حدثنا يزيد ، اخبرنا بهز ، عن ابيه ، عن جده ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ويل للذي يحدث، فيكذب ليضحك به القوم، ويل له، ويل له" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا بَهْزٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ، فَيَكْذِبُ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ، وَيْلٌ لَهُ، وَيْلٌ لَهُ" .
حضرت معاویہ بہزی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اس شخص کے لئے ہلاکت ہے جو لوگوں کے سامنے انہیں ہنسانے کے لئے جھوٹی باتیں کہتا ہے، اس کے لئے ہلاکت ہے، اس کے لئے ہلاکت ہے۔
حدثنا بهز ، حدثنا عكرمة بن عمار ، حدثنا الهرماس بن زياد الباهلي ، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي مردفي خلفه على حمار، وانا صغير،" فرايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب بمنى على ناقته العضباء" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا الْهِرْمَاسُ بْنُ زِيَادٍ الْبَاهِلِيُّ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي مُرْدِفِي خَلْفَهُ عَلَى حِمَارٍ، وَأَنَا صَغِيرٌ،" فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ بِمِنًى عَلَى نَاقَتِهِ الْعَضْبَاءِ" .
حضرت ہر م اس بن زیاد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے دس ذی الحجہ کے دن میدان منٰی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عضباء نامی اونٹنی پر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا ہے، اس وقت میرے والد نے مجھے اپنے پیچھے بٹھا رکھا تھا اور میں چھوٹا بچہ تھا۔
حضرت ہر م اس بن زیاد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے دس ذی الحجہ کے دن میدان منٰی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عضباء نامی اونٹنی پر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا ہے، اس وقت میرے والد نے مجھے اپنے پیچھے بٹھا رکھا تھا اور میں چھوٹا بچہ تھا۔
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا عبد الملك ابو جعفر ، عن ابي نضرة ، عن سعد بن الاطول : ان اخاه مات وترك ثلاث مائة درهم، وترك عيالا، فاردت ان انفقها على عياله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إن اخاك محبوس بدينه، فاقض عنه" فقال: يا رسول الله، فقد اديت عنه إلا دينارين ادعتهما امراة وليس لها بينة , قال:" فاعطها، فإنها محقة" ..حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ أَبُو جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ الْأَطْوَلِ : أَنَّ أَخَاهُ مَاتَ وَتَرْكَ ثَلَاثَ مِائَةِ دِرْهَمٍ، وَتَرَكَ عِيَالًا، فَأَرَدْتُ أَنْ أُنْفِقَهَا عَلَى عِيَالِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَخَاكَ مَحْبُوسٌ بِدَيْنِهِ، فَاقْضِ عَنْهُ" فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَدْ أَدَّيْتُ عَنْهُ إِلَّا دِينَارَيْنِ ادَّعَتْهُمَا امْرَأَةٌ وَلَيْسَ لَهَا بَيِّنَةٌ , قَالَ:" فَأَعْطِهَا، فَإِنَّهَا مُحِقَّةٌ" ..
حضرت سعد بن اطول رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرا ایک بھائی فوت ہوگیا، اس نے تین سو دینار ترکے میں چھوڑے اور چھوٹے بچے چھوڑے، میں نے ان پر کچھ خرچ کرنا چاہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا بھائی مقروض ہو کر فوت ہوا ہے لہذا جا کر پہلے ان کا قرض ادا کرو، چنانچہ میں نے جا کر اس کا قرض ادا کیا اور حاضر ہو کر عرض کیا یارسول اللہ! میں نے اپنے بھائی کا سارا قرض ادا کردیا ہے اور سوائے ایک عورت کے کوئی قرض خواہ نہیں بچا، وہ دو دیناروں کی مدعی ہے لیکن اس کے پاس کوئی گواہ نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے سچا سمجھو اور اس کا قرض بھی ادا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالملك أبى جعفر
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اپنے بچوں کا نام افلح، نجیح (کامیاب) یسار (آسانی) اور رباح (نفع) مت رکھو، اس لئے کہ جب تم اس کا نام لے کر پوچھو گے کہ وہ یہاں ہے تو لوگ کہیں گے کہ نہیں ہے۔
حدثنا محمد بن جعفر , وروح , قالا: حدثنا شعبة ، عن شيخ من بني قشير , قال روح , قال: سمعت سوادة القشيري ، وكان إمامهم , قال: سمعت سمرة بن جندب يخطب , يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يغرنكم نداء بلال، وهذا البياض حتى ينفجر الفجر" او" يطلع الفجر" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , وَرَوْحٌ , قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ شَيْخٍ مِنْ بَنِيٍ قُشَيْرٍ , قَالَ رَوْحٌ , قَالَ: سَمِعْتُ سَوَادَةَ الْقُشَيْرِيَّ ، وَكَانَ إِمَامَهُمْ , قَالَ: سَمِعْتُ سَمُرَةَ بْنَ جُنْدُبٍ يَخْطُبُ , يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَغُرَّنَّكُمْ نِدَاءُ بِلَالٍ، وَهَذَا الْبَيَاضُ حَتَّى يَنْفَجِرَ الْفَجْرُ" أَوْ" يَطْلُعَ الْفَجْرُ" .
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ دوران خطبہ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمہیں بلال کی اذان اور یہ سفیدی دھوکہ نہ دے یہاں تک کہ طلوع صبح صادق ہوجائے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، م: 1094، وهذا إسناد حسن
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن الحسن ، عن سمرة بن جندب ، قال: " كانت لرسول الله صلى الله عليه وسلم سكتتان في صلاته" ,وقال عمران بن حصين: انا ما احفظهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , فكتبوا في ذلك إلى ابي بن كعب يسالونه عنه، فكتب ابي ان سمرة قد حفظ.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنِ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ ، قَالَ: " كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَكْتَتَانِ فِي صَلَاتِهِ" ,وَقَالَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ: أَنَا مَا أَحْفَظُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَكَتَبُوا فِي ذَلِكَ إِلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ يَسْأَلُونَهُ عَنْهُ، فَكَتَبَ أُبَيٌّ أَنَّ سَمُرَةَ قَدْ حَفِظَ.
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دو مرتبہ سکوت فرماتے تھے، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا کہ مجھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ یاد نہیں، ان دونوں نے اس سلسلے میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا جس میں ان سے یہ مسئلہ دریافت کیا، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ سمرہ نے بات یاد رکھی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لأن سماع الحسن من سمرة لم يثبت إلا فى حديث العقيقة، وفيما عدا ذلك فهو على الإرسال
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ " صلوۃ وسطی " سے کیا مردا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز عصر۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، ولم يصرح الحسن بسماعه من سمرة