حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ ریشم اور سونا نہ پہنے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ ریشم اور سونا نہ پہنے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة، لكنه توبع
حدثنا ابو النضر , حدثنا حريز , عن عبد الرحمن بن ميسرة , قال: سمعت ابا امامة يقول: " ليدخلن الجنة بشفاعة الرجل الواحد ليس بنبي مثل الحيين او احد الحيين: ربيعة ومضر" , قال قائل: يا رسول الله , او ما ربيعة من مضر؟ قال:" إنما اقول ما اقول" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا حَرِيزٌ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَيْسَرَةَ , قَال: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يَقُولُ: " لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ الرَّجُلِ الْوَاحِدِ لَيْسَ بِنَبِيٍّ مِثْلُ الْحَيَّيْنِ أَوْ أَحَدِ الْحَيَّيْنِ: رَبِيعَةَ وَمُضَرَ" , قَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَوَ مَا رَبِيعَةُ مِنْ مُضَرَ؟ قَالَ:" إِنَّمَا أَقُولُ مَا أُقَوَّلُ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ صرف ایک آدمی کی شفاعت کی برکت سے " جو نبی نہیں ہوگا " ربیعہ اور مضر جیسے دو قبیلوں یا ایک قبیلے کے برابر لوگ جنت میں داخل ہوں گے ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ربیعہ، مضر قبیلے کا حصہ نہیں ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو وہی کہتا ہوں جو کہنا ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده دون قوله: قال قائل: يا رسول الله.... فهي شاذة
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی کی سفارش کرے اور سفارش کروانے والا اسے کوئی ہدیہ پیش کرے جسے وہ قبول کرلے تو وہ سود کے ایک عظیم دروازے میں داخل ہوگیا۔
حكم دارالسلام: ضعيف، ابن لهيعة سيئ الحفظ، لكنه متابع، والقاسم بن عبدالرحمن له أفرادات، وهذا منها
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص سلام میں پہل کرتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف جدا، أبو المهلب وعبيد الله بن زحر ضعيفان، وعلي بن يزيد واهي الحديث
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا سعيد , عن قتادة , عن شهر بن حوشب , عن ابي امامة الحمصي , قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الوضوء يكفر ما قبله , ثم تصير الصلاة نافلة" , قال: فقيل له: انت سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم , غير مرة , ولا مرتين , ولا ثلاث , ولا اربع , ولا خمس.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا سَعِيد , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْحِمْصِيِّ , قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ الْوُضُوءَ يُكَفِّرُ مَا قَبْلَهُ , ثُمَّ تَصِيرُ الصَّلَاةُ نَافِلَةً" , قَالَ: فَقِيلَ لَهُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ , غَيْرَ مَرَّةٍ , وَلَا مَرَّتَيْنِ , وَلَا ثَلَاثٍ , وَلَا أَرْبَعٍ , وَلَا خَمْسٍ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وضو گزشتہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور نماز انعامات کا سبب بنتی ہے کسی نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے واقعی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! ایک دو یا تین چار اور پانچ مرتبہ نہیں (بےشمار مرتبہ سنی ہے)
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر، لكنه توبع
حدثنا محمد , حدثنا شعبة , عن ابي التياح , قال: سمعت ابا الجعد يحدث , عن ابي امامة , قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم على قاص يقص , فامسك , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قص فلان اقعد غدوة إلى ان تشرق الشمس , احب إلي من ان اعتق اربع رقاب , وبعد العصر حتى تغرب الشمس , احب إلي من ان اعتق اربع رقاب" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْجَعْدِ يُحَدِّثُ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَاصٍّ يَقُصُّ , فَأَمْسَكَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قُصَّ فَلَأَنْ أَقْعُدَ غُدْوَةً إِلَى أَنْ تُشْرِقَ الشَّمْسُ , أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُعْتِقَ أَرْبَعَ رِقَابٍ , وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ , أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُعْتِقَ أَرْبَعَ رِقَابٍ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو ایک واعظ وعظ کہہ رہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر وہ خاموش ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم اپنا وعظ کرتے رہو میرے نیزدیک طلوع آفتاب کے وقت تک بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرنا، اولاد اسماعیل علیہ السلام میں سے چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ بہتر ہے اسی طرح نماز عصر سے غروب آفتاب تک اللہ کا ذکر کرنا میرے نزدیک اولاد اسماعیل علیہ السلام میں سے چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص پیشاب وغیرہ زبردستی روک کر نماز کے لئے مت آیا کرے اور جو شخص نماز پڑھائے وہ لوگوں کو چھوڑ کر صرف اپنے لئے دعاء نہ مانگے کوئی شخص اجازت لئے بغیر گھر میں داخل نہ ہو۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: ولا يخص نفسه بشيء دون أصحابه، وهذا إسناد ضعيف لضعف السفر بن نسير، وقد اختلف فيه على يزيد بن شريح
حدثنا ابن مهدي , عن معاوية يعني ابن صالح , عن عامر بن جشيب , عن خالد بن معدان , قال: حضرنا صنيعا لعبد الاعلى بن هلال , فلما فرغنا من الطعام قام ابو امامة , فقال: لقد قمت مقامي هذا وما انا بخطيب , وما اريد الخطبة , ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول عند انقضاء الطعام: " الحمد لله كثيرا طيبا مباركا فيه , غير مكفي , ولا مودع , ولا مستغنى عنه" , قال: فلم يزل يرددهن علينا حتى حفظناهن .حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ , عَنْ مُعَاوِيَةَ يَعْنِي ابْنَ صَالِحٍ , عَنْ عَامِرِ بْنِ جَشِيبٍ , عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ , قَالَ: حَضَرْنَا صَنِيعًا لِعَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ هِلَالٍ , فَلَمَّا فَرَغْنَا مِنَ الطَّعَامِ قَامَ أَبُو أُمَامَةَ , فَقَالَ: لَقَدْ قُمْتُ مَقَامِي هَذَا وَمَا أَنَا بِخَطِيبٍ , وَمَا أُرِيدُ الْخُطْبَةَ , وَلَكِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عِنْدَ انْقِضَاءِ الطَّعَامِ: " الْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ , غَيْرَ مَكْفِيٍّ , وَلَا مُوَدَّعٍ , وَلَا مُسْتَغْنًى عَنْهُ" , قَالَ: فَلَمْ يَزَلْ يُرَدِّدُهُنَّ عَلَيْنَا حَتَّى حَفِظْنَاهُنَّ .
خالد بن معدان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ عبدالاعلیٰ بن بلال کی دعوت میں شریک تھے کھانے سے فراغت کے بعد حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ میں اس جگہ کھڑا تو ہوگیا ہوں لیکن میں خطیب ہوں اور نہ ہی تقریر کے ارادے سے کھڑا ہوا ہوں البتہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعاء پڑھتے ہوتے سنا ہے " الحمدللہ کثیرا طیبا مبارکا فیہ غیر مکفی ولامودع ولامستغنی عنہ " خالد کہتے ہیں کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات اتنی مرتبہ دہرائے کہ ہمیں حفظ ہوگئے۔
حدثنا ابن مهدي , عن معاوية بن صالح , عن ابي عتبة الكندي , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من امتي احد إلا وانا اعرفه يوم القيامة" , قالوا: يا رسول الله , من رايت ومن لم تر؟ قال:" من رايت ومن لم ار , غرا محجلين من اثر الطهور" .حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ , عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ , عَنْ أَبِي عُتْبَةَ الْكِنْدِيِّ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ أُمَّتِي أَحَدٌ إِلَّا وَأَنَا أَعْرِفُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَنْ رَأَيْتَ وَمَنْ لَمْ تَرَ؟ قَالَ:" مَنْ رَأَيْتُ وَمَنْ لَمْ أَرَ , غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنْ أَثَرِ الطُّهُورِ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن میں اپنے ہر امتی کو پہچانوں گا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! جنہیں آپ نے دیکھا ہے انہیں بھی اور جنہیں نہیں دیکھا انہیں بھی پہچان لیں گے؟ فرمایا ہاں! ان کی پیشانیاں وضو کی برکت سے چمک رہی ہوں گی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى عتبة الكندي