حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگوں نے نماز ظہر کے وقت گرمی شدید ہونے کی شکایت بارگاہ نبوت میں پیش کی لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ازالہ نہ فرمایا (کیونکہ نماز کے اوقات اللہ کی طرف سے مقرر کئے گئے ہیں)
حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن حميد بن هلال ، عن رجل من عبد القيس كان مع الخوارج ثم فارقهم، قال: دخلوا قرية، فخرج عبد الله بن خباب ذعرا يجر رداءه، فقالوا: لم ترع؟ قال: والله لقد رعتموني، قالوا: انت عبد الله بن خباب صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، قال: فهل سمعت من ابيك حديثا يحدثه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم تحدثناه؟ قال: نعم، سمعته يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه ذكر " فتنة القاعد فيها خير من القائم، والقائم فيها خير من الماشي، والماشي فيها خير من الساعي"، قال:" فإن ادركت ذاك، فكن عبد الله المقتول"، قال ايوب: ولا اعلمه إلا قال:" ولا تكن عبد الله القاتل"، قالوا: انت سمعت هذا من ابيك يحدثه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، قال: فقدموه على ضفة النهر، فضربوا عنقه، فسال دمه كانه شراك نعل ما ابذقر، وبقروا ام ولده عما في بطنها ..حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ كَانَ مَعَ الْخَوَارِجِ ثُمَّ فَارَقَهُمْ، قَالَ: دَخَلُوا قَرْيَةً، فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَبَّابٍ ذَعِرًا يَجُرُّ رِدَاءَهُ، فَقَالُوا: لَمْ تُرَعْ؟ قَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ رُعْتُمُونِي، قَالُوا: أَنْتَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَبَّابٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَهَلْ سَمِعْتَ مِنْ أَبِيكَ حَدِيثًا يُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُحَدِّثُنَاهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ ذَكَرَ " فِتْنَةً الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي، وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي"، قَالَ:" فَإِنْ أَدْرَكْتَ ذَاكَ، فَكُنْ عَبْدَ اللَّهِ الْمَقْتُولَ"، قَالَ أَيُّوبُ: وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ:" وَلَا تَكُنْ عَبْدَ اللَّهِ الْقَاتِلَ"، قَالُوا: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ أَبِيكَ يُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَقَدَّمُوهُ عَلَى ضَفَّةِ النَّهَرِ، فَضَرَبُوا عُنُقَهُ، فَسَالَ دَمُهُ كَأَنَّهُ شِرَاكُ نَعْلٍ مَا ابْذَقَرَّ، وَبَقَرُوا أُمَّ وَلَدِهِ عَمَّا فِي بَطْنِهَا ..
عبدالقیس کے ایک آدمی جو خوارج کے ساتھ تھا پھر ان سے جدا ہوگیا کہتا کہ خوارج ایک بستی میں داخل ہوئے تو وہاں سے حضرت عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ گھبرا کر اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے خوارج نے ان سے کہا آپ مت گبھرائیں انہوں نے فرمایا کہ واللہ تم نے مجھے ڈرادیا خوارج نے پوچھا کہ کیا آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداللہ ہیں انہوں نے فرمایا ہاں خوارج نے کہا کیا آپ نے اپنے والد سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث سنی ہے جو آپ ہمیں سنائیں انہوں نے فرمایا کہ ہاں میں نے اپنے والد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کے دور کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس زمانے میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ اگر تم اس زمانے کو پاؤ تو اللہ کا مقتول بندہ بن جانا اللہ کا قاتل بندہ نہ بننا خوارج نے پوچھا کہ کیا آپ نے واقعی اپنے والد سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات سنی ہے انہوں نے فرمایا ہاں۔ چنانچہ وہ حضرت عبداللہ کو پکڑ کر نہر کے کنارے لے گئے اور وہاں لے جا کر شہید کردیا ان کا خون اس طرح بہہ رہا تھا جیسے جوتی کا وہ تسمہ جو جدا نہ ہوا ہو پھر انہوں نے ان کی ام ولد (باندی) کا پیٹ چاک کرکے اس کے بچے کو بھی مار ڈالا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن كان الرجل المبهم الذى روى عنه حميد ثقة
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، عن حارثة بن مضرب ، قال: دخلت على خباب وقد اكتوى، فقال: ما اعلم احدا لقي من البلاء ما لقيت، لقد كنت وما اجد درهما على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإن لي في ناحية بيتي هذا اربعين الفا، ولولا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهانا، او نهى ان نتمنى الموت"، لتمنيته ..حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى خَبَّابٍ وَقَدْ اكْتَوَى، فَقَالَ: مَا أَعْلَمُ أَحَدًا لَقِيَ مِنَ الْبَلَاءِ مَا لَقِيتُ، لَقَدْ كُنْتُ وَمَا أَجِدُ دِرْهَمًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ لِي فِي نَاحِيَةِ بَيْتِي هَذَا أَرْبَعِينَ أَلْفًا، وَلَوْلَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَانَا، أَوْ نَهَى أَنْ نَتَمَنَّى الْمَوْتَ"، لَتَمَنَّيْتُهُ ..
حارثہ کہتے ہیں کہ میں حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لئے حاضر ہوا انہوں نے اپنے جسم کو داغا ہوا تھا مجھے دیکھ کر انہوں نے فرمایا کہ جتنی تکلیف مجھے ہے میں نہیں سمجھتا کہ کسی کو اتنی تکلیف ہوئی ہوگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں مجھے ایک درہم نہ ملتا تھا اور اب میرے اسی گھر کے ایک کونے میں چالیس ہزار درہم دفن ہیں۔ اگر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا تو تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے تو میں ضرور اس کی تمنا کرلیتا۔
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن الاعمش ، عن ابي الضحى ، عن مسروق ، قال: قال خباب بن الارت كنت قينا بمكة، فكنت اعمل للعاص بن وائل، فاجتمعت لي عليه دراهم، فجئت اتقاضاه، فقال: لا اقضيك حتى تكفر بمحمد، قال: قلت: والله لا اكفر بمحمد صلى الله عليه وسلم حتى تموت ثم تبعث، قال: فإذا بعثت كان لي مال وولد؟ قال: فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فانزل الله تبارك وتعالى: افرايت الذي كفر بآياتنا وقال لاوتين مالا وولدا سورة مريم آية 77 حتى بلغ فردا سورة مريم آية 80 .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: قَالَ خَبَّابُ بْنُ الْأَرَتِّ كُنْتُ قَيْنًا بِمَكَّةَ، فَكُنْتُ أَعْمَلُ لِلْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ، فَاجْتَمَعَتْ لِي عَلَيْهِ دَرَاهِمُ، فَجِئْتُ أَتَقَاضَاهُ، فَقَالَ: لَا أَقْضِيكَ حَتَّى تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ، قَالَ: قُلْتُ: وَاللَّهِ لَا أَكْفُرُ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَمُوتَ ثُمَّ تُبْعَثَ، قَالَ: فَإِذَا بُعِثْتُ كَانَ لِي مَالٌ وَوَلَدٌ؟ قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لأُوتَيَنَّ مَالا وَوَلَدًا سورة مريم آية 77 حَتَّى بَلَغَ فَرْدًا سورة مريم آية 80 .
حضرت خباب رضی اللہ عنہ بن ارت سے مروی ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں لوہے کا کام کرتا تھا اور میں عاص بن وائل کے لئے کام کرتا تھا ایک مرتبہ اس کے ذمے میرے کچھ درہم اکٹھے ہوگئے میں اس سے ان کا تقاضا کرنے کے لے آیا تو کہنے لگا کہ میں تمہارا اس وقت تک ادا نہیں کروں گا جب تک تم محمد کا انکار نہ کردوگے میں نے کہا کہ میں تو محمد کا انکار اس وقت نہیں کروں گا اگر تم مر کر دوبارہ زندہ ہوجائے اس نے کہا جب میں دوبارہ زندہ ہوں گا تو میرے پاس مال واولاد ہوگی (اس وقت تمہارا قرض چکا دوں گا) میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعہ کا تذکرہ کیا تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی " کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو ہماری آیات کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے وہاں بھی مال واولاد سے نوازا جائے گا "۔
حدثنا يزيد ، اخبرنا إسماعيل بن ابي خالد ، عن قيس بن ابي حازم ، قال: اتينا خباب بن الارت رضي الله عنه نعوده، وقد اكتوى في بطنه سبعا، فقال: لولا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهانا ان ندعو بالموت" لدعوت به، فقد طال بي مرضي، ثم قال: إن اصحابنا الذين مضوا لم تنقصهم الدنيا شيئا، وإنا اصبنا بعدهم ما لا نجد له موضعا إلا التراب وقال: كان يبني حائطا له وإن المرء المسلم يؤجر في نفقته كلها إلا في شيء يجعله في التراب . قال: وشكونا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو متوسد بردة له في ظل الكعبة، فقلنا: يا رسول الله، الا تستنصر الله تعالى لنا؟ فجلس محمرا وجهه، فقال: " والله لقد كان من قبلكم يؤخذ فتجعل المناشير على راسه، فيفرق بفرقتين ما يصرفه ذلك عن دينه، وليتمن الله هذا الامر، حتى يسير الراكب ما بين صنعاء وحضرموت، لا يخاف إلا الله، والذئب على غنمه"..حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، قَالَ: أَتَيْنَا خَبَّابَ بْنَ الْأَرَتِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نَعُودُهُ، وَقَدْ اكْتَوَى فِي بَطْنِهِ سَبْعًا، فَقَالَ: لَوْلَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَانَا أَنْ نَدْعُوَ بِالْمَوْتِ" لَدَعَوْتُ بِهِ، فَقَدْ طَالَ بِي مَرَضِي، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ أَصْحَابَنَا الَّذِينَ مَضَوْا لَمْ تُنْقِصْهُمْ الدُّنْيَا شَيْئًا، وَإِنَّا أَصَبْنَا بَعْدَهُمْ مَا لَا نَجِدُ لَهُ مَوْضِعًا إِلَّا التُّرَابَ وَقَالَ: كَانَ يَبْنِي حَائِطًا لَهُ وَإِنَّ الْمَرْءَ الْمُسْلِمَ يُؤْجَرُ فِي نَفَقَتِهِ كُلِّهَا إِلَّا فِي شَيْءٍ يَجْعَلُهُ فِي التُّرَابِ . قَالَ: وَشَكَوْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً لَهُ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا تَسْتَنْصِرُ اللَّهَ تَعَالَى لَنَا؟ فَجَلَسَ مُحْمَرًّا وَجْهُهُ، فَقَالَ: " وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَ مَنْ قَبْلَكُمْ يُؤْخَذُ فَتُجْعَلُ الْمَنَاشِيرُ عَلَى رَأْسِهِ، فَيُفَرَّقُ بِفِرْقَتَيْنِ مَا يَصْرِفُهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، وَلَيُتِمَّنَّ اللَّهُ هَذَا الْأَمْرَ، حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مَا بَيْنَ صَنْعَاءَ وَحَضْرَمَوْتَ، لَا يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ، وَالذِّئْبَ عَلَى غَنَمِهِ"..
قیس کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے وہ اپنے باغ کی تعمیر میں مصروف تھے ہمیں دیکھ کر فرمایا کہ مسلمان کو ہر چیز میں ثواب ملتا ہے سوائے اس کے جو اس مٹی میں لگاتا ہے انہوں نے سات مرتبہ اپنے پیٹ پر داغنے کا علاج کیا تھا اور کہہ رہے تھے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں موت کی دعا مانگنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو میں ضرور اس کی دعا کرتا۔ کیونکہ میری بیماری لمبی ہوگئی ہے اور فرمایا ہمارے وہ ساتھی جو دنیا سے چلے گئے ہیں دنیا ان کا کچھ ثواب کم نہ کرسکی اور ہمیں ان کے بعد جو کچھ ملا ہم نے اس کے لئے مٹی کے علاوہ کوئی جگہ نہ پائی۔ حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خانہ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر سے ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے تھے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ اللہ سے ہماری لئے دعا کیجیے اور مدد مانگیے یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ سرخ ہوگیا اور فرمایا کہ تم سے پہلے لوگوں کے لئے دین قبول کرنے کی پاداش میں گڑھے کھودے جاتے تھے اور آرے لے کر سر پر رکھے جاتے اور ان سے سر کو چیر دیا جاتا تھا لیکن یہ چیز بھی انہیں ان کے دین سے برگشہ نہیں کرتی تھی اس طرح لوہے کی کنگیاں لے کر جسم کی ہڈیوں کے پیچھے گوشت پٹھوں میں گاڑھی جاتی تھیں لیکن یہ تکلیف بھی انہیں ان کے دین سے برگشتہ نہیں کرتی تھی اور اللہ اس دین کو پورا کرکے رہے گا یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء اور حضرموت کے درمیان سفر کرے گا جس میں اسے صرف خوف اللہ ہوگا یا بکری پر بھیڑیے کے حملے کا لیکن تم لوگ جلد باز ہو۔
حدثنا محمد بن يزيد، حدثنا إسماعيل، فذكر معناه إلا انه قال:" لم تنقصهم الدنيا شيئا، ويمشط بامشاط الحديد ما دون عظمه من لحم وعصب، لا يصرفه عن دينه شيء" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ:" لَمْ تُنْقِصْهُمْ الدُّنْيَا شَيْئًا، وَيُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيدِ مَا دُونَ عَظْمِهِ مِنْ لَحْمٍ وَعَصَبٍ، لَا يَصْرِفُهُ عَنْ دِينِهِ شَيْءٌ" .
حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن ابي إسحاق ، عن عبد الرحمن بن زيد الفائشي ، عن بنت لخباب ، قالت: خرج خباب في سرية،" وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتعاهدنا، حتى كان يحلب عنزا لنا، فكان يحلبها في جفنة لنا، فكانت تمتلئ حتى تطفح"، قالت: فلما قدم خباب حلبها، فعاد حلابها إلى ما كان، قال: فقلنا لخباب: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحلبها حتى تمتلئ جفنتنا، فلما حلبتها نقص حلابها .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ الْفَائِشِيِّ ، عَنْ بِنْتٍ لِخَبَّابٍ ، قَالَتْ: خَرَجَ خَبَّابٌ فِي سَرِيَّةٍ،" وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَاهَدُنَا، حَتَّى كَانَ يَحْلُبُ عَنْزًا لَنَا، فَكَانَ يَحْلُبُهَا فِي جَفْنَةٍ لَنَا، فَكَانَتْ تَمْتَلِئُ حَتَّى تَطْفَحَ"، قَالَتْ: فَلَمَّا قَدِمَ خَبَّابٌ حَلَبَهَا، فَعَادَ حِلَابُهَا إِلَى مَا كَانَ، قَالَ: فَقُلْنَا لِخَبَّابٍ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْلُبُهَا حَتَّى تَمْتَلِئَ جَفْنَتُنَا، فَلَمَّا حَلَبْتَهَا نَقَصَ حِلَابُهَا .
حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کہتی ہیں کہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ ایک لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے ان کے پیچھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا یہاں تک خیال رکھتے تھے کہ ہماری بکری کا دودھ دوہ دیتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک بڑے پیالے میں دودھ دوہتے تھے جس سے وہ پیالہ لباب بھر جاتا تھا جب حضرت خباب رضی اللہ عنہ واپس آئے اور انہوں نے اسے دوہا تو اس میں سے حسب معمول دودھ نکالا ہم نے ان سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا دودھ دوہتے تھے تو پیالہ لباب بھرجاتا تھا اور آپ نے دوہا تو اس کا دودھ کم کردیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عبدالرحمن بن زيد، وقد اختلف فيه على أبى إسحاق، وقد اختلط