حدثنا مؤمل ، حدثنا حماد ، اخبرنا حميد ، عن الحسن ، عن عمران بن حصين , انه قال: " تمتعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم ينهنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ذلك عنها، ولم ينزل من الله عز وجل فيها نهي" .حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ ، عَنْ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , أَنَّهُ قَالَ: " تَمَتَّعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَنْهَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ عَنْهَا، وَلَمْ يَنْزِلْ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِيهَا نَهْيٌ" .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حج تمتع کی آیت قرآن میں نازل ہوئی ہے، ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں اس پر عمل کیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال تک اس سے منع نہیں فرمایا: اور نہ ہی اس حوالے سے اس کی حرمت کا قرآن میں کوئی حکم نازل ہوا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1226، وهذا إسناد ضعيف، مؤمل سيئ الحفظ، والحسن البصري لم يسمع من عمران، لكنهما توبعا
حدثنا روح ، حدثنا شعبة ، عن الفضيل بن فضالة رجل من قيس، حدثنا ابو رجاء العطاردي ، قال: خرج علينا عمران بن حصين وعليه مطرف من خز لم نره عليه قبل ذلك ولا بعده، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من انعم الله عز وجل عليه نعمة، فإن الله عز وجل يحب ان يرى اثر نعمته على خلقه" ، وقال روح ببغداد: يحب ان يرى اثر نعمته على عبده.حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْفُضَيْلِ بْنِ فَضَالَةَ رَجُلٌ مِنْ قَيْسٍ، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيُّ ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ وَعَلَيْهِ مِطْرَفٌ مِنْ خَزٍّ لَمْ نَرَهُ عَلَيْهِ قَبْلَ ذَلِكَ وَلَا بَعْدَهُ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ نِعْمَةً، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحِبُّ أَنْ يُرَى أَثَرُ نِعْمَتِهِ عَلَى خَلْقِهِ" ، وَقَالَ رَوْحٌ بِبَغْدَادَ: يُحِبُّ أَنْ يَرَى أَثَرَ نِعْمَتِهِ عَلَى عَبْدِهِ.
ابورجاء عطاردی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ہمارے پاس تشریف لائے تو انہوں نے نقش ونگار والی ایک ریشمی چادر اپنے اوپر لی ہوئی تھی، جو ہم نے اس سے پہلے ان پر دیکھی تھی اور نہ اس کے بعد دیکھی، وہ کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے جس شخص پر اللہ تعالیٰ اپنا انعام فرماتا ہے تو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی نعمت کا اثر اس کی مخلوق پر نظر بھی آئے۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سورة الفجر کے لفظ والشفع والوتر کا معنی پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے مراد نماز ہے کہ بعض نمازیں جفت ہیں اور بعض طاق۔
حدثنا صفوان بن عيسى ، اخبرنا عزرة بن ثابت ، عن يحيى بن عقيل ، عن ابن يعمر ، عن ابي الاسود الديلي ، قال: غدوت على عمران بن حصين يوما من الايام، فقال: يا ابا الاسود، فذكر الحديث: ان رجلا من جهينة او من مزينة اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، ارايت ما يعمل الناس اليوم ويكدحون فيه، شيء قضي عليهم او مضى عليهم في قدر قد سبق، او فيما يستقبلون مما اتاهم به نبيهم واتخذت عليهم به الحجة؟ قال: " بل شيء قضي عليهم، ومضى عليهم" قال: فلم يعملون إذا يا رسول الله؟ قال:" من كان الله عز وجل خلقه لواحدة من المنزلتين يهيئه لعملها، وتصديق ذلك في كتاب الله: ونفس وما سواها فالهمها فجورها وتقواها سورة الشمس آية 7 - 8" .حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى ، أَخْبَرَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ ، عَنِ ابْنِ يَعْمَرَ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيْلِيِّ ، قَالَ: غَدَوْتُ عَلَى عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ يَوْمًا مِنَ الْأَيَّامِ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْأَسْوَدِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ: أَنَّ رَجُلًا مِنْ جُهَيْنَةَ أَوْ مِنْ مُزَيْنَةَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ الْيَوْمَ وَيَكْدَحُونَ فِيهِ، شَيْءٌ قُضِيَ عَلَيْهِمْ أَوْ مَضَى عَلَيْهِمْ فِي قَدَرٍ قَدْ سَبَقَ، أَوْ فِيمَا يُسْتَقْبَلُونَ مِمَّا أَتَاهُمْ بِهِ نَبِيُّهُمْ وَاتُّخِذَتْ عَلَيْهِمْ بِهِ الْحُجَّةُ؟ قَالَ: " بَلْ شَيْءٌ قُضِيَ عَلَيْهِمْ، وَمَضَى عَلَيْهِمْ" قَالَ: فَلِمَ يَعْمَلُونَ إِذًا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" مَنْ كَانَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَهُ لِوَاحِدَةٍ مِنَ الْمَنْزِلَتَيْنِ يُهَيِّئُهُ لِعَمَلِهَا، وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ: وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا سورة الشمس آية 7 - 8" .
ابوالاسود دیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے فرمایا اے ابوالاسود! قبیلہ جہینہ کا ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ لوگ آج جو عمل کرتے ہیں اور اس میں محنت ومشقت سے کام لیتے ہیں، اس کا ان کے لئے فیصلہ ہوچکا ہے اور پہلے سے تقدیر جاری ہوچکی ہے یا آئندہ فیصلہ ہوگا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات کے مطابق ہوگا اور اس کے ذریعے ان پر حجت قائم کی جائے گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ پہلے سے فیصلہ ہوچکا اور تقدیر جاری ہوچکی، اس نے پوچھا یا رسول اللہ! پھر لوگ عمل کیوں کرتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو دو میں سے کسی ایک مرتبے کے لئے پیدا کیا ہے، اس کیلئے وہی عمل آسان کردیتا ہے اور اس کی تصدیق قرآن کریم میں اس ارشاد سے بھی ہوئی ہے ونفس وماسواھا فالہمہا فجورہا وتقواہا
حدثنا عارم ، حدثنا معتمر بن سليمان ، عن ابيه ، قال: وحدثني السميط الشيباني ، عن ابي العلاء ، قال: حدثني رجل من الحي , ان عمران بن حصين حدثه , ان عبيسا او ابن عبيس في اناس من بني جشم اتوه، فقال له احدهم: الا تقاتل حتى لا تكون فتنة؟ قال: لعلي قد قاتلت حتى لم تكن فتنة، قال: الا احدثكم ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا اراه ينفعكم، فانصتوا , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اغزوا بني فلان مع فلان" قال: فصفت الرجال وكانت النساء من وراء الرجال، ثم لما رجعوا، قال رجل: يا نبي الله، استغفر لي غفر الله لك , قال:" هل احدثت؟" قال: لما هزم القوم، وجدت رجلا بين القوم والنساء , فقال: إني مسلم او قال: اسلمت فقتلته، قال تعوذا بذلك حين غشيه الرمح , قال:" هل شققت عن قلبه تنظر إليه؟" فقال: لا والله ما فعلت , فلم يستغفر له، او كما قال , وقال في حديثه: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اغزوا بني فلان مع فلان" فانطلق رجل من لحمتي معهم، فلما رجع إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم , قال: يا نبي الله استغفر الله لي غفر الله لك , قال:" وهل احدثت؟" قال: لما هزم القوم ادركت رجلين بين القوم والنساء، فقالا: إنا مسلمان او قالا: اسلمنا فقتلتهما , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عما اقاتل الناس إلا على الإسلام، والله لا استغفر لك" او كما قال، فمات بعد فدفنته عشيرته، فاصبح قد نبذته الارض، ثم دفنوه وحرسوه ثانية، فنبذته الارض، ثم قالوا: لعل احدا جاء وانتم نيام فاخرجه، فدفنوه ثالثة , ثم حرسوه، فنبذته الارض ثالثة، فلما راوا ذلك القوه , او كما قال .حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي السُّمَيْطُ الشَّيْبَانِيُّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنَ الْحَيِّ , أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ حَدَّثَهُ , أَنَّ عُبَيْسًا أَوْ ابْنَ عُبَيْسٍ فِي أُنَاسٍ مِنْ بَنِي جُشَمٍ أَتَوْهُ، فَقَالَ لَهُ أَحَدُهُمْ: أَلَا تُقَاتِلُ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ؟ قَالَ: لَعَلِّي قَدْ قَاتَلْتُ حَتَّى لَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ، قَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا أُرَاهُ يَنْفَعُكُمْ، فَأَنْصِتُوا , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اغْزُوا بَنِي فُلَانٍ مَعَ فُلَانٍ" قَالَ: فَصُفَّتْ الرِّجَالُ وَكَانَتْ النِّسَاءُ مِنْ وَرَاءِ الرِّجَالِ، ثُمَّ لَمَّا رَجَعُوا، قَالَ رَجُلٌ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، اسْتَغْفِرْ لِي غَفَرَ اللَّهُ لَكَ , قَالَ:" هَلْ أَحْدَثْتَ؟" قَالَ: لَمَّا هُزِمَ الْقَوْمُ، وَجَدْتُ رَجُلًا بَيْنَ الْقَوْمِ وَالنِّسَاءِ , فَقَالَ: إِنِّي مُسْلِمٌ أَوْ قَالَ: أَسْلَمْتُ فَقَتَلْتُهُ، قَالَ تَعَوُّذًا بِذَلِكَ حِينَ غَشِيَهُ الرُّمْحُ , قَالَ:" هَلْ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ تَنْظُرُ إِلَيْهِ؟" فَقَالَ: لَا وَاللَّهِ مَا فَعَلْتُ , فَلَمْ يَسْتَغْفِرْ لَهُ، أَوْ كَمَا قَالَ , وَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اغْزُوا بَنِي فُلَانٍ مَعَ فُلَانٍ" فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْ لُحْمَتِي مَعَهُمْ، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ اسْتَغْفِرْ اللَّهَ لِي غَفَرَ اللَّهُ لَكَ , قَالَ:" وَهَلْ أَحْدَثْتَ؟" قَالَ: لَمَّا هُزِمَ الْقَوْمُ أَدْرَكْتُ رَجُلَيْنِ بَيْنَ الْقَوْمِ وَالنِّسَاءِ، فَقَالَا: إِنَّا مُسْلِمَانِ أَوْ قَالَا: أَسْلَمْنَا فَقَتَلْتُهُمَا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَمَّا أُقَاتِلُ النَّاسَ إِلَّا عَلَى الْإِسْلَامِ، وَاللَّهِ لَا أَسْتَغْفِرُ لَكَ" أَوْ كَمَا قَالَ، فَمَاتَ بَعْدُ فَدَفَنَتْهُ عَشِيرَتُهُ، فَأَصْبَحَ قَدْ نَبَذَتْهُ الْأَرْضُ، ثُمَّ دَفَنُوهُ وَحَرَسُوهُ ثَانِيَةً، فَنَبَذَتْهُ الْأَرْضُ، ثُمَّ قَالُوا: لَعَلَّ أَحَدًا جَاءَ وَأَنْتُمْ نِيَامٌ فَأَخْرَجَهُ، فَدَفَنُوهُ ثَالِثَةً , ثُمَّ حَرَسُوهُ، فَنَبَذَتْهُ الْأَرْضُ ثَالِثَةً، فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِكَ أَلْقَوْهُ , أَوْ كَمَا قَالَ .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے پاس بنو جشم کے کچھ لوگوں کے ساتھ عبیس یا ابن عبیس آیا، ان میں سے ایک نے ان سے کہا کہ آپ اس وقت تک قتال میں کیوں شریک نہیں ہوتے جب تک فتنہ ختم نہ ہوجائے؟ انہوں نے فرمایا شاید میں اس وقت تک قتال کرچکا ہوں کہ فتنہ باقی نہ رہا، پھر فرمایا کیا میں تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان نہ کروں؟ میرا خیال نہیں ہے کہ وہ تمہیں نفع دے سکے گی، لہذا تم لوگ خاموش رہو۔ پھر حضرت عمران رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا فلاں آدمی کے ساتھ فلاں قبیلے کے لوگوں سے جہاد کرو، میدان جہاد میں مردوں نے صف بندی کرلی اور عورتیں ان کے پیچھے کھڑی ہوئیں، جہاد سے واپسی کے بعد ایک آدمی آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے نبی! میرے لئے بخشش کی دعاء کیجئے، اللہ آپ کو معاف فرمائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم سے کوئی گناہ ہوا ہے؟ اس نے کہا کہ جب دشمن کو شکست ہوئی تو میں نے مردوں اور عورتوں کے درمیان ایک آدمی کو دیکھا، وہ کہنے لگا کہ میں مسلمان ہوں، یہ بات اس نے میرے نیزے کو دیکھ کر اپنی جان بچانے کے لئے کہی تھی اس لئے میں نے اسے قتل کردیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے استغفار نہیں کیا۔ ایک حدیث میں دو مردوں کو قتل کرنے کا ذکر ہے اور یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اسلام کے علاوہ اور کس چیز پر لوگوں سے قتال کر رہا ہوں، بخدا! میں تمہارے لئے بخشش کی دعاء نہیں کرونگا، کچھ عرصہ بعد وہ شخص مرگیا، اس کے خاندان والوں نے اسے دفن کردیا لین صبح ہوئی تو زمین نے اسے باہر پھینک دیا تھا، انہوں نے اسے دوبارہ دفن کیا اور چوکیدار مقرر کردیا کہ شاید سوتے میں کوئی آ کر اسے قبر سے نکال گیا ہو، لیکن اس مرتبہ پھر زمین نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا، تین مرتبہ اسی طرح ہوا، بالآخر انہوں نے اس کی لاش کو یوں ہی چھوڑ دیا۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے مرتے وقت اپنے چھ کے چھ غلام آزاد کردئیے، جن کے علاوہ اس کے پاس کوئی مال بھی نہ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غلاموں کو بلایا اور انہیں تین حصوں میں تقسیم کرکے ان کے درمیان قرعہ اندازی کی، پھر جن دو کا نام نکل آیا انہیں آزاد کردیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، الحسن البصري لم يسمع من عمران لكنه توبع
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اپنے خطاب میں صدقہ کی ترغیب دیتے اور مثلہ کرنے سے منع فرماتے تھے، یاد رکھو! مثلہ کرنے میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ انسان کسی کی ناک کاٹنے کی منت مانے۔
حكم دارالسلام: صحيح دون قوله: ألا وإن من المثلة ... وهذا إسناد ضعيف ، الحسن لم يسمع من عمران ، و صالح و كثير فيهما كلام ، وقد تفرد يقول: ألا وإن من المثلة ...
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حج تمتع کی آیت قرآن میں نازل ہوئی ہے، ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں اس پر عمل کیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال تک اس سے منع نہیں فرمایا: اور نہ ہی اس حوالے سے اس کی حرمت کا قرآن میں کوئی حکم نازل ہوا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1226، وهذا إسناد منقطع، الحسن البصري لم يسمع من عمران لكنه توبع
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا ابي ، حدثنا يونس ، عن ابن سيرين ، عن عمران بن حصين , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إن اخاكم النجاشي قد مات، فقوموا فصلوا عليه" , قال: فصففنا فصلينا عليه كما تصلون على الميت .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ أَخَاكُمْ النَّجَاشِيَّ قَدْ مَاتَ، فَقُومُوا فَصَلُّوا عَلَيْهِ" , قَالَ: فَصَفَفْنَا فَصَلَّيْنَا عَلَيْهِ كَمَا تُصَلُّونَ عَلَى الْمَيِّتِ .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج تمہارا بھائی نجاشی فوت ہوگیا ہے لہذا اس کی نماز جنازہ پڑھو، چناچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہم نے پیچھے صفیں بنالیں، پھر اس کی نماز جنازہ پڑھی جیسے عام طور پر کرتے ہیں۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج تمہارا بھائی نجاشی فوت ہوگیا ہے لہذا اس کی نماز جنازہ پڑھو، چناچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہم نے پیچھے صفیں بنالیں، پھر اس کی نماز جنازہ پڑھی جیسے عام طور پر کرتے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح م: 953 ، بشر بن المفضل خولف ، والمحفوظ بدون واسطة أبى المهلب