حدثنا محمد بن عبيد , حدثنا الاعمش , عن شيخ , عن ابي امامة , قال: ضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقلنا: ما يضحكك يا رسول الله , قال: " عجبت من قوم يقادون في السلاسل إلى الجنة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ شَيْخٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قالَ: ضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْنَا: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ: " عَجِبْتُ مِنْ قَوْمٍ يُقَادُونَ فِي السَّلَاسِلِ إِلَى الْجَنَّةِ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کس وجہ سے مسکرا رہے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تعجب ہوتا ہے اس قوم پر جسے زنجیروں میں جکڑ کر جنت کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ (ان کے اعمال انہیں جہنم کی طرف لے جا رہے ہوتے ہیں لیکن اللہ کی نظر کرم انہیں جنت کی طرف لے جا رہی ہوتی ہے)
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لابهام الراوي عن أبى أمامة
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے کسی عمل کا حکم دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کرا دے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے اوپر روزے کو لازم کرلو کیونکہ روزے جیسا کوئی عمل نہیں ہے پھر میں دوبارہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزے ہی کو اپنے اوپر لازم رکھو۔
حدثنا ابو سعيد , حدثنا عبد الله بن بجير , حدثنا سيار , ان ابا امامة ذكر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " يكون في هذه الامة في آخر الزمان رجال , او قال: يخرج رجال من هذه الامة في آخر الزمان , معهم اسياط كانها اذناب البقر , يغدون في سخط الله , ويروحون في غضبه" .حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُجَيْرٍ , حَدَّثَنَا سَيَّارٌ , أَنَّ أَبَا أُمَامَةَ ذَكَرَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ فِي آخِرِ الزَّمَانِ رِجَالٌ , أَوْ قَالَ: يَخْرُجُ رِجَالٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ فِي آخِرِ الزَّمَانِ , مَعَهُمْ أَسْيَاطٌ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْبَقَرِ , يَغْدُونَ فِي سَخَطِ اللَّهِ , وَيَرُوحُونَ فِي غَضَبِهِ" .
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس امت کے آخری زمانے میں کچھ لوگ ایسے آئیں گے جن کے ہاتھوں میں گائے کی دموں کی طرح کوڑے ہوں گے ان کی صبح اللہ کی ناراضگی میں اور شام اس کے غضب میں گذرے گی۔
حدثنا ابو سعيد , حدثنا عبد الله بن بجير , حدثنا سيار , قال: جيء برءوس من قبل العراق , فنصبت عند باب المسجد , وجاء ابو امامة فدخل المسجد , فركع ركعتين , ثم خرج إليهم , فنظر إليهم , فرفع راسه , فقال: " شر قتلى تحت ظل السماء ثلاثا , وخير قتلى تحت ظل السماء من قتلوه , وقال: كلاب النار ثلاثا , ثم إنه بكى , ثم انصرف عنهم , فقال له قائل: يا ابا امامة , ارايت هذا الحديث حيث قلت: كلاب النار , شيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم , او شيء تقوله برايك؟ قال: سبحان الله , إني إذا لجريء , لو سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم مرة او مرتين , حتى ذكر سبعا , لخلت ان لا اذكره , فقال الرجل: لاي شيء بكيت؟ قال: رحمة لهم , او من رحمتهم .حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُجَيْرٍ , حَدَّثَنَا سَيَّارٌ , قَالَ: جِيءَ بِرُءُوسٍ مِنْ قِبَلِ الْعِرَاقِ , فَنُصِبَتْ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ , وَجَاءَ أَبُو أُمَامَةَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ , فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ خَرَجَ إِلَيْهِمْ , فَنَظَرَ إِلَيْهِمْ , فَرَفَعَ رَأْسَهُ , فَقَالَ: " شَرُّ قَتْلَى تَحْتَ ظِلِّ السَّمَاءِ ثَلَاثًا , وَخَيْرُ قَتْلَى تَحْتَ ظِلِّ السَّمَاءِ مَنْ قَتَلُوهُ , وَقَالَ: كِلَابُ النَّارِ ثَلَاثًا , ثُمَّ إِنَّهُ بَكَى , ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُمْ , فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ: يَا أَبَا أُمَامَةَ , أَرَأَيْتَ هَذَا الْحَدِيثَ حَيْثُ قُلْتَ: كِلَابُ النَّارِ , شَيْءٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَوْ شَيْءٌ تَقُولُهُ بِرَأْيِكَ؟ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ , إِنِّي إِذًا لَجَرِيءٌ , لَوْ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ , حَتَّى ذَكَرَ سَبْعًا , لَخِلْتُ أَنْ لَا أَذْكُرَهُ , فَقَالَ الرَّجُلُ: لِأَيِّ شَيْءٍ بَكَيْتَ؟ قَالَ: رَحْمَةً لَهُمْ , أَوْ مِنْ رَحْمَتِهِمْ .
سیار کہتے ہیں کہ عراق سے کچھ لوگوں کے سر لا کر مسجد کے دروازے پر لٹکا دیئے گئے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ آئے اور مسجد میں داخل ہو کردو رکعتیں پڑھیں اور باہر نکل کر ان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اور تین مرتبہ فرمایا آسمان کے سائے تلے سب سے بدترین مقتول ہیں اور آسمان کے سائے تلے سب سے بہترین مقتول وہ تھا جسے انہوں نے شہید کردیا پھر تین مرتبہ فرمایا جہنم کے کتے ہیں اور رونے لگے۔ تھوڑے دیر بعد جب واپس ہوئے تو کسی نے پوچھا اے ابو امامہ! یہ جو آپ نے " جہنم کے کتے " کہا یہ بات آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے یا اپنی رائے سے کہہ رہے ہیں، انہوں نے فرمایا سبحان اللہ! اگر میں نے کوئی چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سات مرتبہ تک سنی ہو اور پھر درمیان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نکال دوں تو میں بڑا جری ہوں گا، اس نے پوچھا کہ پھر آپ روئے کیوں تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے ان پر ترس آرہا تھا۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے تم میں سے کوئی شخص پیشاب وغیرہ کو زبردستی روک کر نماز کے لئے مت آیا کرے کوئی شخص اجازت لئے بغیر گھر میں داخل نہ ہو اور جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے وہ لوگوں کو چھوڑ کر صرف اپنے لئے دعاء نہ مانگے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: ولا يؤمن... وهذا إسناد ضعيف لضعف السفر بن نسير، ثم قد اختلف فيه على يزيد بن شريح
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے اور صرف اللہ کی رضا کے لئے پھیرے تو جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ پھر جائے گا، اسے ہر بال کے بدلے نیکیاں ملیں گی اور جو شخص اپنے زیر تربیت کسی یتیم بچے یا بچی کے ساتھ حسن سلوک کرے میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت والی اور درمیانی انگلی میں تھوڑا سا فاصلہ رکھ کر دکھایا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون الشطر الأول منه بقصة المسح على رأس اليتيم، وهذا إسناد ضعيف جدا، فيه على بن يزيد ضعيف، وعبيد الله بن زحر ضعيف أيضا
حدثنا حسن بن موسى , وعفان , قالا: حدثنا حماد بن سلمة , قال عفان: اخبرنا ابو غالب , عن ابي امامة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اقبل من خيبر ومعه غلامان , وهب احدهما لعلي بن ابي طالب , وقال: " لا تضربه , فإني قد نهيت عن ضرب اهل الصلاة , وقد رايته يصلي" , قال عفان في حديثه: اخبرنا ابو طالب , عن ابي امامة , ان النبي صلى الله عليه وسلم اقبل من خيبر ومعه غلامان , فقال علي: يا رسول الله , اخدمنا , قال:" خذ ايهما شئت" , قال: خر لي , قال:" خذ هذا ولا تضربه , فإني قد رايته يصلي مقبلنا من خيبر , وإني قد نهيت" , واعطى ابا ذر غلاما , وقال:" استوص به معروفا" , فاعتقه , فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" ما فعل الغلام؟" , قال: يا رسول الله , امرتني ان استوصي به معروفا , فاعتقته .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى , وَعَفَّانُ , قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , قَالَ عَفَّانُ: أَخْبَرَنَا أَبُو غَالِبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ مِنْ خَيْبَرَ وَمَعَهُ غُلَامَانِ , وَهَبَ أَحَدَهُمَا لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ , وَقَالَ: " لَا تَضْرِبْهُ , فَإِنِّي قَدْ نَهَيْتُ عَنْ ضَرْبِ أَهْلِ الصَّلَاةِ , وَقَدْ رَأَيْتُهُ يُصَلِّي" , قَالَ عَفَّانُ فِي حَدِيثِهِ: أَخْبَرَنَا أَبُو طَالِبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ مِنْ خَيْبَرَ وَمَعَهُ غُلَامَانِ , فَقَالَ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَخْدِمْنَا , قَالَ:" خُذْ أَيَّهُمَا شِئْتَ" , قَالَ: خِرْ لِي , قَالَ:" خُذْ هَذَا وَلَا تَضْرِبْهُ , فَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُهُ يُصَلِّي مَقْبَلَنَا مِنْ خَيْبَرَ , وَإِنِّي قَدْ نَهَيْتُ" , وَأَعْطَى أَبَا ذَرٍّ غُلَامًا , وَقَالَ:" اسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوفًا" , فَأَعْتَقَهُ , فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا فَعَلَ الْغُلَامُ؟" , قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَمَرْتَنِي أَنْ أَسْتَوْصِيَ بِهِ مَعْرُوفًا , فَأَعْتَقْتُهُ .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے واپس تشریف لائے تو ان کے ہمراہ دو غلام بھی تھے جن میں سے ایک غلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دے دیا اور فرمایا اسے مارنا نہیں کیونکہ میں نے نمازیوں کو مارنے سے منع کیا ہے اور اسے میں نے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور دوسرا غلام حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو دے دیا اور فرمایا میں تمہیں اس کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں انہوں نے اسے آزاد کردیا ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا وہ غلام کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے مجھے اس کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی تھی لہٰذا میں نے اسے آزاد کردیا۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر کسی کو پناہ دے سکتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، الحجاج بن أرطاة مدلس، وقد عنعن
حدثنا عصام بن خالد , حدثني صفوان بن عمرو , عن سليم بن عامر الخبائري , وابي اليمان الهوزني , عن ابي امامة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إن الله عز وجل وعدني ان يدخل من امتي الجنة سبعين الفا بغير حساب" , فقال يزيد بن الاخنس السلمي: والله ما اولئك في امتك إلا كالذباب الاصهب في الذبان , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كان ربي عز وجل قد وعدني سبعين الفا مع كل الف سبعون الفا , وزادني ثلاث حثيات" , قال: فما سعة حوضك يا نبي الله؟ قال: " كما بين عدن إلى عمان , واوسع , واوسع" يشير بيده , قال:" فيه مثعبان من ذهب , وفضة" , قال: فما حوضك يا نبي الله؟ قال:" اشد بياضا من اللبن , واحلى مذاقة من العسل , واطيب رائحة من المسك , من شرب منه لم يظما بعدها , ولم يسود وجهه ابدا" .حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ خَالِدٍ , حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو , عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ الْخَبَائِرِيِّ , وَأَبِي الْيَمَانِ الْهَوْزَنِيِّ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَعَدَنِي أَنْ يُدْخِلَ مِنْ أُمَّتِي الْجَنَّةَ سَبْعِينَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ" , فَقَالَ يَزِيدُ بْنُ الْأَخْنسَ السُّلَمِيُّ: وَاللَّهِ مَا أُولَئِكَ فِي أُمَّتِكَ إِلَّا كَالذُّبَابِ الْأَصْهَبِ فِي الذِّبَّانِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ قَدْ وَعَدَنِي سَبْعِينَ أَلْفًا مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا , وَزَادَنِي ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ" , قَالَ: فَمَا سِعَةُ حَوْضِكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ قَالَ: " كَمَا بَيْنَ عَدَنَ إِلَى عُمَانَ , وَأَوْسَعَ , وَأَوْسَعَ" يُشِيرُ بِيَدِهِ , قَالَ:" فِيهِ مَثْعَبَانِ مِنْ ذَهَبٍ , وَفِضَّةٍ" , قَالَ: فَمَا حَوْضُكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ قَالَ:" أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ , وَأَحْلَى مَذَاقَةً مِنَ الْعَسَلِ , وَأَطْيَبُ رَائِحَةً مِنَ الْمِسْكِ , مَنْ شَرِبَ مِنْهُ لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهَا , وَلَمْ يَسْوَدَّ وَجْهُهُ أَبَدًا" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میری امت کے ستر ہزار آدمیوں کو بلاحساب کتاب جنت میں داخل فرمائے گا، یزید بن اخنس رضی اللہ عنہ یہ سن کر کہنے لگے بخدا! یہ تو آپ کی امت میں سے صرف اتنے ہی لوگ ہوں گے جیسے مکھیوں میں سرخ مکھی ہوتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے رب نے مجھ سے ستر ہزار کا وعدہ اس طرح کیا ہے کہ ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے اور اس پر تین گنا کا مزید اضافہ ہوگا، یزید بن اخنس رضی اللہ عنہ نے پوچھا اے اللہ کے نبی! آپ کے حوض کی وسعت کتنی ہوگی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جتنی عدن اور عمان کے درمیان ہے اس سے بھی دوگنی جس میں سونے چاندی کے دو پرنالوں سے پانی گرتا ہوگا، انہوں نے پوچھا اے اللہ کے نبی! آپ کے حوض کا پانی کیسا ہوگا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ شیرین اور مشک سے زیادہ مہکتا ہوا جو شخص ایک مرتبہ اس کا پانی پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا اور اس کے چہرے کا رنگ کبھی سیاہ نہ ہوگا۔
قال عبد الله: وجدت هذا الحديث في كتاب ابي بخط يده , وقد ضرب عليه , فظننت انه قد ضرب عليه لانه خطا , إنما هو: عن زيد , عن ابي سلام , عن ابي امامة , حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا معمر , عن يحيى بن ابي كثير , عن ابي سلمة , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تعلموا القرآن , فإنه شافع يوم القيامة , تعلموا البقرة وآل عمران , تعلموا الزهراوين , فإنهما ياتيان يوم القيامة كانهما غمامتان , او غيايتان , او كانهما فرقان من طير صواف , يحاجان عن صاحبهما , تعلموا البقرة فإن تعليمها بركة , وتركها حسرة , ولا يستطيعها البطلة" .قَالَ عَبْد اللَّهِ: وَجَدْتُ هَذَا الْحَدِيثَ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ , وَقَدْ ضَرَبَ عَلَيْهِ , فَظَنَنْتُ أَنَّهُ قَدْ ضَرَبَ عَلَيْهِ لِأَنَّهُ خَطَأٌ , إِنَّمَا هُوَ: عَنْ زَيْدٍ , عَنْ أَبِي سَلَّامٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ , فَإِنَّهُ شَافِعٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , تَعَلَّمُوا الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ , تَعَلَّمُوا الزَّهْرَاوَيْنِ , فَإِنَّهُمَا يَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ , أَوْ غَيَايَتَانِ , أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ , يُحَاجَّانِ عَنْ صَاحِبِهِمَا , تَعَلَّمُوا الْبَقَرَةَ فَإِنَّ تَعْلِيمَهَا بَرَكَةٌ , وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ , وَلَا يَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ" .
امام احمد رحمہ اللہ کے صاحبزادے کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں نے اپنے والد صاحب کی تحریرات میں ان کی اپنی لکھائی سے لکھی ہوئی پائی ہے لیکن اس پر انہوں نے نشان لگایا ہوا تھا جس کی وجہ سے میرے خیال کے مطابق سند کی غلطی ہے، یہ حدیث زید نے ابو سلام کے حوالے سے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی تھی، وہ حدیث یہ ہے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن کریم کو سیکھو کیونکہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا دو روشن سورتیں یعنی سورت بقرہ اور آل عمران کو سیکھو، کیونکہ یہ دونوں سورتیں قیامت کے دن سائبانوں کی شکل یا پرندوں کی دو صف بستہ ٹولیوں کی شکل میں آئیں گی اور اپنے پڑھنے والوں کا دفاع کریں گی پھر فرمایا سورت بقرہ کو سیکھو کیونکہ اس کا حاصل کرنا برکت اور چھوڑنا حسرت ہے اور باطل (جادوگر) اس کی طاقت نہیں رکھتے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ممعر أخطأ فيه، فقال: عن يحيى عن أبى سلمة، وإنما هو عن يحيى، عن زيد بن سلام، عن جده أبى سلام، أو عن يحيى عن أبى سلام