حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ غزوہ حدیبیہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک سے درخت کی ایک ٹہنی کو بلند کر رکھا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے بیعت لے رہے تھے اس دن لوگوں نے اس شرط پر بیعت کی تھی کہ راہ فرار اختیار نہیں کریں گے اور اس موقع پر ان کی تعداد چودہ سو پر مشتمل تھی۔ حکیم بن اعرج کہتے ہیں ید اللہ فوق ایدیھم کا بھی یہی مقصد تھا کہ وہ راہ فرار اختیار نہیں کریں گے۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن شعبة ، حدثني عياض ابو خالد ، قال: كان بين جارين لمعقل بن يسار كلام، فصارت اليمين على احدهما، فسمعت معقل بن يسار يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من حلف على يمين يقتطع بها مال اخيه، لقي الله وهو عليه غضبان" ..حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنِي عِيَاضٌ أَبُو خَالِدٍ ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ جَارَيْنِ لمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ كَلَامٌ، فَصَارَتْ الْيَمِينُ عَلَى أَحَدِهِمَا، فَسَمِعْتُ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ يَقْتَطِعُ بِهَا مَالَ أَخِيهِ، لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ" ..
عیاض کہتے ہیں کہ میں نے دو آدمیوں کو حضرت معقل کی موجودگی میں جھگڑا کرتے ہوئے دیکھا حضرت معقل نے فرمایا کہ رسول اللہ کا یہ ارشاد ہے کہ جو شخص کسی بات پر جھوٹی قسم کھاتا ہے کہ کسی کا مال ناحق لے لے وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ کا اس پر غضب ہوگا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عياض
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک انصاری آدمی نے ایک عورت سے شادی کی اس عورت کے بال گرنے لگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ کیا وہ کسی دوسرے کے بال اپنے بالوں سے ملاسکتی ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بال ملانے والی اور ملوانے والی دونوں پر لعنت کی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد لأجل الفضل بن دلهم
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہرج (قتل) کے زمانے میں عبادت کرنا میری طرف ہجرت کرکے آنے کے برابر ہوگا۔
حدثنا عبد الصمد , وعفان , قالا: حدثنا المثنى بن عوف ، حدثنا ابو عبد الله الجسري ، قال: سالت معقل بن يسار عن الشراب، فقال: كنا بالمدينة، وكانت كثيرة التمر، " فحرم علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم الفضيخ" , واتاه رجل فساله عن ام له عجوز كبيرة: انسقيها النبيذ، فإنها لا تاكل الطعام؟ فنهاه معقل.حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , وَعَفَّانُ , قَالَا: حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ عَوْفٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْجَسْرِيُّ ، قَالَ: سَأَلْتُ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ عَنِ الشَّرَابِ، فَقَالَ: كُنَّا بِالْمَدِينَةِ، وَكَانَتْ كَثِيرَةَ التَّمْرِ، " فَحَرَّمَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفَضِيخَ" , وَأَتَاهُ رَجُلٌ فَسَأَلَهُ عَنْ أُمٍّ لَهُ عَجُوزٍ كَبِيرَةٍ: أَنَسْقِيهَا النَّبِيذَ، فَإِنَّهَا لَا تَأْكُلُ الطَّعَامَ؟ فَنَهَاهُ مَعْقِلٌ.
ابو عبداللہ جسری کہتے ہیں میں نے حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مشروبات کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ مدینہ منوہ میں رہتے تھے جہاں کھجوریں کثرت سے ہوتی تھیں وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر فضیح نامی شراب کو حرام قرار دے دیا تھا پھر ایک آدمی نے آکر حضرت معقل بن سیار سے اپنی بوڑھی والدہ کے متعلق پوچھا کہ کیا انہیں نبیذ پلائی جاسکتی ہے کیونکہ وہ کھانے کی کوئی چیز نہیں کھاسکتی تو حضرت معقل نے اس سے منع فرمایا۔
حدثنا عارم ، حدثنا معتمر ، عن ابيه ، عن رجل ، عن ابيه ، عن معقل بن يسار , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " البقرة سنام القرآن وذروته، نزل مع كل آية منها ثمانون ملكا، واستخرجت الله لا إله إلا هو الحي القيوم سورة البقرة آية 255 من تحت العرش، فوصلت بها، او فوصلت بسورة البقرة، ويس قلب القرآن، لا يقرؤها رجل يريد الله تبارك وتعالى والدار الآخرة إلا غفر له، واقرءوها على موتاكم" .حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْبَقَرَةُ سَنَامُ الْقُرْآنِ وَذُرْوَتُهُ، نَزَلَ مَعَ كُلِّ آيَةٍ مِنْهَا ثَمَانُونَ مَلَكًا، وَاسْتُخْرِجَتْ اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ سورة البقرة آية 255 مِنْ تَحْتِ الْعَرْشِ، فَوُصِلَتْ بِهَا، أَوْ فَوُصِلَتْ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَيس قَلْبُ الْقُرْآنِ، لَا يَقْرَؤُهَا رَجُلٌ يُرِيدُ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَالدَّارَ الْآخِرَةَ إِلَّا غُفِرَ لَهُ، وَاقْرَءُوهَا عَلَى مَوْتَاكُمْ" .
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورت بقرہ قرآن کریم کا کوہان اور اس کی بلندی ہے اس کی ہر آیت کے ساتھ اسی فرشتے نازل ہوئے اور آیت الکرسی عرش کے نیچے سے نکال کر لائی گئی جسے بعد میں سورت بقرہ سے ملا دیا گیا اور سورت یسین قرآن کریم کا دل ہے جو شخص بھی اسے اللہ کو اور راہ آخرت کو حاصل کرنے کے لئے بڑھتا ہے اس کی بخشش کردی جاتی ہے اور اسے اپنے مردوں پر پڑھا کرو۔
حدثنا محمد بن عبد الله بن الزبير ، حدثنا الحكم بن عطية ، عن ابي الرباب ، قال: سمعت معقل بن يسار , يقول: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في مسير له، فنزلنا في مكان كثير الثوم، وإن اناسا من المسلمين اصابوا منه، ثم جاءوا إلى المصلى يصلون مع النبي صلى الله عليه وسلم، فنهاهم عنها، ثم جاءوا بعد ذلك إلى المصلى، فنهاهم عنها، ثم جاءوا بعد ذلك إلى المصلى، فنهاهم عنها، ثم جاءوا بعد ذلك إلى المصلى فوجد ريحها منهم، فقال: " من اكل من هذه الشجرة، فلا يقربنا في مسجدنا" ..حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عَطِيَّةَ ، عَنْ أَبِي الرَّبَابِ ، قَالَ: سَمِعْتُ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ , يَقُولُ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسِيرٍ لَهُ، فَنَزَلْنَا فِي مَكَانٍ كَثِيرِ الثُّومِ، وَإِنَّ أُنَاسًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَصَابُوا مِنْهُ، ثُمَّ جَاءُوا إِلَى الْمُصَلَّى يُصَلُّونَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَهَاهُمْ عَنْهَا، ثُمَّ جَاءُوا بَعْدَ ذَلِكَ إِلَى الْمُصَلَّى، فَنَهَاهُمْ عَنْهَا، ثُمَّ جَاءُوا بَعْدَ ذَلِكَ إِلَى الْمُصَلَّى، فَنَهَاهُمْ عَنْهَا، ثُمَّ جَاءُوا بَعْدَ ذَلِكَ إِلَى الْمُصَلَّى فَوَجَدَ رِيحَهَا مِنْهُمْ، فَقَالَ: " مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، فَلَا يَقْرَبْنَا فِي مَسْجِدِنَا" ..
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے ہم نے ایک ایسی جگہ پڑاؤ کیا جہاں لہسن کی کثرت موجود تھی کچھ مسلمانوں نے اسے کھایا پھر مسجد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لہسن کچا کھانے سے منع فرمایا دوبارہ ایسا ہوا تو دوبارہ منع کیا اور تیسری مرتبہ ایسا ہونے پر فرمایا جو شخص اس درخت سے کچھ کھائے وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف الجهالة ابي الرباب، وأخطأ محمد بن عبدالله فى تسمية الحكم بن عطية، وانما هو: الحكم بن طهمان