حدثنا عبد الله، حدثنا شجاع بن مخلد ، حدثنا هشيم ، عن مغيرة ، عن الشعبي ، قال: قال عبادة بن الصامت : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " من جرح في جسده جراحة فتصدق بها، كفر الله عز وجل عنه بمثل ما تصدق به" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ: قَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ جُرِحَ فِي جَسَدِهِ جِرَاحَةً فَتَصَدَّقَ بِهَا، كَفَّرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنْهُ بِمِثْلِ مَا تَصَدَّقَ بِهِ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس شخص کے جسم پر کوئی زخم لگ جائے اور وہ صدقہ خیرات کر دے تو اس صدقے کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کا کفارہ فرما دیتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح بشواهده، وهذا إسناد ضعيف، الشعبي لم يسمع من عبادة
حدثنا حدثنا يعمر بن بشر ، حدثنا عبد الله بن المبارك ، اخبرنا رشدين بن سعد ، حدثني ابو هانئ الخولاني ، عن عمرو بن مالك الجنبي ، ان فضالة بن عبيد , وعبادة بن الصامت حدثاه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا كان يوم القيامة وفرغ الله تعالى من قضاء الخلق، فيبقى رجلان، فيؤمر بهما إلى النار، فيلتفت احدهما، فيقول الجبار تعالى: ردوه، فيردوه، قال له: لم التفت؟ قال: إن كنت ارجو ان تدخلني الجنة، قال: فيؤمر به إلى الجنة، فيقول: لقد اعطاني الله عز وجل حتى لو اني اطعمت اهل الجنة ما نقص ذلك مما عندي شيئا" , قال: فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ذكره يرى السرور في وجهه.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَعْمَرُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، أَخْبَرَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ الْجَنْبِيِّ ، أَنَّ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ , وَعُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ حَدَّثَاهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ وَفَرَغَ اللَّهُ تَعَالَى مِنْ قَضَاءِ الْخَلْقِ، فَيَبْقَى رَجُلَانِ، فَيُؤْمَرُ بِهِمَا إِلَى النَّارِ، فَيَلْتَفِتُ أَحَدُهُمَا، فَيَقُولُ الْجَبَّارُ تَعَالَى: رُدُّوهُ، فَيَرُدُّوهُ، قَالَ لَهُ: لِمَ الْتَفَتَّ؟ قَالَ: إِنْ كُنْتُ أَرْجُو أَنْ تُدْخِلَنِي الْجَنَّةَ، قَالَ: فَيُؤْمَرُ بِهِ إِلَى الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ: لَقَدْ أَعْطَانِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى لَوْ أَنِّي أَطْعَمْتُ أَهْلَ الْجَنَّةِ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِمَا عِنْدِي شَيْئًا" , قَالَ: فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَكَرَهُ يُرَى السُّرُورُ فِي وَجْهِهِ.
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ مخلوق کے حساب سے فارغ ہوجائے گا تو دو آدمی رہ جائیں گے ان کے متعلق حکم ہوگا کہ انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے ان میں سے ایک جاتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھے گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اسے واپس لے کر آؤ چنانچہ فرشتے اسے واپس لائیں گے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تو نے پیچھے مڑ کر کیوں دیکھا؟ وہ جواب دے گا کہ مجھے امید تھی کہ آپ مجھے جنت میں داخل فرمائیں گے چنانچہ اسے جنت میں لے جانے کا حکم دیا جائے گا اور وہ کہتا ہوں گا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اتنا دیا ہے کہ اگر میں تمام اہل جنت کو کھانے کی دعوت دوں تو میرے پاس سے کچھ بھی کم نہ ہوگا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی یہ بات ذکر فرماتے تھے تو چہرہ مبارک پر بشاشت کے اثرات دکھائی دیتے تھے۔
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس شخص کے جسم پر کوئی زخم لگ جائے اور وہ صدقہ خیرات کر دے تو اس صدقے کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کا کفارہ فرما دیتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح بشواهده ، هذا إسناد ضعيف، الشعبي لم يسمع من عبادة
حدثنا عبد الله، حدثني عبد الله بن سالم الكوفي المفلوج وكان ثقة، حدثنا عبيدة بن الاسود ، عن القاسم بن الوليد ، عن ابي صادق ، عن ربيعة بن ناجد ، عن عبادة بن الصامت , ان النبي صلى الله عليه وسلم كان ياخذ الوبرة من جنب البعير من المغنم، فيقول: " ما لي فيه إلا مثل ما لاحدكم منه، إياكم والغلول، فإن الغلول خزي على صاحبه يوم القيامة، ادوا الخيط والمخيط وما فوق ذلك، وجاهدوا في سبيل الله تعالى القريب والبعيد في الحضر والسفر، فإن الجهاد باب من ابواب الجنة، إنه لينجي الله تبارك وتعالى به من الهم والغم، واقيموا حدود الله في القريب والبعيد، ولا تاخذكم في الله لومة لائم" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَالِمٍ الْكُوفِيُّ الْمَفْلُوجُ وَكَانَ ثِقَةً، حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ بْنُ الْأَسْوَدِ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ الْوَلِيدِ ، عَنْ أَبِي صَادِقٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ نَاجِدٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْخُذُ الْوَبَرَةَ مِنْ جَنْبِ الْبَعِيرِ مِنَ الْمَغْنَمِ، فَيَقُولُ: " مَا لِي فِيهِ إِلَّا مِثْلُ مَا لِأَحَدِكُمْ مِنْهُ، إِيَّاكُمْ وَالْغُلُولَ، فَإِنَّ الْغُلُولَ خِزْيٌ عَلَى صَاحِبِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، أَدُّوا الْخَيْطَ وَالْمَخِيطَ وَمَا فَوْقَ ذَلِكَ، وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى الْقَرِيبَ وَالْبَعِيدَ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَإِنَّ الْجِهَادَ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، إِنَّهُ لَيُنَجِّي اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بِهِ مِنَ الْهَمِّ وَالْغَمِّ، وَأَقِيمُوا حُدُودَ اللَّهِ فِي الْقَرِيبِ وَالْبَعِيدِ، وَلَا تَأْخُذْكُمْ فِي اللَّهِ لَوْمَةُ لَائِمٍ" .
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ایک غزوے میں مال غنیمت کے ایک اونٹ کو بطور سترہ سامنے کھڑے کر کے نماز پڑھائی جب سلام پھیر کر فارغ ہوئے تو کھڑے ہو کر اس کی اون اپنی دو انگلیوں کے درمیان لے کر فرمایا یہ تمہارا مال غنیمت ہے اور خمس کے علاوہ اس میں میرا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا تمہارا ہے اور خمس بھی تم ہی پر لوٹا دیا جاتا ہے لہٰذا اگر کسی کے پاس سوئی دھاگہ بھی ہو تو وہ لے آئے یا اس سے بڑی اور چھوٹی چیز ہو تو وہ بھی واپس کر دے اور مال غنیمت میں خیانت نہ کرو، کیونکہ خیانت دنیا و آخرت میں خائن کے لئے آگ اور شرمندگی کا سبب ہوگی اور لوگوں سے اللہ کے راستہ میں جہاد کیا کرو کہ خواہ وہ قریب ہوں یا دور اور اللہ کے حوالے سے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کیا کرو اور سفر و حضر میں اللہ کی حدود قائم رکھا کرو اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو کیونکہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ انسان کو غم اور پریشانی سے نجات عطا فرماتا ہے۔
حدثنا سفيان ، عن ابي حازم ، عن سهل ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " بعثت انا والساعة كهذه من هذه" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَذِهِ مِنْ هَذِهِ" .
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے اور قیامت کو اس طرح بھیجا گیا ہے جیسے یہ انگلی اس انگلی کے قریب ہے۔
حدثنا سفيان ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لموضع سوط في الجنة، خير من الدنيا وما فيها" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَوْضِعُ سَوْطٍ فِي الْجَنَّةِ، خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا" .
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جنت میں کسی شخص کے کوڑے کی جگہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔
حدثنا سفيان ، حدثنا ابو حازم ، قال: سمعت سهل بن سعد , يقول: انا في القوم إذ دخلت امراة، فقالت: يا رسول الله، إنها قد وهبت نفسها لك، فر فيها رايك فقال رجل: زوجنيها فلم يجبه حتى قامت الثالثة، فقال له: " عندك شيء؟ قال: لا , قال: اذهب فاطلب , قال: لم اجد , قال: فاذهب فاطلب ولو خاتما من حديد , قال: ما وجدت خاتما من حديد , قال: هل معك من القرآن شيء؟ قال: نعم، سورة كذا وسورة كذا , قال: قد انكحتكها على ما معك من القرآن" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ , يَقُولُ: أَنَا فِي الْقَوْمِ إِذْ دَخَلَتْ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا قَدْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لَكَ، فَرَ فِيهَا رَأْيَكَ فَقَالَ رَجُلٌ: زَوِّجْنِيهَا فَلَمْ يُجِبْهُ حَتَّى قَامَتْ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ لَهُ: " عِنْدَكَ شَيْءٌ؟ قَالَ: لَا , قَالَ: اذْهَبْ فَاطْلُبْ , قَالَ: لَمْ أَجِدْ , قَالَ: فَاذْهَبْ فَاطْلُبْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ , قَالَ: مَا وَجَدْتُ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ , قَالَ: هَلْ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْءٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا , قَالَ: قَدْ أَنْكَحْتُكَهَا عَلَى مَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ" .
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں لوگوں کے ساتھ تھا کہ ایک عورت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے اپنے آپ کو آپ کے لئے ہبہ کردیا ہے اب جو آپ کی رائے ہو (وہ کافی دیر تک کھڑی رہی) پھر ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا یا رسول اللہ! (اگر آپ کو اس کی ضرورت نہ ہو تو) مجھ سے ہی اس کا نکاح کرا دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ تین مرتبہ وہ عورت کھڑی ہوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس اسے مہر میں دینے کے لئے کچھ ہے؟ اس نے کہا کچھ نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اور کچھ تلاش کر کے لاؤ اس نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہی ملے تو وہی لے آؤ وہ کہنے لگا کہ مجھے تو لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں ملی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تمہیں قرآن بھی کچھ آتا ہے؟ اس نے کہا جی ہاں! فلاں فلاں سورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اس عورت کے ساتھ تمہارا نکاح قرآن کریم کی ان سورتوں کی وجہ سے کردیا۔
حدثنا سفيان ، عن ابي حازم ، عن سهل باي شيء دووي جرح رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: " كان علي يجيء بالماء في ترسه، وفاطمة تغسل الدم عن وجهه، واخذ حصيرا فاحرقه، فحشا به جرحه" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلٍ بِأَيِّ شَيْءٍ دُووِيَ جُرْحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: " كَانَ عَلِيٌّ يَجِيءُ بِالْمَاءِ فِي تُرْسِهِ، وَفَاطِمَةُ تَغْسِلُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، وَأَخَذَ حَصِيرًا فَأَحْرَقَهُ، فَحَشَا بِهِ جُرْحَهُ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم کا علاج کسی طرح کیا گیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال میں پانی لاتے تھے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ چہرہ مبارک سے خون دھوتی جاتی تھیں پھر انہوں نے ایک چٹائی لے کر اسے جلایا اور اس کی راکھ زخم میں بھر دی (جس سے خون رک گیا)
حدثنا سفيان ، عن ابي حازم ، سمع سهل بن سعد ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من نابه شيء في صلاته، فليقل سبحان الله، إنما التصفيح للنساء، والتسبيح للرجال" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، سَمِعَ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ، فَلْيَقُلْ سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّمَا التَّصْفِيحُ لِلنِّسَاءِ، وَالتَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ" .
حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو نماز میں کسی غلطی کا احساس ہو تو اسے " سبحان اللہ کہنا چاہئے کیونکہ تالی بجانے کا حکم عورتوں کے لئے ہے اور سبحان اللہ کہنا مردوں کے لئے۔