حدثنا عارم ، حدثنا معتمر بن سليمان ، عن ابيه ، قال: وحدثني السميط الشيباني ، عن ابي العلاء ، قال: حدثني رجل من الحي , ان عمران بن حصين حدثه , ان عبيسا او ابن عبيس في اناس من بني جشم اتوه، فقال له احدهم: الا تقاتل حتى لا تكون فتنة؟ قال: لعلي قد قاتلت حتى لم تكن فتنة، قال: الا احدثكم ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا اراه ينفعكم، فانصتوا , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اغزوا بني فلان مع فلان" قال: فصفت الرجال وكانت النساء من وراء الرجال، ثم لما رجعوا، قال رجل: يا نبي الله، استغفر لي غفر الله لك , قال:" هل احدثت؟" قال: لما هزم القوم، وجدت رجلا بين القوم والنساء , فقال: إني مسلم او قال: اسلمت فقتلته، قال تعوذا بذلك حين غشيه الرمح , قال:" هل شققت عن قلبه تنظر إليه؟" فقال: لا والله ما فعلت , فلم يستغفر له، او كما قال , وقال في حديثه: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اغزوا بني فلان مع فلان" فانطلق رجل من لحمتي معهم، فلما رجع إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم , قال: يا نبي الله استغفر الله لي غفر الله لك , قال:" وهل احدثت؟" قال: لما هزم القوم ادركت رجلين بين القوم والنساء، فقالا: إنا مسلمان او قالا: اسلمنا فقتلتهما , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " عما اقاتل الناس إلا على الإسلام، والله لا استغفر لك" او كما قال، فمات بعد فدفنته عشيرته، فاصبح قد نبذته الارض، ثم دفنوه وحرسوه ثانية، فنبذته الارض، ثم قالوا: لعل احدا جاء وانتم نيام فاخرجه، فدفنوه ثالثة , ثم حرسوه، فنبذته الارض ثالثة، فلما راوا ذلك القوه , او كما قال .حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي السُّمَيْطُ الشَّيْبَانِيُّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنَ الْحَيِّ , أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ حَدَّثَهُ , أَنَّ عُبَيْسًا أَوْ ابْنَ عُبَيْسٍ فِي أُنَاسٍ مِنْ بَنِي جُشَمٍ أَتَوْهُ، فَقَالَ لَهُ أَحَدُهُمْ: أَلَا تُقَاتِلُ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ؟ قَالَ: لَعَلِّي قَدْ قَاتَلْتُ حَتَّى لَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ، قَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا أُرَاهُ يَنْفَعُكُمْ، فَأَنْصِتُوا , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اغْزُوا بَنِي فُلَانٍ مَعَ فُلَانٍ" قَالَ: فَصُفَّتْ الرِّجَالُ وَكَانَتْ النِّسَاءُ مِنْ وَرَاءِ الرِّجَالِ، ثُمَّ لَمَّا رَجَعُوا، قَالَ رَجُلٌ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، اسْتَغْفِرْ لِي غَفَرَ اللَّهُ لَكَ , قَالَ:" هَلْ أَحْدَثْتَ؟" قَالَ: لَمَّا هُزِمَ الْقَوْمُ، وَجَدْتُ رَجُلًا بَيْنَ الْقَوْمِ وَالنِّسَاءِ , فَقَالَ: إِنِّي مُسْلِمٌ أَوْ قَالَ: أَسْلَمْتُ فَقَتَلْتُهُ، قَالَ تَعَوُّذًا بِذَلِكَ حِينَ غَشِيَهُ الرُّمْحُ , قَالَ:" هَلْ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ تَنْظُرُ إِلَيْهِ؟" فَقَالَ: لَا وَاللَّهِ مَا فَعَلْتُ , فَلَمْ يَسْتَغْفِرْ لَهُ، أَوْ كَمَا قَالَ , وَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اغْزُوا بَنِي فُلَانٍ مَعَ فُلَانٍ" فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْ لُحْمَتِي مَعَهُمْ، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ اسْتَغْفِرْ اللَّهَ لِي غَفَرَ اللَّهُ لَكَ , قَالَ:" وَهَلْ أَحْدَثْتَ؟" قَالَ: لَمَّا هُزِمَ الْقَوْمُ أَدْرَكْتُ رَجُلَيْنِ بَيْنَ الْقَوْمِ وَالنِّسَاءِ، فَقَالَا: إِنَّا مُسْلِمَانِ أَوْ قَالَا: أَسْلَمْنَا فَقَتَلْتُهُمَا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَمَّا أُقَاتِلُ النَّاسَ إِلَّا عَلَى الْإِسْلَامِ، وَاللَّهِ لَا أَسْتَغْفِرُ لَكَ" أَوْ كَمَا قَالَ، فَمَاتَ بَعْدُ فَدَفَنَتْهُ عَشِيرَتُهُ، فَأَصْبَحَ قَدْ نَبَذَتْهُ الْأَرْضُ، ثُمَّ دَفَنُوهُ وَحَرَسُوهُ ثَانِيَةً، فَنَبَذَتْهُ الْأَرْضُ، ثُمَّ قَالُوا: لَعَلَّ أَحَدًا جَاءَ وَأَنْتُمْ نِيَامٌ فَأَخْرَجَهُ، فَدَفَنُوهُ ثَالِثَةً , ثُمَّ حَرَسُوهُ، فَنَبَذَتْهُ الْأَرْضُ ثَالِثَةً، فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِكَ أَلْقَوْهُ , أَوْ كَمَا قَالَ .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے پاس بنو جشم کے کچھ لوگوں کے ساتھ عبیس یا ابن عبیس آیا، ان میں سے ایک نے ان سے کہا کہ آپ اس وقت تک قتال میں کیوں شریک نہیں ہوتے جب تک فتنہ ختم نہ ہوجائے؟ انہوں نے فرمایا شاید میں اس وقت تک قتال کرچکا ہوں کہ فتنہ باقی نہ رہا، پھر فرمایا کیا میں تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بیان نہ کروں؟ میرا خیال نہیں ہے کہ وہ تمہیں نفع دے سکے گی، لہذا تم لوگ خاموش رہو۔ پھر حضرت عمران رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا فلاں آدمی کے ساتھ فلاں قبیلے کے لوگوں سے جہاد کرو، میدان جہاد میں مردوں نے صف بندی کرلی اور عورتیں ان کے پیچھے کھڑی ہوئیں، جہاد سے واپسی کے بعد ایک آدمی آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے نبی! میرے لئے بخشش کی دعاء کیجئے، اللہ آپ کو معاف فرمائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم سے کوئی گناہ ہوا ہے؟ اس نے کہا کہ جب دشمن کو شکست ہوئی تو میں نے مردوں اور عورتوں کے درمیان ایک آدمی کو دیکھا، وہ کہنے لگا کہ میں مسلمان ہوں، یہ بات اس نے میرے نیزے کو دیکھ کر اپنی جان بچانے کے لئے کہی تھی اس لئے میں نے اسے قتل کردیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے استغفار نہیں کیا۔ ایک حدیث میں دو مردوں کو قتل کرنے کا ذکر ہے اور یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اسلام کے علاوہ اور کس چیز پر لوگوں سے قتال کر رہا ہوں، بخدا! میں تمہارے لئے بخشش کی دعاء نہیں کرونگا، کچھ عرصہ بعد وہ شخص مرگیا، اس کے خاندان والوں نے اسے دفن کردیا لین صبح ہوئی تو زمین نے اسے باہر پھینک دیا تھا، انہوں نے اسے دوبارہ دفن کیا اور چوکیدار مقرر کردیا کہ شاید سوتے میں کوئی آ کر اسے قبر سے نکال گیا ہو، لیکن اس مرتبہ پھر زمین نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا، تین مرتبہ اسی طرح ہوا، بالآخر انہوں نے اس کی لاش کو یوں ہی چھوڑ دیا۔