حدثنا عبد الرحمن , عن معاوية بن صالح , عن سليم بن عامر الكلاعي , قال: سمعت ابا امامة , يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يومئذ على الجدعاء , واضع رجليه في الغرز يتطاول يسمع الناس , فقال باعلى صوته:" الا تسمعون؟" , فقال رجل من طوائف الناس: يا رسول الله , ماذا تعهد إلينا؟ قال: " اعبدوا ربكم , وصلوا خمسكم , وصوموا شهركم , واطيعوا ذا امركم , تدخلوا جنة ربكم" , فقلت: يا ابا امامة , مثل من انت يومئذ؟ قال: انا يومئذ ابن ثلاثين سنة , ازاحم البعير ازحزحه لرسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ , عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ , عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ الْكَلَاعِيِّ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ , يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ عَلَى الْجَدْعَاءِ , وَاضِعٌ رِجْلَيْهِ فِي الْغَرْزِ يَتَطَاوَلُ يُسْمِعُ النَّاسَ , فَقَالَ بِأَعْلَى صَوْتِهِ:" أَلَا تَسْمَعُونَ؟" , فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ طَوَائِفِ النَّاسِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا؟ قَالَ: " اعْبَدُوا رَبَّكُمْ , وَصَلُّوا خَمْسَكُمْ , وَصُومُوا شَهْرَكُمْ , وَأَطِيعُوا ذَا أَمْرِكُمْ , تَدْخُلُوا جَنَّةَ رَبِّكُمْ" , فَقُلْتُ: يَا أَبَا أُمَامَةَ , مِثْلُ مَنْ أَنْتَ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: أَنَا يَوْمَئِذٍ ابْنُ ثَلَاثِينَ سَنَةً , أُزَاحِمُ الْبَعِيرَ أُزَحْزِحُهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ حجۃ الوداع سنا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور پاؤں سواری کی رکاب میں رکھے ہوئے تھے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونچے ہوگئے تھے اور فرما رہے تھے کیا تم سنتے نہیں؟ تو سب سے آخری آدمی نے کہا کہ آپ کیا فرمانا چاہتے ہیں (ہم تک آواز پہنچ رہی ہے اور ہم سن رہے ہیں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے رب کی عبادت کرو، پنج گانہ نماز ادا کرو، ایک مہینے کے روزے رکھو اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو اپنے امیر کی اطاعت کرو اور اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ۔
راوی نے حضرت امامہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یہ حدیث آپ نے کس عمر میں سنی تھی تو انہوں نے فرمایا کہ جب میں تیس سال کا تھا۔ اور لوگوں کے رش میں گھستا ہوا آگے چلا گیا تھا۔
حدثنا ابو كامل , حدثنا حماد , عن ابي غالب , قال: سمعت ابا امامة يحدث , عن النبي صلى الله عليه وسلم في قوله عز وجل: فاما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه سورة آل عمران آية 7 , قال: " هم الخوارج" , وفي قوله: يوم تبيض وجوه وتسود وجوه سورة آل عمران آية 106 قال:" هم الخوارج" .حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , عَنْ أَبِي غَالِبٍ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يُحَدِّثُ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ سورة آل عمران آية 7 , قَالَ: " هُمْ الْخَوَارِجُ" , وَفِي قَوْلِهِ: يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ سورة آل عمران آية 106 قَالَ:" هُمْ الْخَوَارِجُ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد باری تعالیٰ " فاما الذین فی قلوبہم زیغ۔۔۔۔۔۔۔ " کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے مراد خوارج ہیں اسی طرح " یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ " کی تفسیر میں بھی فرمایا کہ سیاہ چہروں والوں سے خوارج مراد ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو غالب ممن يعتبر به فى المتابعات و الشواهد، وفي رفعه نكارة، لكنه ثابت موقوفا على أبى أمامة
حدثنا ابو النضر , حدثنا فرج بن فضالة , حدثنا لقمان بن عامر , عن ابي امامة , قال: حججت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حجة الوداع , فحمد الله واثنى عليه , ثم قال:" الا لعلكم لا تروني بعد عامكم هذا , الا لعلكم لا تروني بعد عامكم هذا , الا لعلكم لا تروني بعد عامكم هذا" , فقام رجل طويل كانه من رجال شنوءة , فقال: يا نبي الله , فما الذي نفعل؟ فقال: " اعبدوا ربكم , وصلوا خمسكم , وصوموا شهركم , وحجوا بيتكم , وادوا زكاتكم , طيبة بها انفسكم تدخلوا جنة ربكم عز وجل" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا فَرَجُ بْنُ فَضَالَةَ , حَدَّثَنَا لُقْمَانُ بْنُ عَامِرٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: حَجَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ , فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ , ثُمَّ قَالَ:" أَلَا لَعَلَّكُمْ لَا تَرَوْنِي بَعْدَ عَامِكُمْ هَذَا , أَلَا لَعَلَّكُمْ لَا تَرَوْنِي بَعْدَ عَامِكُمْ هَذَا , أَلَا لَعَلَّكُمْ لَا تَرَوْنِي بَعْدَ عَامِكُمْ هَذَا" , فَقَامَ رَجُلٌ طَوِيلٌ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ , فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , فَمَا الَّذِي نَفْعَلُ؟ فَقَالَ: " اعْبُدُوا رَبَّكُمْ , وَصَلُّوا خَمْسَكُمْ , وَصُومُوا شَهْرَكُمْ , وَحُجُّوا بَيْتَكُمْ , وَأَدُّوا زَكَاتَكُمْ , طَيِّبَةً بِهَا أَنْفُسُكُمْ تَدْخُلُوا جَنَّةَ رَبِّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حجۃ الوداع میں شرکت کی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمدوثناء بیان کرنے کے بعد تین مرتبہ فرمایا شاید اس سال کے بعد تم مجھے نہ دیکھ سکو، اس پر ایک لمبے قد کا آدمی جو قبیلہ سنوء کا ایک فرد محسوس ہوتا تھا کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے اللہ کے نبی! ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے رب کی عبادت کرو، پنج گانہ نماز ادا کرو ایک مہینے کے روزے رکھو بیت اللہ کا حج کرو، دل کی خوشی سے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو اور اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف من أجل فرج ابن فضالة
حدثنا ابو النضر , حدثنا الفرج , حدثنا لقمان بن عامر , قال: سمعت ابا امامة , قال: قلت: يا نبي الله , ما كان اول بدء امرك , قال: " دعوة ابي إبراهيم , وبشرى عيسى , ورات امي انه يخرج منها نور اضاءت منها قصور الشام" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا الْفَرَجُ , حَدَّثَنَا لُقْمَانُ بْنُ عَامِرٍ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ , قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , مَا كَانَ أَوَّلُ بَدْءِ أَمْرِكَ , قَالَ: " دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيمَ , وَبُشْرَى عِيسَى , وَرَأَتْ أُمِّي أَنَّهُ يَخْرُجُ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَتْ مِنْهَا قُصُورُ الشَّامِ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا اے اللہ کے نبی! آپ کا آغاز کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاء اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور میری والدہ نے دیکھا کہ ان سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف من أجل فرج بن فضالة
حدثنا ابو النضر , حدثنا فرج , حدثنا لقمان , عن ابي امامة , قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن " قتل عوامر البيوت , إلا من ذي الطفيتين والابتر , فإنهما يكمهان الابصار , وتخدج منهن النساء" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا فَرَجٌ , حَدَّثَنَا لُقْمَانُ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ " قَتْلِ عَوَامِرِ الْبُيُوتِ , إِلَّا مِنْ ذِي الطُّفْيَتَيْنِ وَالْأَبْتَرِ , فَإِنَّهُمَا يُكْمِهَانِ الْأَبْصَارَ , وَتَخْدِجُ مِنْهُنَّ النِّسَاءُ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں رہنے والے درندوں کو مارنے سے منع فرمایا ہے البتہ وہ سانپ جس کی دو دمیں ہوں یا جس کی دم کٹی ہوئی ہو، اسے مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ بینائی زائل کردیتا ہے اور خواتین کا حمل ساقط کردیتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف فرج
حدثنا هاشم , حدثنا فرج , حدثنا لقمان , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله وملائكته يصلون على الصف الاول" , قالوا: يا رسول الله , وعلى الثاني , قال:" إن الله وملائكته يصلون على الصف الاول" , قالوا: يا رسول الله , وعلى الثاني , قال:" وعلى الثاني" , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" سووا صفوفكم , وحاذوا بين مناكبكم , ولينوا في ايدي إخوانكم , وسدوا الخلل , فإن الشيطان يدخل بينكم بمنزلة الحذف" يعني: اولاد الضان الصغار.حَدَّثَنَا هَاشِمٌ , حَدَّثَنَا فَرَجٌ , حَدَّثَنَا لُقْمَانُ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى الصَّفِّ الْأَوَّلِ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَعَلَى الثَّانِي , قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى الصَّفِّ الْأَوَّلِ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَعَلَى الثَّانِي , قَالَ:" وَعَلَى الثَّانِي" , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَوُّوا صُفُوفَكُمْ , وَحَاذُوا بَيْنَ مَنَاكِبِكُمْ , وَلِينُوا فِي أَيْدِي إِخْوَانِكُمْ , وَسُدُّوا الْخَلَلَ , فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ بَيْنَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْحَذَفِ" يَعْنِي: أَوْلَادَ الضَّأْنِ الصِّغَارَ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا صف اول کے نمازیوں پر اللہ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے صف ثانی کو اس فضیلت میں شامل کرنے کی دو مرتبہ درخواست کی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرماتے رہے پھر تیسری مرتبہ درخواست پر فرمایا اور صف ثانی پر بھی۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صفوں کو سیدھا رکھا کرو، کندھوں کو ملا لیا کرو اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہوجایا کرو، درمیان میں خلا پر کرلیا کرو، کیونکہ شیطان بکری کے چھوٹے بچوں کی طرح تمہاری صفوں میں گھس جاتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف فرج
حدثنا ابو النضر , حدثنا الفرج , حدثنا لقمان , قال: سمعت ابا امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اجيفوا ابوابكم , واكفئوا آنيتكم , واوكئوا اسقيتكم , واطفئوا سرجكم , فإنه لن يؤذن لهم بالتسور عليكم" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا الْفَرَجُ , حَدَّثَنَا لُقْمَانُ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَجِيفُوا أَبْوَابَكُمْ , وَأَكْفِئُوا آنِيَتَكُمْ , وَأَوْكِئُوا أَسْقِيَتَكُمْ , وَأَطْفِئُوا سُرُجَكُمْ , فَإِنَّهُ لَنْ يُؤْذَنَ لَهُمْ بِالتَّسَوُّرِ عَلَيْكُمْ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات کو سوتے وقت دروازے بند کرلیا کرو برتن اوندھا دیا کرو، مشکیزوں کا منہ باندھ دیا کرو اور چراغ بجھا دیا کرو، کیونکہ اس طرح شیاطین کو تمہاری دیوار پھاندنے کی اجازت نہیں ملے گی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف فرج
حدثنا ابو نوح قراد , قال ابو عبد الرحمن: سمعت ابي غير مرة , يقول: وحدثنا ابو نوح قراد , حدثنا عكرمة بن عمار , عن شداد بن عبد الله , قال: سمعت ابا امامة , يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " يا ابن آدم إنك إن تبذل الخير خير لك , وإن تمسكه شر لك , ولا تلام على الكفاف , وابدا بمن تعول , واليد العليا خير من اليد السفلى" .حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ قُرَادٌ , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: سَمِعْتُ أَبِي غَيْرَ مَرَّةٍ , يَقُولُ: وَحِدْثنَا أَبُو نُوحٍ قُرَادٌ , حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ , عَنْ شَدَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ , يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ إِنْ تَبْذُلْ الْخَيْرَ خَيْرٌ لَكَ , وَإِنْ تُمْسِكْهُ شَرٌّ لَكَ , وَلَا تُلَامُ عَلَى الْكَفَافِ , وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ , وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اے ابن آدم! اگر تو مال خرچ کرلے تو یہ تیرے حق میں بہتر ہے اور اگر روک کر رکھے تو یہ تیرے حق میں برا ہے البتہ کفایت شعاری پر تجھے ملامت نہیں کی جاسکتی اور جو لوگ تیری ذمہ داری میں ہوں خرچ کرنے میں ان سے آغاز کیا کر اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔
حدثنا ابو نوح , وعبد الصمد , قالا: حدثنا عكرمة , وقال ابو نوح: اخبرنا عكرمة بن عمار , عن شداد بن عبد الله , قال: سمعت ابا امامة , يقول: اتى رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في المسجد , فقال: يا رسول الله , إني اصبت حدا فاقمه علي , قال: فسكت النبي صلى الله عليه وسلم , ثم عاد , فقال له مرة اخرى ثم اقيمت الصلاة , فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم انصرف , قال ابو امامة: فاتبعه الرجل , قال: وتبعته , قال عبد الصمد في حديثه: فانصرفت مع النبي صلى الله عليه وسلم والرجل يتبعه , لاعلم ما يقول له , قال: فقال له الرجل: يا رسول الله , إني اصبت حدا فاقمه علي , قال: فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: " اليس قد توضات قبل ان تخرج من منزلك , فاحسنت الوضوء ثم صليت معنا؟" , قال: بلى , قال:" فإن الله قد غفر لك حدك او ذنبك" , شك فيه عكرمة , قال عبد الصمد في حديثه: فانصرفت مع النبي صلى الله عليه وسلم واتبعه الرجل.حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ , وَعَبْدُ الصَّمَدِ , قَالَا: حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ , وَقَالَ أَبُو نُوحٍ: أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ , عَنْ شَدَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ , يَقُولُ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ , قَالَ: فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ عَادَ , فَقَالَ لَهُ مَرَّةً أُخْرَى ثُمَّ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ , فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ انْصَرَفَ , قَالَ أَبُو أُمَامَةَ: فَاتَّبَعَهُ الرَّجُلُ , قَالَ: وَتَبِعْتُهُ , قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ فِي حَدِيثِهِ: فَانْصَرَفْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالرَّجُلُ يَتْبَعُهُ , لِأَعْلَمَ مَا يَقُولُ لَهُ , قَالَ: فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ , قَالَ: فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَيْسَ قَدْ تَوَضَّأْتَ قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ مِنْ مَنْزِلِكَ , فَأَحْسَنْتَ الْوُضُوءَ ثُمَّ صَلَّيْتَ مَعَنَا؟" , قَالَ: بَلَى , قَالَ:" فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ حَدَّكَ أَوْ ذَنْبَكَ" , شَكَّ فِيهِ عِكْرِمَةُ , قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ فِي حَدِيثِهِ: فَانْصَرَفْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاتَّبَعَهُ الرَّجُلُ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! مجھ سے گناہ سرزد ہوگیا ہے لہٰذا مجھے کتاب اللہ کی روشنی میں سزا دے دیجئے اسی دوران نماز کھڑی ہوگئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور فراغت کے بعد جب واپس جانے لگے تو وہ آدمی بھی پیچھے پیچھے چلا گیا میں بھی اس کے پیچھے چلا گیا، اس نے پھر اپنی بات دہرائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کیا ایسا نہیں ہے کہ تم اپنے گھر سے خوب اچھی طرح وضو کر کے نکلے اور ہمارے ساتھ نماز میں شریک ہوئے؟ اس نے کہا کیوں نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اللہ نے تمہارا گناہ معاف کردیا ہے۔
حدثنا ابو النضر , حدثنا عبد الحميد بن بهرام , عن شهر بن حوشب , حدثني ابو امامة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ايما رجل قام إلى وضوئه يريد الصلاة , ثم غسل كفيه , نزلت خطيئته من كفيه مع اول قطرة , فإذا مضمض واستنشق واستنثر , نزلت خطيئته من لسانه وشفتيه مع اول قطرة , فإذا غسل وجهه , نزلت خطيئته من سمعه وبصره , مع اول قطرة , فإذا غسل يديه إلى المرفقين , ورجليه إلى الكعبين , سلم من كل ذنب هو له , ومن كل خطيئة كهيئته يوم ولدته امه" , قال:" فإذا قام إلى الصلاة , رفع الله بها درجته , وإن قعد قعد سالما" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ بَهْرَامَ , عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ , حَدَّثَنِي أَبُو أُمَامَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَيُّمَا رَجُلٍ قَامَ إِلَى وَضُوئِهِ يُرِيدُ الصَّلَاةَ , ثُمَّ غَسَلَ كَفَّيْهِ , نَزَلَتْ خَطِيئَتُهُ مِنْ كَفَّيْهِ مَعَ أَوَّلِ قَطْرَةٍ , فَإِذَا مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَاسْتَنْثَرَ , نَزَلَتْ خَطِيئَتُهُ مِنْ لِسَانِهِ وَشَفَتَيْهِ مَعَ أَوَّلِ قَطْرَةٍ , فَإِذَا غَسَلَ وَجْهَهُ , نَزَلَتْ خَطِيئَتُهُ مِنْ سَمْعِهِ وَبَصَرِهِ , مَعَ أَوَّلِ قَطْرَةٍ , فَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ , وَرِجْلَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ , سَلِمَ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ هُوَ لَهُ , وَمِنْ كُلِّ خَطِيئَةٍ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ" , قَالَ:" فَإِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ , رَفَعَ اللَّهُ بِهَا دَرَجَتَهُ , وَإِنْ قَعَدَ قَعَدَ سَالِمًا" .
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بندہ مسلم نماز کے لئے اذان کی آواز سنتا ہے اور وضو کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے ہاتھوں پر پانی کا پہلا قطرہ ٹپکتے ہی اس کے گناہ معاف ہونے لگتے ہیں جب وہ کلی کرتا، ناک میں پانی ڈالتا اور ناک صاف کرتا ہے تو اس کی زبان اور ہونٹوں کے گناہ پانی کے پہلے قطرے سے ہی زائل ہوجاتے ہیں جب وہ چہرہ دھوتا ہے تو پانی کے پہلے قطرے سے ہی اس کی آنکھوں اور کانوں کے گناہ زائل ہوجاتے ہیں اور جب وہ کہنیوں تک ہاتھوں اور ٹخنوں تک پاؤں دھوتا ہے تو اس کے گزشتہ سارے خطرناک گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور وہ ہر گناہ سے اس طرح محفوظ ہوجاتا ہے جیسے اپنی پیدائش کے وقت تھا اور جب وہ نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اس کے درجات کی بلندی کا سبب بنتی ہے اور اگر وہ بیٹھتا ہے تو بخشا بخشایا ہوا بیٹھتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر، لكنه توبع