مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 21072
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن حارثة بن مضرب ، قال: دخلت على خباب ، وقد اكتوى سبعا، فقال: لولا اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " لا يتمنى احدكم الموت"، لتمنيته، ولقد رايتني مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ما املك درهما، وإن في جانب بيتي الآن لاربعين الف درهم، قال: ثم اتي بكفنه، فلما رآه بكى، قال: لكن حمزة لم يوجد له كفن إلا بردة ملحاء، إذا جعلت على راسه قلصت عن قدميه، وإذا جعلت على قدميه قلصت عن راسه، حتى مدت على راسه، وجعل على قدميه الإذخر" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى خَبَّابٍ ، وَقَدْ اكْتَوَى سَبْعًا، فَقَالَ: لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا يَتَمَنَّى أَحَدُكُمْ الْمَوْتَ"، لَتَمَنَّيْتُهُ، وَلَقَدْ رَأَيْتُنِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَمْلِكُ دِرْهَمًا، وَإِنَّ فِي جَانِبِ بَيْتِي الْآنَ لَأَرْبَعِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، قَالَ: ثُمَّ أُتِيَ بِكَفَنِهِ، فَلَمَّا رَآهُ بَكَى، قَالَ: لَكِنَّ حَمْزَةَ لَمْ يُوجَدْ لَهُ كَفَنٌ إِلَّا بُرْدَةٌ مَلْحَاءُ، إِذَا جُعِلَتْ عَلَى رَأْسِهِ قَلَصَتْ عَنْ قَدَمَيْهِ، وَإِذَا جُعِلَتْ عَلَى قَدَمَيْهِ قَلَصَتْ عَنْ رَأْسِهِ، حَتَّى مُدَّتْ عَلَى رَأْسِهِ، وَجُعِلَ عَلَى قَدَمَيْهِ الْإِذْخِرُ" .
حارثہ کہتے ہیں کہ میں حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لئے حاضر ہوا انہوں نے اپنے جسم کو داغا ہوا تھا مجھے دیکھ کر انہوں نے فرمایا کہ جتنی تکلیف مجھے ہے میں نہیں سمجھتا کہ کسی کو اتنی تکلیف ہوئی ہوگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں مجھے ایک درہم نہ ملتا تھا اور اب میرے اسی گھر کے ایک کونے میں چالیس ہزار درہم دفن ہیں۔ اگر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا تو تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنانہ کرے تو میں ضرور اس کی تمنا کرلیتا۔ پھر ان کے پاس ایک کفن لایا گیا جسے دیکھ کر وہ رونے لگے اور فرمایا کہ حضرت حمزہ کو تو یہ کفن بھی نہ ملا تھا ایک سادہ چادر تھی جو اگر ان کے سر پر ڈالی جاتی تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں پر ڈالی جاتی تو سر کھل جاتا چنانچہ اس سے سر کو ڈھانپ دیا گیا اور پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دی گئی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 21073
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن إسماعيل ، حدثنا قيس ، عن خباب ، قال: شكونا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو يومئذ متوسد بردة في ظل الكعبة، فقلنا: الا تستنصر لنا الله، اولا تستنصر لنا؟ فقال:" قد كان الرجل فيمن كان قبلكم يؤخذ، فيحفر له في الارض، فيجاء بالمنشار على راسه، فيجعل بنصفين، فما يصده ذلك عن دينه، ويمشط بامشاط الحديد ما دون عظمه من لحم، وعصب فما يصده ذلك، والله ليتمن الله هذا الامر حتى يسير الراكب من المدينة إلى حضرموت، لا يخاف إلا الله، والذئب على غنمه، ولكنكم تستعجلون" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ ، عَنْ خَبَّابٍ ، قَالَ: شَكَوْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، فَقُلْنَا: أَلَا تَسْتَنْصِرُ لَنَا اللَّهَ، أَوَلَا تَسْتَنْصِرُ لَنَا؟ فَقَالَ:" قَدْ كَانَ الرَّجُلُ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ يُؤْخَذُ، فَيُحْفَرُ لَهُ فِي الْأَرْضِ، فَيُجَاءُ بِالْمِنْشَارِ عَلَى رَأْسِهِ، فَيُجْعَلُ بِنِصْفَيْنِ، فَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، وَيُمَشَّطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيدِ مَا دُونَ عَظْمِهِ مِنْ لَحْمٍ، وَعَصَبٍ فَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ، وَاللَّهِ لَيُتِمَّنَّ اللَّهُ هَذَا الْأَمْرَ حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى حَضْرَمَوْتَ، لَا يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ، وَالذِّئْبَ عَلَى غَنَمِهِ، وَلَكِنَّكُمْ تَسْتَعْجِلُونَ" .
حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خانہ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر سے ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ اللہ سے ہمارے لئے دعا کیجیے اور مدد مانگیے یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ سرخ ہوگیا اور فرمایا کہ تم سے پہلے لوگوں کے لئے دین قبول کرنے کی پاداش میں گڑھے کھودے جاتے تھے اور آرے لے کر سر پر رکھے جاتے اور ان سے سر کو چیر دیا جاتا تھا لیکن یہ چیز بھی انہیں ان کے دین سے برگشہ نہیں کرتی تھی اس طرح لوہے کی کنگھیاں لے کر جسم کی ہڈیوں کے پیچھے گوشت پٹھوں میں گاڑھی جاتی تھیں لیکن یہ تکلیف بھی انہیں ان کے دین سے برگشتہ نہیں کرتی تھی اور اللہ اس دین کو پورا کر کے رہے گا یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء اور حضرموت کے درمیان سفر کرے گا جس میں اسے صرف خوف اللہ ہوگا یا بکری پر بھیڑیے کے حملے کا لیکن تم لوگ جلدباز ہو۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3612
حدیث نمبر: 21074
Save to word اعراب
حدثنا روح ، حدثنا ابو يونس القشيري ، عن سماك بن حرب ، عن عبد الله بن خباب بن الارت ، حدثني ابي خباب بن الارت ، قال: إنا لقعود على باب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ننتظر ان يخرج لصلاة الظهر، إذ خرج علينا، فقال" اسمعوا"، فقلنا سمعنا، ثم قال" اسمعوا"، فقلنا: سمعنا، فقال:" إنه سيكون عليكم امراء، فلا تعينوهم على ظلمهم، فمن صدقهم بكذبهم فلن يرد علي الحوض" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو يُونُسَ الْقُشَيْرِيُّ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ ، حَدَّثَنِي أَبِي خَبَّابُ بْنُ الْأَرَتِّ ، قَالَ: إِنَّا لَقُعُودٌ عَلَى بَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَنْتَظِرُ أَنْ يَخْرُجَ لِصَلَاةِ الظُّهْرِ، إِذْ خَرَجَ عَلَيْنَا، فَقَالَ" اسْمَعُوا"، فَقُلْنَا سَمِعْنَا، ثُمَّ قَالَ" اسْمَعُوا"، فَقُلْنَا: سَمِعْنَا، فَقَالَ:" إِنَّهُ سَيَكُونُ عَلَيْكُمْ أُمَرَاءُ، فَلَا تُعِينُوهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، فَمَنْ صَدَّقَهُمْ بِكَذِبِهِمْ فَلَنْ يَرِدَ عَلَيَّ الْحَوْضَ" .
حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر بیٹھے ظہر کی نماز کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے باہر آنے کا انتظار کررہے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو فرمایا میری بات سنو صحابہ نے لبیک کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری بات سنو صحابہ نے پھر حسب سابق جواب دیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عنقریب تم پر کچھ حکمران آئیں گے تم ظلم پر ان کی مدد نہ کرنا اور جو شخص ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا وہ میرے پاس حوض کوثر پر ہرگز نہیں آسکے گا۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، سماك لم يسمع من عبدالله بن خباب
حدیث نمبر: 21075
Save to word اعراب
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن مسلم ، عن مسروق ، عن خباب بن الارت ، قال: كنت رجلا قينا، وكان لي على العاص بن وائل دين، فاتيته اتقاضاه، فقال: لا والله، لا اقضيك حتى تكفر بمحمد، فقلت: والله لا اكفر بمحمد صلى الله عليه وسلم حتى تموت، ثم تبعث، قال: فإني إذا مت، ثم بعثت جئتني ولي ثم مال وولد فاعطيتك، فانزل الله تبارك وتعالى: افرايت الذي كفر بآياتنا وقال لاوتين مالا وولدا سورة مريم آية 77 إلى قوله عز وجل وياتينا فردا سورة مريم آية 80 .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ ، قَالَ: كُنْتُ رَجُلًا قَيْنًا، وَكَانَ لِي عَلَى الْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ دَيْنٌ، فَأَتَيْتُهُ أَتَقَاضَاهُ، فَقَالَ: لَا وَاللَّهِ، لَا أَقْضِيكَ حَتَّى تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَا أَكْفُرُ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَمُوتَ، ثُمَّ تُبْعَثَ، قَالَ: فَإِنِّي إِذَا مُتُّ، ثُمَّ بُعِثْتُ جِئْتَنِي وَلِي ثَمَّ مَالٌ وَوَلَدٌ فَأَعْطَيْتُكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لأُوتَيَنَّ مَالا وَوَلَدًا سورة مريم آية 77 إِلَى قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ وَيَأْتِينَا فَرْدًا سورة مريم آية 80 .
حضرت خباب رضی اللہ عنہ بن ارت سے مروی ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں لوہے کا کام کرتا تھا اور میں عاص بن وائل کے لئے کام کرتا تھا ایک مرتبہ اس کے ذمے میرے کچھ درہم اکٹھے ہوگئے میں اس سے ان کا تقاضا کرنے کے لے آیا تو کہنے لگا کہ میں تمہارا قرض اس وقت تک ادا نہیں کروں جب تک تم محمد کا انکار نہ کردو گے میں نے کہا کہ میں تو محمد کا انکار اس وقت نہیں کروں گا اگر تم مر کر دوبارہ زندہ ہوجاؤ اس نے کہا جب میں دوبارہ زندہ ہوں گا تو میرے پاس مال واولاد ہوگی (اس وقت تمہارا قرض چکا دوں گا) میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعہ کا تذکرہ کیا تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی " کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو ہماری آیات کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے وہاں بھی مال والاد سے نوازا جائے گا "۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2091، م: 2795
حدیث نمبر: 21076
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله بن نمير ، اخبرنا الاعمش ، عن مسلم ، عن مسروق ، عن خباب ، قال: كنت رجلا قينا، وكان لي على العاص بن وائل حق، فاتيته اتقاضاه، فقال: لا اعطيك حتى تكفر بمحمد، فقلت: لا والله، لا اكفر بمحمد صلى الله عليه وسلم، حتى تموت ثم تبعث، قال: فضحك، ثم قال: سيكون لي ثم مال وولد فاعطيك حقك، فانزل الله تعالى: افرايت الذي كفر بآياتنا وقال لاوتين مالا وولدا اطلع الغيب ام اتخذ عند الرحمن عهدا سورة مريم آية 77 - 78 .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، أَخْبَرَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ خَبَّابٍ ، قَالَ: كُنْتُ رَجُلًا قَيْنًا، وَكَانَ لِي عَلَى الْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ حَقٌّ، فَأَتَيْتُهُ أَتَقَاضَاهُ، فَقَالَ: لَا أُعْطِيكَ حَتَّى تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ، فَقُلْتُ: لَا وَاللَّهِ، لَا أَكْفُرُ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى تَمُوتَ ثُمَّ تُبْعَثَ، قَالَ: فَضَحِكَ، ثُمّ قَالَ: سَيَكُونُ لِي ثَمَّ مَالٌ وَوَلَدٌ فَأُعْطِيكَ حَقَّكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لأُوتَيَنَّ مَالا وَوَلَدًا أَطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا سورة مريم آية 77 - 78 .
حضرت خباب رضی اللہ عنہ بن ارت سے مروی ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں لوہے کا کام کرتا تھا اور میں عاص بن وائل کے لئے کام کرتا تھا ایک مرتبہ اس کے ذمے میرے کچھ درہم اکٹھے ہوگئے میں اس سے ان کا تقاضا کرنے کے لے آیا تو کہنے لگا کہ میں تمہارا قرض اس وقت تک ادا نہیں کروں جب تک تم محمد کا انکار نہ کردوگے میں نے کہا کہ میں تو محمد کا انکار اس وقت نہیں کروں گا اگر تم مر کر دوبارہ زندہ ہوجاؤ اس نے کہا جب میں دوبارہ زندہ ہوں گا تو میرے پاس مال واولاد ہوگی (اس وقت تمہارا قرض چکادوں گا) میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعہ کا تذکرہ کیا تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی " کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو ہماری آیات کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے وہاں بھی مال واولاد سے نوازا جائے گا "۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2091، م: 2795
حدیث نمبر: 21077
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله بن إدريس ، قال: وسمعت الاعمش يروي، عن شقيق ، عن خباب ، قال: هاجرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمنا من مات ولم ياكل من اجره شيئا، منهم مصعب بن عمير، لم يترك إلا نمرة إذا غطوا بها راسه بدت رجلاه، وإذا غطينا رجليه بدا راسه، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم:" غطوا راسه"، وجعلنا على رجليه إذخرا، قال: ومنا من اينع الثمار، فهو يهدبها .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، قَالَ: وَسَمِعْتُ الْأَعْمَشَ يَرْوِي، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ خَبَّابٍ ، قَالَ: هَاجَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمِنَّا مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنْ أَجْرِهِ شَيْئًا، مِنْهُمْ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ، لَمْ يَتْرُكْ إِلَّا نَمِرَةً إِذَا غَطُّوا بِهَا رَأْسَهُ بَدَتْ رِجْلَاهُ، وَإِذَا غَطَّيْنَا رِجْلَيْهِ بَدَا رَأْسُهُ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" غَطُّوا رَأْسَهُ"، وَجَعَلْنَا عَلَى رِجْلَيْهِ إِذْخِرًا، قَالَ: وَمِنَّا مَنْ أَيْنَعَ الثِّمَارَ، فَهُوَ يَهْدِبُهَا .
حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ صرف اللہ کی رضا کے لئے ہجرت کی تھی لہذا ہمارا اجر اللہ کے ذمہ ہوگا اب ہم میں سے کچھ لوگ دنیا سے چلے گئے اور اپنے اجروثواب میں سے کچھ نہ کھا سکے۔ ان ہی افراد میں حضرت مصعب بن عمیر بھی شامل ہیں جو غزوہ احد کے موقع پر شہید ہوگئے تھے اور ہمیں کوئی چیز انہیں کفنانے کے لئے نہیں مل رہی تھی صرف ایک چادر تھی جس سے ہم اس کا سر ڈھانپتے تو پاؤں کھلے رہتے اور اگر پاؤں ڈھانپتے تو سر کھلا رہ جاتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس کا سر ڈھانپ دیں اور پاؤں پر اذخر نامی گھاس ڈال دیں اور ہم میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جن کا پھل تیار ہوگیا اور وہ اسے چن رہے ہیں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3914، م: 940
حدیث نمبر: 21078
Save to word اعراب
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن عمارة بن عمير ، عن ابي معمر ، قال: قلنا لخباب :" هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرا في الظهر والعصر؟ قال: نعم، قال: قلنا: فباي شيء كنتم تعرفون ذلك؟ قال: فقال: باضطراب لحيته" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، قَالَ: قُلْنَا لِخَبَّابٍ :" هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْنَا: فَبِأَيِّ شَيْءٍ كُنْتُمْ تَعْرِفُونَ ذَلِكَ؟ قَالَ: فَقَالَ: بِاضْطِرَابِ لِحْيَتِهِ" .
ابومعمر کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر میں قرأت کیا کرتے تھے انہوں نے فرمایا ہاں۔ ہم نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا چلا؟ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک ہلنے کی وجہ سے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 746
حدیث نمبر: 21079
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن إسماعيل ، حدثنا قيس ، قال: اتيت خبابا اعوده، وقد اكتوى سبعا في بطنه، وسمعته يقول: لولا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهانا ان ندعو بالموت"، لدعوت به .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ ، قَالَ: أَتَيْتُ خَبَّابًا أَعُودُهُ، وَقَدْ اكْتَوَى سَبْعًا فِي بَطْنِهِ، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: لَوْلَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَانَا أَنْ نَدْعُوَ بِالْمَوْتِ"، لَدَعَوْتُ بِهِ .
قیس کہتے ہیں حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے میں حاضر ہوا وہ اپنے باغ کی تعمیر میں مصروف تھے انہوں نے سات مرتبہ اپنے پیٹ پر داغنے کا علاج کیا تھا اور کہہ رہے تھے اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں موت کی دعا مانگنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں اس کی ضرور دعا کرتا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6349، م: 2681
حدیث نمبر: 21080
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله، حدثني عمرو بن محمد بن بكير الناقد ، حدثنا عبيدة بن حميد ، عن عبيدة الضبي ، عن عبد الله بن عبد الله يعني قاضي الري ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن ذي الغرة ، قال: عرض اعرابي لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يسير، فقال: يا رسول الله، " تدركنا الصلاة ونحن في اعطان الإبل، فنصلي فيها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا، فقال: انتوضا من لحومها؟ قال: نعم، قال: افنصلي في مرابض الغنم؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم، قال: افنتوضا من لحومها؟ قال: لا" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بُكَيْرٍ النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ ، عَنْ عُبَيْدَةَ الضَّبِّيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي قَاضِي الرَّيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ ذِي الْغُرَّةِ ، قَالَ: عَرَضَ أَعْرَابِيٌّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسِيرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، " تُدْرِكُنَا الصَّلَاةُ وَنَحْنُ فِي أَعْطَانِ الْإِبِلِ، فَنُصَلِّي فِيهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا، فَقَالَ: أَنَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُومِهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَفَنُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، قَالَ: أَفَنَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُومِهَا؟ قَالَ: لَا" .
حضرت ذی العزہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت چہل قدمی کررہے تھے اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ بعض اوقات ابھی ہم لوگ اونٹوں کے باڑے میں ہوتے ہیں کہ نماز کا وقت آجاتا ہے تو کیا ہم وہیں نماز پڑھ سکتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اس نے پوچھا کہ اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد ہم نیا وضو کریں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ اس نے پوچھا کہ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ سکتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس نے پوچھا کہ بکری کا گوشت کھانے کے بعد ہم نیا وضو کریں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔

حكم دارالسلام: هو صحيح لكن من حديث البراء بن عازب لا من حديث ذي الغرة هذا
حدیث نمبر: 21081
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله، حدثنا ابو عثمان سعيد بن يحيى بن سعيد بن ابان بن سعيد بن العاص ، حدثني ابي ، حدثنا محمد بن إسحاق ، عن محمد بن جعفر بن الزبير ، قال: سمعت زياد بن ضمرة بن سعد السلمي يحدث، عروة بن الزبير، قال: حدثني ابي ، وجدي ، وكانا قد شهدا حنينا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالا: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر، ثم جلس إلى ظل شجرة، فقام إليه الاقرع بن حابس، وعيينة بن حصن بن بدر، يطلب بدم الاشجعي عامر بن الاضبط، وهو يومئذ سيد قيس، والاقرع بن حابس يدفع عن محلم بن جثامة لخندف، فاختصما بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسمعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " تاخذون الدية خمسين في سفرنا هذا، وخمسين إذا رجعنا"، قال: يقول عيينة والله يا رسول الله، لا ادعه حتى اذيق نساءه من الحزن ما اذاق نسائي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بل تاخذون الدية"، فابى عيينة، فقام رجل من ليث يقال له مكيتل، رجل قصير مجموع، فقال: يا نبي الله، ما وجدت لهذا القتيل شبيها في غرة الإسلام إلا كغنم وردت فرمي اولها فنفر آخرها، اسنن اليوم وغير غدا، قال: فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده، ثم قال:" بل تقبلون الدية في سفرنا هذا خمسين، وخمسين إذا رجعنا"، فلم يزل بالقوم حتى قبلوا الدية، قال: فلما قبلوا الدية، قالوا: اين صاحبكم يستغفر له رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقام رجل آدم طويل ضرب عليه حلة، كان تهيا للقتل حتى جلس بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما جلس قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما اسمك؟" قال: انا محلم بن جثامة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اللهم لا تغفر لمحلم، اللهم لا تغفر لمحلم" ثلاث مرات، فقام من بين يديه، وهو يتلقى دمعه بفضل ردائه، فاما نحن بيننا فنقول قد استغفر له، ولكنه اظهر ما اظهر ليدع الناس بعضهم من بعض .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدِ بْنِ أَبَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: سَمِعْتُ زِيَادَ بْنَ ضَمْرَةَ بْنِ سَعْدٍ السُّلَمِيَّ يُحَدِّثُ، عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، وَجَدِّي ، وَكَانَا قَدْ شَهِدَا حُنَيْنًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَا: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ، ثُمَّ جَلَسَ إِلَى ظِلِّ شَجَرَةٍ، فَقَامَ إِلَيْهِ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ، وَعُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنِ بْنِ بَدْرٍ، يَطْلُبُ بِدَمِ الْأَشْجَعِيِّ عَامِرِ بْنِ الْأَضْبَطِ، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ سَيِّدُ قَيْسٍ، وَالْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ يَدْفَعُ عَنْ مُحَلِّمِ بْنِ جَثَّامَةَ لِخِنْدِفٍ، فَاخْتَصَمَا بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " تَأْخُذُونَ الدِّيَةَ خَمْسِينَ فِي سَفَرِنَا هَذَا، وَخَمْسِينَ إِذَا رَجَعْنَا"، قَالَ: يَقُولُ عُيَيْنَةُ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَا أَدَعُهُ حَتَّى أُذِيقَ نِسَاءَهُ مِنَ الْحُزْنِ مَا أَذَاقَ نِسَائِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَلْ تَأْخُذُونَ الدِّيَةَ"، فَأَبَى عُيَيْنَةُ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ لَيْثٍ يُقَالُ لَهُ مُكَيْتِلٌ، رَجُلٌ قَصِيرٌ مَجْمُوعٌ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، مَا وَجَدْتُ لِهَذَا الْقَتِيلِ شَبِيهًا فِي غُرَّةِ الْإِسْلَامِ إِلَّا كَغَنَمٍ وَرَدَتْ فَرُمِيَ أَوَّلُهَا فَنَفَرَ آخِرُهَا، اسْنُنْ الْيَوْمَ وَغَيِّرْ غَدًا، قَالَ: فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ، ثُمَّ قَالَ:" بَلْ تَقْبَلُونَ الدِّيَةَ فِي سَفَرِنَا هَذَا خَمْسِينَ، وَخَمْسِينَ إِذَا رَجَعْنَا"، فَلَمْ يَزَلْ بِالْقَوْمِ حَتَّى قَبِلُوا الدِّيَةَ، قَالَ: فَلَمَّا قَبِلُوا الدِّيَةَ، قَالُوا: أَيْنَ صَاحِبُكُمْ يَسْتَغْفِرُ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَامَ رَجُلٌ آدَمُ طَوِيلٌ ضَرَبَ عَلَيْهِ حُلَّةً، كَانَ تَهَيَّأَ لِلْقَتْلِ حَتَّى جَلَسَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جَلَسَ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا اسْمُكَ؟" قَالَ: أَنَا مُحَلِّمُ بْنُ جَثَّامَةَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ لَا تَغْفِرْ لِمُحَلِّمٍ، اللَّهُمَّ لَا تَغْفِرْ لِمُحَلِّمٍ" ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَامَ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ، وَهُوَ يَتَلَقَّى دَمْعَهُ بِفَضْلِ رِدَائِهِ، فَأَمَّا نَحْنُ بَيْنَنَا فَنَقُولُ قَدْ اسْتَغْفَرَ لَهُ، وَلَكِنَّهُ أَظْهَرَ مَا أَظْهَرَ لِيَدَعَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ .
زیاد بن ضمرہ نے عروہ بن زبیر کو اپنے والد اور دادا سے یہ حدیث نقل کرتے ہوئے سنایا جو کہ غزوہ حنین میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی اور ایک درخت کے سایہ تلے بیٹھ گئے اور اقرع بن حابس اور عیینہ بن حصین اٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے عیینہ اس وقت عامر بن اشجعی کے خون کا مطالبہ کررہے تھے جو کہ قبیلہ قیس کا سردار تھا اور اقرع بن حابس خندف کی وجہ سے محلم بن جثامہ کا دفاع کررہے تھے وہ دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھگڑنے لگے ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم سفر میں دیت کے پچاس اونٹ ہم سے لو اور پچاس واپس پہنچ کرلے لینا عیینہ نے جواب دیا نہیں اللہ کی قسم دیت نہیں لوں گا جس وقت تک میں اس شخص کی عورتوں کو وہی تکلیف اور غم نہ دوں جو میری عورتوں کو پہنچا ہے پھر صدائیں بلند ہوئیں اور خوب لڑائی ہوئی اور شوروغل برپا ہوگیا حضرت رسول کریم نے فرمایا اے عیینہ تم دیت قبول نہیں کرتے عیینہ نے پھر اسی طریقہ سے جواب دیا یہاں تک کہ ایک شخص قبیلہ بنی لیث میں سے کھڑا ہو جس کو مکیتل کہا جاتا تھا وہ شخص اسلحہ باندھے ہوئے تھا اور ہاتھ میں تلوار کی ڈھال لئے ہوئے تھا اس نے عرض کیا یارسول اللہ میں اس قتل کرنے والے شخص کے یعنی محلم کے شروع اسلام میں اس کے علاوہ کوئی مثال نہیں دیکھتا ہوں جس طرح کچھ بکریاں کسی چشمہ پر پانی پینے کے لئے پہنچیں تو کسی نے پہلی بکری کو مار دیا کہ جس کی وجہ سے آخری بکری بھی بھاگ کھڑی ہوئی تو آپ آج ایک دستور بنا لیجیے اور کل کو اس کو ختم کردیں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پچاس اونٹ اب ادا کرے اور پچاس اونٹ اس وقت ادا کرے جب ہم لوگ مدینہ منورہ کی طرف لوٹ آئیں چنانچہ آپ نے اس شخص سے دیت ادا کرائی اور یہ واقعہ دوران سفر پیش آیا تھا محلم ایک طویل قد گندمی رنگ کا شخص تھا اور وہ لوگوں کے کنارے بیٹھا تھا لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ بچتے بچاتے آنحضرت کے سامنے آکر بیٹھا اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ میں نے گناہ کیا ہے جس کی آپ کو اطلاع مل گئی اب میں اللہ سے توبہ کرتا ہوں آپ میرے لئے دعائے مغفرت کیجیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اسلام کے شروع میں اس شخص کو اپنے اسلحہ سے قتل کیا ہے اے اللہ محلم کی مغفرت نہ کرنا آپ نے یہ بات باآواز بلند فرمائی تین مرتبہ۔ (راوی) ابوسلمہ نے یہ اضافہ کیا ہے محلم یہ بات سن کر کھڑا ہوگیا اور وہ اپنی چادر کے کونے سے اپنے آنسو پونچھ رہا تھا۔ ابن اسحاق نے بیان کیا کہ محلم کی قوم نے کہا کہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد اس کے لئے بخشش کی دعا فرمائی لیکن ظاہر وہی کیا جو پہلے فرمایا تھا تاکہ لوگ ایک دوسرے سے تعریض نہ کریں۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة زياد بن ضمرة

Previous    128    129    130    131    132    133    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.