حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا عوف ، عن حسناء امراة من بني صريم، عن عمها ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " النبي في الجنة، والشهيد في الجنة، والمولود في الجنة، والوئيد في الجنة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ حَسْنَاءَ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي صُرَيْمٍ، عَنْ عَمِّهَا ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " النَّبِيُّ فِي الْجَنَّةِ، وَالشَّهِيدُ فِي الْجَنَّةِ، وَالْمَوْلُودُ فِي الْجَنَّةِ، وَالْوَئِيدُ فِي الْجَنَّةِ" .
حسناء جو بنوصریم کی ایک خاتون تھیں اپنے چچا سے نقل کرتی ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے نبی جنت میں ہوں گے شہید جنت میں ہوں گے نومولود بچے جنت میں ہوں گے اور زندہ درگور کئے ہوئے بچے بھی جنت میں ہوں گے۔
حدثنا هشيم ، اخبرنا ابو بشر ، عن ابي عمير بن انس ، قال: حدثني عمومة لي من الانصار من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: غم علينا هلال شوال، فاصبحنا صياما، فجاء ركب من آخر النهار فشهدوا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم انهم راوا الهلال بالامس،" فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يفطروا من يومهم وان يخرجوا لعيدهم من الغد" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ ، عَنْ أَبِي عُمَيْرِ بْنِ أَنَسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمُومَةٌ لِي مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: غُمَّ عَلَيْنَا هِلَالُ شَوَّالٍ، فَأَصْبَحْنَا صِيَامًا، فَجَاءَ رَكْبٌ مِنْ آخِرِ النَّهَارِ فَشَهِدُوا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ رَأَوْا الْهِلَالَ بِالْأَمْسِ،" فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُفْطِرُوا مِنْ يَوْمِهِمْ وَأَنْ يَخْرُجُوا لِعِيدِهِمْ مِنَ الْغَدِ" .
متعدد صحابہ سے مروی ہے کہ کچھ سوار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شہادت کی کہ کل انہوں نے عید کا چاند دیکھا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو روزہ ختم کرنے کا حکم دیا اور یہ کہ نماز عید کے لئے اگلے دن نکلیں۔
حدثنا إسحاق يعني الازرق ، اخبرنا عوف ، قال: حدثتني حسناء ابنة معاوية الصريمية، عن عمها ، قال: قلت يا رسول الله، من في الجنة؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم: " النبي في الجنة، والشهيد في الجنة، والمولود في الجنة، والموءودة في الجنة" .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ يَعْنِي الْأَزْرَقَ ، أَخْبَرَنَا عَوْفٌ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي حَسْنَاءُ ابْنَةُ مُعَاوِيَةَ الصُّرَيْمِيَّةُ، عَنْ عَمِّهَا ، قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ فِي الْجَنَّةِ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " النَّبِيُّ فِي الْجَنَّةِ، وَالشَّهِيدُ فِي الْجَنَّةِ، وَالْمَوْلُودُ فِي الْجَنَّةِ، وَالْمَوْءُودَةُ فِي الْجَنَّةِ" .
حسناء جو بنوصریم کی ایک خاتون تھیں اپنے چچا سے نقل کرتی ہیں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں ہوں گے شہید جنت میں ہوں گے نومولود بچے جنت میں ہوں گے اور زندہ درگور کئے ہوئے بچے بھی جنت میں ہوں گے
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت إسحاق بن سويد ، قال: سمعت مطرف بن عبد الله بن الشخير يحدث، عن رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قال: كان بالكوفة امير، قال: فخطب يوما فقال:" إن في إعطاء هذا المال فتنة، وفي إمساكه فتنة"، وبذلك قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في خطبته حتى فرغ ثم نزل .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ إِسْحَاقَ بْنَ سُوَيْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُطَرِّفَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ يُحَدِّثُ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كَانَ بِالْكُوفَةِ أَمِيرٌ، قَالَ: فَخَطَبَ يَوْمًا فَقَالَ:" إِنَّ فِي إِعْطَاءِ هَذَا الْمَالِ فِتْنَةً، وَفِي إِمْسَاكِهِ فِتْنَةً"، وَبِذَلِكَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خُطْبَتِهِ حَتَّى فَرَغَ ثُمَّ نَزَلَ .
مطرف بن عبداللہ کہتے ہیں کہ کوفہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی گورنر تھے ایک دن انہوں نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا یہ مال دینے میں بھی آزمائش ہے اور روک کر رکھنے میں بھی آزمائش ہے یہی بات ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں کھڑے ہو کر فرمائی تھی یہاں تک کہ فارغ ہو کر منبر سے نیچے اتر آئے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا عثمان بن غياث ، قال: سمعت ابا السليل قال: كان رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يحدث الناس حتى يكثر عليه، فيصعد على ظهر بيت فيحدث الناس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اي آية في القرآن اعظم؟" قال: فقال رجل الله لا إله إلا هو الحي القيوم سورة البقرة آية 255، قال فوضع يده بين كتفي، قال: فوجدت بردها بين ثديي، او قال فوضع يده بين ثديي فوجدت بردها بين كتفي، قال:" يهنك يا ابا المنذر، العلم العلم" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ غِيَاثٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا السَّلِيلِ قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ النَّاسَ حَتَّى يُكْثَرَ عَلَيْهِ، فَيَصْعَدَ عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ فَيُحَدِّثَ النَّاسَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّ آيَةٍ فِي الْقُرْآنِ أَعْظَمُ؟" قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ سورة البقرة آية 255، قَالَ فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ، قَالَ: فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ، أَوْ قَالَ فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ كَتِفَيَّ، قَالَ:" يَهْنِكَ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ، الْعِلْمُ الْعِلْمُ" .
ابوالسلیل کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی لوگوں کے سامنے حدیث بیان کر رہے تھے لوگوں کی تعداد جب بڑھتی گئی تو وہ گھر کی چھت پر بیٹھ کر حدیثیں بیان کرنے لگے انہوں نے کہا ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا قرآن میں سب سے بڑی آیت کون سی ہے؟ ایک آدمی نے کہا آیت الکرسی وہ صحابی کہتے ہیں میرا جواب سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابومنذر تمہیں علم مبارک ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، أبو السليل لم يدرك صحابي هذا الحديث
حدثنا هشيم ، اخبرنا ابن عون ، حدثنا رجل من اهل البادية، عن ابيه ، عن جده ، انه حج مع ذي قرابة له مقترنا به، فرآه النبي صلى الله عليه وسلم فقال:" ما هذا؟" قال: إنه نذر، فامر بالقران ان يقطع .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، حَدَّثَنَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّهُ حَجَّ مَعَ ذِي قَرَابَةٍ لَهُ مُقْتَرِنًا بِهِ، فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" مَا هَذَا؟" قَالَ: إِنَّهُ نَذْرٌ، فَأَمَرَ بِالْقِرَانِ أَنْ يُقْطَعَ .
ایک صحابی سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک قریبی رشتہ دار کے ساتھ اس طرح حج کیا کہ اس کے ساتھ اپنے آپ کو رسی سے باندھا ہوا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو پوچھا یہ کیا بتایا کہ اس نے منت مانی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رسی کو کاٹنے کا حکم دے دیا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الرجل البدوي وأبيه وجده
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن عاصم ، عن ابي تميمة الهجيمي ، عمن كان رديف النبي صلى الله عليه وسلم، قال: كنت رديفه على حمار، فعثر الحمار، فقلت: تعس الشيطان، فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم: " لا تقل تعس الشيطان، فإنك إذا قلت تعس الشيطان، تعاظم الشيطان في نفسه، وقال: صرعته بقوتي، فإذا قلت: بسم الله، تصاغرت إليه نفسه حتى يكون اصغر من ذباب" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ ، عَمَّنْ كَانَ رَدِيفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كُنْتُ رَدِيفَهُ عَلَى حِمَارٍ، فَعَثَرَ الْحِمَارُ، فَقُلْتُ: تَعِسَ الشَّيْطَانُ، فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقُلْ تَعِسَ الشَّيْطَانُ، فَإِنَّكَ إِذَا قُلْتَ تَعِسَ الشَّيْطَانُ، تَعَاظَمَ الشَّيْطَانُ فِي نَفْسِهِ، وَقَالَ: صَرَعْتُهُ بِقُوَّتِي، فَإِذَا قُلْتَ: بِسْمِ اللَّهِ، تَصَاغَرَتْ إِلَيْهِ نَفْسُهُ حَتَّى يَكُونَ أَصْغَرَ مِنْ ذُبَابٍ" .
ایک صحابی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے گدھے پر سوار تھا اچانگ گدھا بدک گیا میرے منہ سے نکل گیا کہ شیطان برباد ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ نہ کہو کیونکہ جب تم یہ جملہ کہتے ہو تو شیطان اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اسے اپنی طاقت سے پچھاڑا ہے اور جب تم بسم اللہ کہو گے تو وہ اپنی نظروں میں اتنا حقیر ہوجائے گا کہ مکھی سے بھی چھوٹا ہوجائے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا الحديث اختلف فيه على أبى تميمة
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عاصم ، قال: سمعت ابا تميمة يحدث، عن رديف النبي صلى الله عليه وسلم قال شعبة: قال عاصم ، عن ابي تميمة ، عن رجل ، عن رديف النبي صلى الله عليه وسلم قال: عثر بالنبي صلى الله عليه وسلم حماره، فقلت: تعس الشيطان، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لا تقل: تعس الشيطان، فإنك إذا قلت: تعس الشيطان، تعاظم وقال بقوتي صرعته، وإذا قلت: بسم الله، تصاغر حتى يصير مثل الذباب" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا تَمِيمَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ رَدِيفِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ شُعْبَةُ: قَالَ عَاصِمٌ ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ رَدِيفِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: عَثَرَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِمَارُهُ، فَقُلْتُ: تَعِسَ الشَّيْطَانُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقُلْ: تَعِسَ الشَّيْطَانُ، فَإِنَّكَ إِذَا قُلْتَ: تَعِسَ الشَّيْطَانُ، تَعَاظَمَ وَقَالَ بِقُوَّتِي صَرَعْتُهُ، وَإِذَا قُلْتَ: بِسْمِ اللَّهِ، تَصَاغَرَ حَتَّى يَصِيرَ مِثْلَ الذُّبَابِ" .
ایک صحابی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے گدھے پر سوار تھا اچانک گدھا بدک گیا میرے منہ سے نکل گیا کہ شیطان برباد ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ نہ کہو کیونکہ جب تم یہ جملہ کہتے ہو تو شیطان اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اسے اپنی طاقت سے پچھاڑا ہے اور جب تم بسم اللہ کہو گے تو وہ اپنی نظروں میں اتنا حقیر ہوجائے گا کہ مکھی سے چھوٹا ہوجائے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا الحديث اختلف فيه على أبى تميمة