حضرت قبیصہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ پرندوں کو خوفزدہ کرکے اڑانا اور پرندوں سے شگون لینا اور زمین پر لکیریں کھینچنا بت پرستی کا حصہ ہے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا عوف ، عن حيان ، حدثني قطن بن قبيصة ، عن ابيه ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إن العيافة، والطرق، والطيرة من الجبت" ، قال عوف: العيافة: زجر الطير، والطرق: الخط يخط في الارض، والجبت، قال الحسن: إنه الشيطان.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ حَيَّانَ ، حَدَّثَنِي قَطَنُ بْنُ قَبِيصَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ الْعِيَافَةَ، وَالطَّرْقَ، وَالطِّيَرَةَ مِنَ الْجِبْتِ" ، قَالَ عَوْفٌ: الْعِيَافَةُ: زَجْرُ الطَّيْرِ، وَالطَّرْقُ: الْخَطُّ يُخَطُّ فِي الْأَرْضِ، وَالْجِبْتُ، قَالَ الْحَسَنُ: إِنَّهُ الشَّيْطَانُ.
حضرت قبیصہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ پرندوں کو خوفزدہ کرکے اڑانا اور پرندوں سے شگون لینا اور زمین پر لکیریں کھینچنا بت پرستی کا حصہ ہے۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا التيمي ، عن ابي عثمان ، عن قبيصة بن مخارق ، وزهير بن عمرو ، قالا: لما نزلت (وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214)، صعد رسول الله صلى الله عليه وسلم رقمة من جبل على اعلاها حجر، فجعل ينادي" يا بني عبد مناف، إنما انا نذير، إنما مثلي ومثلكم كرجل راى العدو، فذهب يربا اهله، فخشي ان يسبقوه، فجعل ينادي ويهتف يا صباحاه" ..حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا التَّيْمِيُّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ ، وَزُهَيْرِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَا: لَمَّا نَزَلَتْ (وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214)، صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَقْمَةً مِنْ جَبَلٍ عَلَى أَعْلَاهَا حَجَرٌ، فَجَعَلَ يُنَادِي" يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، إِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ، إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَرَجُلٍ رَأَى الْعَدُوَّ، فَذَهَبَ يَرْبَأُ أَهْلَهُ، فَخَشِيَ أَنْ يَسْبِقُوهُ، فَجَعَلَ يُنَادِي وَيَهْتِفُ يَا صَبَاحَاهْ" ..
حضرت قبیصہ بن مخارق سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آیت وانذر عشیرتک الاقربین نازل ہوئی تو آپ ایک پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے اور پکار کر فرمایا اے آل عبدمناف ایک ڈرانے والے کی بات سنو میری اور تمہاری مثال اس شخص کی سی ہے جو دشمن کو دیکھ کر اہل علاقہ کو ڈرانے کے لئے نکل پڑے اور یاصباحاہ کی نداء لگانا شروع کردے۔
حدثنا عبد الوهاب الثقفي ، حدثنا ايوب ، عن ابي قلابة ، عن قبيصة ، قال: انكسفت الشمس، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى ركعتين، فاطال فيهما القراءة، فانجلت، فقال:" إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله يخوف بهما عباده، فإذا رايتم ذلك، فصلوا كاحدث صلاة صليتموها من المكتوبة" ..حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ قَبِيصَةَ ، قَالَ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَأَطَالَ فِيهِمَا الْقِرَاءَةَ، فَانْجَلَتْ، فَقَالَ:" إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ يُخَوِّفُ بِهِمَا عِبَادَهُ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ، فَصَلُّوا كَأَحْدَثِ صَلَاةٍ صَلَّيْتُمُوهَا مِنَ الْمَكْتُوبَةِ" ..
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ایک مرتبہ سورج گرہن ہوگیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم جلدی سے اپنے کپڑے گھسیٹتے ہوئے نکلے اور مسجد پہنچے لوگ بھی جلدی سے آگئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں حتی کہ سورج مکمل روشن ہوگیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا چاند سورج اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جن کے ذریعے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے انہیں کسی کی موت کی وجہ سے گہن نہیں لگتا دراصل اسی دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تھا۔ جب تم کوئی ایسی چیز دیکھا کرو تو نماز پڑھ کر دعا کیا کرو یہاں تک کہ مصیبت ٹل جائے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو قلابة لم يسمع من قبيصة بن مخارق، وفي هذا الحديث اضطراب
حدثني وكيع ، حدثنا قرة ، عن حميد بن هلال العدوي ، عن رجل منهم يقال له: خالد بن عمير فقال ابو نعامة ، سمعته من خالد بن عمير ، قال: خطبنا عتبة بن غزوان ، قال: ابو نعامة على المنبر، ولم يقله قرة، فقال: الا إن الدنيا قد آذنت بصرم، وولت حذاء، ولم يبق منها إلا صبابة كصبابة الإناء، وانتم في دار منتقلون عنها، فانتقلوا بخير ما بحضرتكم،" فلقد رايتني سابع سبعة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لنا طعام ناكله إلا ورق الشجر، حتى قرحت اشداقنا" ، قال ابو عبد الرحمن: سمعت ابي يقول: ما حدث بهذا الحديث غير وكيع، يعني انه غريب..حَدَّثَنِي وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ الْعَدَوِيِّ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ: خَالِدُ بْنُ عُمَيْرٍ فَقَالَ أَبُو نَعَامَةَ ، سَمِعْتُهُ مِنْ خَالِدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ: خَطَبَنَا عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ ، قَالَ: أَبُو نَعَامَةَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَلَمْ يَقُلْهُ قُرَّةُ، فَقَالَ: أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا قَدْ آذَنَتْ بِصَرْمٍ، وَوَلَّتْ حَذَّاءَ، وَلَمْ يَبْقَ مِنْهَا إِلَّا صُبَابَةٌ كَصُبَابَةِ الْإِنَاءِ، وَأَنْتُمْ فِي دَارٍ مُنْتَقِلُونَ عَنْهَا، فَانْتَقِلُوا بِخَيْرِ مَا بِحَضْرَتِكُمْ،" فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي سَابِعَ سَبْعَةٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَنَا طَعَامٌ نَأْكُلُهُ إِلَّا وَرَقُ الشَّجَرِ، حَتَّى قَرِحَتْ أَشْدَاقُنَا" ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: سَمِعْت أَبِي يَقُولُ: مَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ غَيْرُ وَكِيعٍ، يَعْنِي أَنَّهُ غَرِيبٌ..
ایک مرتبہ حضرت عتبہ نے خطبہ دیتے ہوئے شروع میں اللہ کی حمدوثناء بیان کیا ور امابعد کہہ کر فرمایا کہ دنیا اس بات کی خبر دے رہی ہے کہ وہ ختم ہونے والی ہے اور وہ پیٹھ کر جانے والی ہے اور اس کی بقاء اتنی ہی رہ گئی ہے جتنی کسی برتن میں تری کی ہوتی ہے جو پینے والا چھوڑ دیتا ہے اور تم ایک ایسے گھر کی طرف منتقل ہونے والے ہو جسے کبھی زوال نہیں آئے گا لہذا بہترین اعمال کے ساتھ اس گھر کی طرف منتقل ہوجاؤ اور میں نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلام قبول کرنے والوں میں سے ساتواں فرد تھا اس وقت ہمارے پاس سوائے درختوں کے پتوں کے کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا تھا جس کی وجہ سے ہمارے جبڑے چھل گئے تھے۔
ایک مرتبہ حضرت عتبہ نے خطبہ دیتے ہوئے شروع میں اللہ کی حمدوثناء بیان کیا۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور آخر میں کہا اور میں نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلام قبول کرنے والوں میں سے سا تو اں فرد تھا اس وقت ہمارے پاس سوائے درختوں کے پتوں کے کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا تھا جس کی وجہ سے ہمارے جبڑے چھل گئے تھے
حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن حميد بن هلال ، عن رجل ، قال ايوب اراه خالد بن عمير، قال: سمعت عتبة بن غزوان يخطب، فذكر الحديث، قال:" ولقد رايتني سابع سبعة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم او قال: من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما لنا طعام إلا الشجر او قال ورق الشجر، حتى قرحت اشداقنا"، قال ابي: ابو نعامة هذا: عمرو بن عيسى، وابو نعامة السعدي آخر اقدم من هذا، وهذا اكبر من ذاك.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، قَالَ أَيُّوبُ أُرَاهُ خَالِدَ بْنَ عُمَيْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُتْبَةَ بْنَ غَزْوَانَ يَخْطُبُ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ:" وَلَقَدْ رَأَيْتُنِي سَابِعَ سَبْعَةٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ قَالَ: مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا لَنَا طَعَامٌ إِلَّا الشَّجَرَ أَوْ قَالَ وَرَقَ الشَّجَرِ، حَتَّى قَرِحَتْ أَشْدَاقُنَا"، قَالَ أَبِي: أَبُو نَعَامَةَ هَذَا: عَمْرُو بْنُ عِيسَى، وَأَبُو نَعَامَةَ السَّعْدِيُّ آخَرُ أَقْدَمُ مِنْ هَذَا، وَهَذَا أَكْبَرُ مِنْ ذَاكَ.
حضرت قیس بن عاصم نے اپنے انتقال سے پہلے اپنی اولاد کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اپنے میں سب سے بڑے کو سربراہ بنانا کیونکہ جب قوم اپنے بڑے کو سردار بناتی ہے تو وہ اپنے باپ کی جانشین ثابت ہوتی ہے۔۔۔۔ اور جب میں مرجاؤں تو مجھ پر نوحہ نہ کرنا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی نوحہ نہیں کیا گیا تھا۔