے گا تو وہ دروازہ بند کردیا جائے گا۔
حدثنا عفان ، حدثنا بشر بن المفضل ، حدثنا عبد الرحمن بن إسحاق ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن للجنة بابا يدعى: الريان، يقال يوم القيامة: اين الصائمون؟ فإذا دخلوه اغلق، فلم يدخل منه غيرهم" , قال: فلقيت ابا حازم فسالته فحدثني به، غير اني لحديث عبد الرحمن احفظ.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ لِلْجَنَّةِ بَابًا يُدْعَى: الرَّيَّانُ، يُقَالُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: أَيْنَ الصَّائِمُونَ؟ فَإِذَا دَخَلُوهُ أُغْلِقَ، فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ غَيْرُهُمْ" , قَالَ: فَلَقِيتُ أَبَا حَازِمٍ فَسَأَلْتُهُ فَحَدَّثَنِي بِهِ، غَيْرَ أَنِّي لِحَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَحْفَظُ.
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جنت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام " ریان " ہے قیامت کے دن یہ اعلان کیا جائے گا کہ روزے دار کہاں ہیں؟ ریان کی طرف آؤ جب ان کا آخری آدمی بھی اندر داخل ہوچکے گا تو وہ دروازہ بند کردیا جائے گا۔
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح ہوں گے یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت والی اور درمیانی انگلی میں کچھ فاصلہ رکھتے ہوئے اشارہ فرمایا۔
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن ، عن ابي حازم ، اخبرني سهل بن سعد ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال يوم خيبر: " لاعطين هذه الراية غدا رجلا يفتح الله على يديه، يحب الله ورسوله، ويحبه الله ورسوله" , قال: فبات الناس يدوكون ليلتهم ايهم يعطاها، فلما اصبح الناس، غدوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، كلهم يرجو ان يعطاها، فقال:" اين علي بن ابي طالب؟ فقال: هو يا رسول الله يشتكي عينيه , قال: فارسلوا إليه فاتي به، فبصق رسول الله صلى الله عليه وسلم في عينيه ودعا له، فبرا حتى كان لم يكن به وجع، فاعطاه الراية، فقال علي: يا رسول الله , اقاتلهم حتى يكونوا مثلنا؟ فقال: انفذ على رسلك حتى تنزل بساحتهم، ثم ادعهم إلى الإسلام، واخبرهم بما يجب عليهم من حق الله فيه، فوالله لان يهدي الله بك رجلا واحدا، خير لك من ان يكون لك حمر النعم" .حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، أَخْبَرَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ: " لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ، يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ" , قَالَ: فَبَاتَ النَّاسُ يَدُوكُونَ لَيْلَتَهُمْ أَيُّهُمْ يُعْطَاهَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ، غَدَوْا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كُلُّهُمْ يَرْجُو أَنْ يُعْطَاهَا، فَقَالَ:" أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ؟ فَقَالَ: هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ , قَالَ: فَأَرْسِلُوا إِلَيْهِ فَأُتِيَ بِهِ، فَبَصَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَيْنَيْهِ وَدَعَا لَهُ، فَبَرَأَ حَتَّى كَأَنْ لَمْ يَكُنْ بِهِ وَجَعٌ، فَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ، فَقَالَ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَنَا؟ فَقَالَ: انْفُذْ عَلَى رِسْلِكَ حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّ اللَّهِ فِيهِ، فَوَاللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا، خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ" .
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کل میں یہ جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں اللہ خیبر پر فتح عطاء فرما دے گا وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا لوگوں کی رات اسی اشتیاق میں گذر گئی کہ دیکھیں جھنڈا کس کو ملتا ہے؟ صبح ہوئی تو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہر ایک کی خواہش یہی تھی کہ جھنڈا اسے ملے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ تو بیمار ہیں چنانچہ انہیں قاصد بھیج کر بلایا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں پر لعاب دہن لگایا اور ان کے لئے دعاء کی تو وہ ٹھیک ہوگئے اور یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ کبھی بیمار ہی نہیں ہوئے تھے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جھنڈا انہیں دے دیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں ان سے اس وقت تک قتال کروں جب تک وہ ہم جیسے نہ ہوجائیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رکو جب تم ان کے علاقے میں پہنچو تو انہیں اسلام کی طرف دعوت دو اور انہیں اللہ کے حقوق سے آگاہ کرو، بخدا! تمہارے ذریعے کسی ایک آدمی کو ہدایت مل جانا تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔