حدثني وكيع ، حدثنا قرة ، عن حميد بن هلال العدوي ، عن رجل منهم يقال له: خالد بن عمير فقال ابو نعامة ، سمعته من خالد بن عمير ، قال: خطبنا عتبة بن غزوان ، قال: ابو نعامة على المنبر، ولم يقله قرة، فقال: الا إن الدنيا قد آذنت بصرم، وولت حذاء، ولم يبق منها إلا صبابة كصبابة الإناء، وانتم في دار منتقلون عنها، فانتقلوا بخير ما بحضرتكم،" فلقد رايتني سابع سبعة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ما لنا طعام ناكله إلا ورق الشجر، حتى قرحت اشداقنا" ، قال ابو عبد الرحمن: سمعت ابي يقول: ما حدث بهذا الحديث غير وكيع، يعني انه غريب..حَدَّثَنِي وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ الْعَدَوِيِّ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ: خَالِدُ بْنُ عُمَيْرٍ فَقَالَ أَبُو نَعَامَةَ ، سَمِعْتُهُ مِنْ خَالِدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ: خَطَبَنَا عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ ، قَالَ: أَبُو نَعَامَةَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَلَمْ يَقُلْهُ قُرَّةُ، فَقَالَ: أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا قَدْ آذَنَتْ بِصَرْمٍ، وَوَلَّتْ حَذَّاءَ، وَلَمْ يَبْقَ مِنْهَا إِلَّا صُبَابَةٌ كَصُبَابَةِ الْإِنَاءِ، وَأَنْتُمْ فِي دَارٍ مُنْتَقِلُونَ عَنْهَا، فَانْتَقِلُوا بِخَيْرِ مَا بِحَضْرَتِكُمْ،" فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي سَابِعَ سَبْعَةٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَنَا طَعَامٌ نَأْكُلُهُ إِلَّا وَرَقُ الشَّجَرِ، حَتَّى قَرِحَتْ أَشْدَاقُنَا" ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: سَمِعْت أَبِي يَقُولُ: مَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ غَيْرُ وَكِيعٍ، يَعْنِي أَنَّهُ غَرِيبٌ..
ایک مرتبہ حضرت عتبہ نے خطبہ دیتے ہوئے شروع میں اللہ کی حمدوثناء بیان کیا ور امابعد کہہ کر فرمایا کہ دنیا اس بات کی خبر دے رہی ہے کہ وہ ختم ہونے والی ہے اور وہ پیٹھ کر جانے والی ہے اور اس کی بقاء اتنی ہی رہ گئی ہے جتنی کسی برتن میں تری کی ہوتی ہے جو پینے والا چھوڑ دیتا ہے اور تم ایک ایسے گھر کی طرف منتقل ہونے والے ہو جسے کبھی زوال نہیں آئے گا لہذا بہترین اعمال کے ساتھ اس گھر کی طرف منتقل ہوجاؤ اور میں نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلام قبول کرنے والوں میں سے ساتواں فرد تھا اس وقت ہمارے پاس سوائے درختوں کے پتوں کے کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا تھا جس کی وجہ سے ہمارے جبڑے چھل گئے تھے۔
ایک مرتبہ حضرت عتبہ نے خطبہ دیتے ہوئے شروع میں اللہ کی حمدوثناء بیان کیا۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور آخر میں کہا اور میں نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلام قبول کرنے والوں میں سے سا تو اں فرد تھا اس وقت ہمارے پاس سوائے درختوں کے پتوں کے کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا تھا جس کی وجہ سے ہمارے جبڑے چھل گئے تھے