حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن عمرو بن سلمة ، قال: كنا على حاضر، فكان الركبان , وقال إسماعيل مرة: الناس يمرون بنا راجعين من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فادنو منهم فاسمع، حتى حفظت قرآنا، وكان الناس ينتظرون بإسلامهم فتح مكة، فلما فتحت، جعل الرجل ياتيه فيقول: يا رسول الله، انا وافد بني فلان، وجئتك بإسلامهم , فانطلق ابي بإسلام قومه، فرجع إليهم، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قدموا اكثركم قرآنا" , قال: فنظروا وانا لعلى حواء عظيم، فما وجدوا فيهم احدا اكثر قرآنا مني، فقدموني وانا غلام، فصليت بهم وعلي بردة، وكنت إذا ركعت او سجدت قلصت فتبدو عورتي، فلما صلينا تقول عجوز لنا دهرية غطوا عنا است قارئكم! قال: فقطعوا لي قميصا، فذكر انه فرح به فرحا شديدا .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلِمَةَ ، قَالَ: كُنَّا عَلَى حَاضِرٍ، فَكَانَ الرُّكْبَانُ , وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ مَرَّةً: النَّاسُ يَمُرُّونَ بِنَا رَاجِعِينَ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَدْنُو مِنْهُمْ فَأَسْمَعُ، حَتَّى حَفِظْتُ قُرْآنًا، وَكَانَ النَّاسُ يَنْتَظِرُونَ بِإِسْلَامِهِمْ فَتْحَ مَكَّةَ، فَلَمَّا فُتِحَتْ، جَعَلَ الرَّجُلُ يَأْتِيهِ فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا وَافِدُ بَنِي فُلَانٍ، وَجِئْتُكَ بِإِسْلَامِهِمْ , فَانْطَلَقَ أَبِي بِإِسْلَامِ قَوْمِهِ، فَرَجَعَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدِّمُوا أَكْثَرَكُمْ قُرْآنًا" , قَالَ: فَنَظَرُوا وَأَنَا لَعَلَى حِوَاءٍ عَظِيمٍ، فَمَا وَجَدُوا فِيهِمْ أَحَدًا أَكْثَرَ قُرْآنًا مِنِّي، فَقَدَّمُونِي وَأَنَا غُلَامٌ، فَصَلَّيْتُ بِهِمْ وَعَلَيَّ بُرْدَةٌ، وَكُنْتُ إِذَا رَكَعْتُ أَوْ سَجَدْتُ قَلَصَتْ فَتَبْدُو عَوْرَتِي، فَلَمَّا صَلَّيْنَا تَقُولُ عَجُوزٌ لَنَا دَهْرِيَّةٌ غَطُّوا عَنَّا اسْتَ قَارِئِكُمْ! قَالَ: فَقَطَعُوا لِي قَمِيصًا، فَذَكَرَ أَنَّهُ فَرِحَ بِهِ فَرَحًا شَدِيدًا .
حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ شہر میں رہتے تھے جب لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے واپس آتے تو ہمارے یہاں سے ہو کر گذرتے تھے میں ان کے قریب جاتا اور ان کی باتیں سنتا یہاں تک کہ میں نے قرآن کا کچھ حصہ بھی یاد کرلیا لوگ فتح مکہ کا انتظار کررہے تھے تاکہ اسلام قبول کریں چنانچہ جب مکہ مکرمہ فتح ہوگیا تو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے لگے وہ کہتے تھے کہ یا رسول اللہ میں فلاں قبیلے کا نمائندہ ہوں اور ان کے قبول اسلام کا پیغام لے کر آیا ہوں۔ میرے والد صاحب بھی اپنی قوم کے اسلام کا پیغام لے کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تھے اور وہ واپس آنے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امامت کے لئے اس شخص کو آگے کرنا جو سب سے زیادہ قرآن پڑھا ہوا ہو میں اس وقت قریب قریب بہت سے گھروں کے محلے میں رہتا تھا لوگوں نے غور کیا تو انہیں مجھ سے زیادہ قرآن پڑھا ہوا کوئی آدمی نہ مل سکا چنانچہ انہوں نے نوعمر ہونے کے باوجود مجھ ہی کو آگے کردیا۔ اور میں انہیں نماز پڑھانے لگا میرے جسم پر ایک چادر ہوتی تھی میں جب رکوع یا سجدے میں جاتا تو وہ چھوٹی پڑجاتی اور میرا ستر کھل جاتایہ دیکھ کر ایک بوڑھی خاتون لوگوں سے کہنے لگی کہ اپنے امام صاحب کا ستر تو چھپاؤ چنانچہ لوگوں نے میرے لئے ایک قمیض تیار کی جسے پاکر مجھے بہت خوشی ہوئی۔
حضرت عمرو بن سلمہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہمارے پاس کچھ سوار آتے تھے ہم ان سے قرآن پڑھتے تھے وہ ہم سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے جو شخص زیادہ قرآن جانتا ہو اسے تمہاری امامت کرنی چاہئے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن عاصم
حدثنا يونس ، حدثنا عمر بن إبراهيم اليشكري ، حدثنا شيخ كبير من بني عقيل , يقال له: عبد المجيد العقيلي ، قال: انطلقنا حجاجا ليالي خرج يزيد بن المهلب، وقد ذكر لنا ان ماء بالعالية يقال له: الزجيج، فلما قضينا مناسكنا جئنا حتى اتينا الزجيج، فانخنا رواحلنا، قال: فانطلقنا حتى اتينا على بئر عليه اشياخ مخضبون يتحدثون , قال: قلنا هذا الذي صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، اين بيته؟ قالوا: نعم صحبه، وهذاك بيته , فانطلقنا حتى اتينا البيت فسلمنا، قال: فاذن لنا، فإذا هو شيخ كبير مضطجع يقال له: العداء بن خالد الكلابي ، قلت: انت الذي صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، ولولا انه الليل لاقراتكم كتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلي , قال: فمن انتم؟ قلنا: من اهل البصرة , قال: مرحبا بكم، ما فعل يزيد بن المهلب، قلنا: هو هناك يدعو إلى كتاب الله تبارك وتعالى وإلى سنة النبي صلى الله عليه وسلم , قال: فيما هو من ذلك، فيما هو من ذلك، قال قلت: ايا نتبع هؤلاء او هؤلاء يعني اهل الشام، او يزيد؟ قال: إن تقعدوا تفلحوا وترشدوا، إن تقعدوا تفلحوا وترشدوا، لا اعلمه إلا قال ثلاث مرات , رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عرفة وهو قائم في الركابين ينادي باعلى صوته:" يا ايها الناس، اي يوم يومكم هذا؟" قالوا: الله ورسوله اعلم , قال:" فاي شهر شهركم هذا؟" قالوا: الله ورسوله اعلم , قال:" فاي بلد بلدكم هذا؟" قالوا: الله ورسوله اعلم , قال: يومكم يوم حرام، وشهركم شهر حرام، وبلدكم بلد حرام" قال: فقال: الا إن دماءكم واموالكم عليكم حرام، كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، إلى يوم تلقون ربكم تبارك وتعالى، فيسالكم عن اعمالكم" قال: ثم رفع يديه إلى السماء فقال:" اللهم اشهد عليهم، اللهم اشهد عليهم" ذكر مرارا، فلا ادري كم ذكره؟.حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْيَشْكُرِيُّ ، حَدَّثَنَا شَيْخٌ كَبِيرٌ مِنْ بَنِي عُقَيْلٍ , يُقَالُ لَهُ: عَبْدُ الْمَجِيدِ الْعُقَيْلِيُّ ، قَالَ: انْطَلَقْنَا حُجَّاجًا لَيَالِيَ خَرَجَ يَزِيدُ بْنُ الْمُهَلَّبِ، وَقَدْ ذُكِرَ لَنَا أَنَّ مَاءً بِالْعَالِيَةِ يُقَالُ لَهُ: الزُّجَيْجُ، فَلَمَّا قَضَيْنَا مَنَاسِكَنَا جِئْنَا حَتَّى أَتَيْنَا الزُّجَيْجَ، فَأَنَخْنَا رَوَاحِلَنَا، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى بِئْرٍ عَلَيْهِ أَشْيَاخٌ مُخَضَّبُونَ يَتَحَدَّثُونَ , قَالَ: قُلْنَا هَذَا الَّذِي صَحِبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيْنَ بَيْتُهُ؟ قَالُوا: نَعَمْ صَحِبَهُ، وَهَذَاكَ بَيْتُهُ , فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا الْبَيْتَ فَسَلَّمْنَا، قَالَ: فَأَذِنَ لَنَا، فَإِذَا هُوَ شَيْخٌ كَبِيرٌ مُضْطَجِعٌ يُقَالُ لَهُ: الْعَدَّاءُ بْنُ خَالِدٍ الْكِلَابِيُّ ، قُلْتُ: أَنْتَ الَّذِي صَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَلَوْلَا أَنَّهُ اللَّيْلُ لَأَقْرَأْتُكُمْ كِتَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ , قَالَ: فَمَنْ أَنْتُمْ؟ قُلْنَا: مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ , قَالَ: مَرْحَبًا بِكُمْ، مَا فَعَلَ يَزِيدُ بْنُ الْمُهَلَّبِ، قُلْنَا: هُوَ هُنَاكَ يَدْعُو إِلَى كِتَابِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَإِلَى سُنَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: فِيمَا هُوَ مِنْ ذَلكَ، فِيمَا هُوَ مِنْ ذَلكَ، قَالَ قُلْتُ: أَيًّا نَتَّبِعُ هَؤُلَاءِ أَوْ هَؤُلَاءِ يَعْنِي أَهْلَ الشَّامِ، أَوْ يَزِيدَ؟ قَالَ: إِنْ تَقْعُدُوا تُفْلِحُوا وَتَرْشُدُوا، إِنْ تَقْعُدُوا تُفْلِحُوا وَتَرْشُدُوا، لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ , رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَرَفَةَ وَهُوَ قَائِمٌ فِي الرِّكَابَيْنِ يُنَادِي بِأَعْلَى صَوْتِهِ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَيُّ يوم يَوْمِكُمْ هَذَا؟" قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" فَأَيُّ شَهْرٍ شَهْرُكُمْ هَذَا؟" قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" فَأَيُّ بَلَدٍ بَلَدُكُمْ هَذَا؟" قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ: يَوْمُكُمْ يَوْمٌ حَرَامٌ، وَشَهْرُكُمْ شَهْرٌ حَرَامٌ، وَبَلَدُكُمْ بَلَدٌ حَرَامٌ" قَالَ: فَقَالَ: أَلَا إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، إِلَى يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، فَيَسْأَلُكُمْ عَنْ أَعْمَالِكُمْ" قَالَ: ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ فَقَالَ:" اللَّهُمَّ اشْهَدْ عَلَيْهِمْ، اللَّهُمَّ اشْهَدْ عَلَيْهِمْ" ذَكَرَ مِرَارًا، فَلَا أَدْرِي كَمْ ذَكَرَهُ؟.
عبدالمجید عقیلی کہتے ہیں کہ ہم لوگ اس زمانے میں حج کے لئے روانہ ہوئے جب یزید بن مہلب نے خروج کیا تھا ہمیں بتایا گیا تھا کہ عالیہ میں رجیح نامی پانی کا کنواں موجود ہے جب ہم مناسک حج سے فارغ ہوئے تو رجیح پہنچ کر اپنی سواریوں کو بٹھایا پھر خود کنویں کے پاس پہنچے وہاں کچھ خضاب لگائے ہوئے معمر افراد بیٹھے باتیں کررہے تھے ہم نے ان لوگوں سے پوچھا کہ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی رہتے ہیں ان کا گھر کہاں ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ایک صحابی یہاں رہتے ہیں جن کا وہ گھر ہے۔ ہم چلتے ہوئے ان کے گھر پہنچے اور باہر کھڑے ہو کر سلام کیا انہوں نے ہمیں اندر آنے کی اجازت دی گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک بہت بوڑھے آدمی لیٹے ہوئے ہیں جنہیں عداء بن خالد کلابی کہا جاتا تھا ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم نشینی پائی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں اگر رات کا وقت نہ ہوتا تو میں تمہیں وہ خط بھی پڑھواتا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے لکھا تھا۔ پھر ہم سے پوچھا کہ تم کون لوگ ہو ہم نے بتایا کہ اہل بصرہ میں سے ہیں انہوں نے ہم کو مرحبا کہا اور پوچھا کہ یزید بن مہلب کا کیا بنا؟ ہم نے کہا وہ وہاں کتاب اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی دعوت دے رہا ہے انہوں نے پوچھا کہ یزید بن مہلب موجودہ حکمران کی نسبت کیسا ہے میں نے عرض کیا ہم کسی کی پیروی کریں اہل شام کی یا یزید بن مہلب کی انہوں نے تین مرتبہ یہی فرمایا اگر تم خاموش سے بیٹھے رہو گے تو کامیاب ہوجاؤ گے میں نے عرفہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اونٹ کی دونوں رکابوں پر کھڑے ہوئے دیکھا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے فرما رہے تھے اے لوگو آج کا دن کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ آج کا مہینہ کون سا ہے؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ شہر کون سا ہے لوگوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج کا دن حرمت والا ہے اور مہینہ بھی حرمت والا ہے اور یہ شہر بھی حرمت والا ہے یاد رکھو تمہاری جان اور مال ایک دوسرے کے لئے اس طرح حرمت والے ہیں جیسا آج کا دن کہ اس مہینے اور اس شہر میں حرمت ہے یہاں تک کہ تم اپنے رب سے آملو۔ وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق سوال کرے گا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کئی مرتبہ فرمایا اے اللہ تو گواہ رہ۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، عمر بن إبراهيم إن لم يكن هو العبيدي البصري، فلا يعرف، وهو متابع
حدثنا وكيع ، حدثنا عباد بن راشد ، عن الحسن ، حدثنا احمر صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن كنا لناوي لرسول الله صلى الله عليه وسلم مما يجافي بيديه عن جنبيه إذا سجد ..حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، حَدَّثَنَا أَحْمَرُ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنْ كُنَّا لَنَأْوِي لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا يُجَافِي بِيَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ إِذَا سَجَدَ ..
حضرت احمر بن جزء سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدے میں جاتے تو ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت ترس آتا تھا کیونکہ آپ اپنی کہنیوں کو اپنے پہلوؤں سے جدا کرنے میں بہت مشقت اٹھاتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد لأجل عباد بن راشد
حدثنا عفان ، حدثنا عباد بن راشد ، حدثنا الحسن ، حدثني احمر صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" كنا لياوي لرسول الله صلى الله عليه وسلم مما يجافي بيديه عن جنبيه إذا سجد".حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ رَاشِدٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، حَدَّثَنِي أَحْمَرُ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" كُنَّا لَيَأْوِي لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا يُجَافِي بِيَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ إِذَا سَجَدَ".
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد لأجل عباد بن راشد
حضرت صحار عبدی سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی میں بیمار آدمی ہوں مجھے مٹکے میں نبیذ بنانے کی اجازت دے دیں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دیدی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال عبدالرحمن بن صحار
حضرت صحار عبدی سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کچھ قبائل کو زمین میں دھنسا نہ دیا جائے اور لوگ پوچھنے لگیں کہ فلاں قبیلے میں سے کتنے لوگ باقی بچے؟ میں نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قبائل کا ذکر کرتے ہوئے سنا تو میں سمجھ گیا کہ اس سے مراد اہل عرب ہیں کیونکہ عجمیوں کو ان کے شہروں کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال عبدالرحمن بن صحار
حضرت رافع بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ عجوہ کھجور اور درخت جنت سے آئے ہیں۔
فائدہ۔ بعض روایات میں درخت کے بجائے صخرہ بیت المقدس کا تذکرہ بھی آیا ہے۔
حدثنا بهز , وابو النضر ، وعفان , قالوا: حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن حميد ، عن عبد الله بن الصامت ، عن ابي ذر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن من بعدي من امتي قوما يقرءون القرآن لا يجاوز حلاقيمهم، يخرجون من الدين كما يخرج السهم من الرمية، ثم لا يعودون فيه، شر الخلق والخليقة" , قال ابن الصامت: فلقيت رافعا , قال بهز: اخا الحكم بن عمرو فحدثته هذا الحديث، قال: وانا ايضا قد سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا بَهْزٌ , وَأَبُو النَّضْرِ ، وَعَفَّانُ , قَالُوا: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ مِنْ بَعْدِي مِنْ أُمَّتِي قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَلَاقِيمَهُمْ، يَخْرُجُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَخْرُجُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لَا يَعُودُونَ فِيهِ، شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ" , قَالَ ابْنُ الصَّامِتِ: فَلَقِيتُ رَافِعًا , قَالَ بَهْزٌ: أَخَا الْحَكَمِ بْنِ عَمْرٍو فَحَدَّثْتُهُ هَذَا الْحَدِيثَ، قَالَ: وَأَنَا أَيْضًا قَدْ سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے بعد میری امت میں ایک قوم ایسی بھی آئے گی جو قرآن تو پڑھے گی لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے پھر وہ دین میں کبھی واپس نہیں آئیں گے وہ لوگ بدترین مخلوق ہوں گے۔ ابن صامت کہتے ہیں کہ پھر میں حضرت رافع سے ملا اور یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے فرمایا یہ حدیث میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔