حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن حميد بن هلال ، عن رجل من عبد القيس كان مع الخوارج ثم فارقهم، قال: دخلوا قرية، فخرج عبد الله بن خباب ذعرا يجر رداءه، فقالوا: لم ترع؟ قال: والله لقد رعتموني، قالوا: انت عبد الله بن خباب صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، قال: فهل سمعت من ابيك حديثا يحدثه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم تحدثناه؟ قال: نعم، سمعته يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه ذكر " فتنة القاعد فيها خير من القائم، والقائم فيها خير من الماشي، والماشي فيها خير من الساعي"، قال:" فإن ادركت ذاك، فكن عبد الله المقتول"، قال ايوب: ولا اعلمه إلا قال:" ولا تكن عبد الله القاتل"، قالوا: انت سمعت هذا من ابيك يحدثه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، قال: فقدموه على ضفة النهر، فضربوا عنقه، فسال دمه كانه شراك نعل ما ابذقر، وبقروا ام ولده عما في بطنها ..حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ كَانَ مَعَ الْخَوَارِجِ ثُمَّ فَارَقَهُمْ، قَالَ: دَخَلُوا قَرْيَةً، فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَبَّابٍ ذَعِرًا يَجُرُّ رِدَاءَهُ، فَقَالُوا: لَمْ تُرَعْ؟ قَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ رُعْتُمُونِي، قَالُوا: أَنْتَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَبَّابٍ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَهَلْ سَمِعْتَ مِنْ أَبِيكَ حَدِيثًا يُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُحَدِّثُنَاهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ ذَكَرَ " فِتْنَةً الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي، وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي"، قَالَ:" فَإِنْ أَدْرَكْتَ ذَاكَ، فَكُنْ عَبْدَ اللَّهِ الْمَقْتُولَ"، قَالَ أَيُّوبُ: وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ:" وَلَا تَكُنْ عَبْدَ اللَّهِ الْقَاتِلَ"، قَالُوا: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ أَبِيكَ يُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَقَدَّمُوهُ عَلَى ضَفَّةِ النَّهَرِ، فَضَرَبُوا عُنُقَهُ، فَسَالَ دَمُهُ كَأَنَّهُ شِرَاكُ نَعْلٍ مَا ابْذَقَرَّ، وَبَقَرُوا أُمَّ وَلَدِهِ عَمَّا فِي بَطْنِهَا ..
عبدالقیس کے ایک آدمی جو خوارج کے ساتھ تھا پھر ان سے جدا ہوگیا کہتا کہ خوارج ایک بستی میں داخل ہوئے تو وہاں سے حضرت عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ گھبرا کر اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے خوارج نے ان سے کہا آپ مت گبھرائیں انہوں نے فرمایا کہ واللہ تم نے مجھے ڈرادیا خوارج نے پوچھا کہ کیا آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبداللہ ہیں انہوں نے فرمایا ہاں خوارج نے کہا کیا آپ نے اپنے والد سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث سنی ہے جو آپ ہمیں سنائیں انہوں نے فرمایا کہ ہاں میں نے اپنے والد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کے دور کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس زمانے میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ اگر تم اس زمانے کو پاؤ تو اللہ کا مقتول بندہ بن جانا اللہ کا قاتل بندہ نہ بننا خوارج نے پوچھا کہ کیا آپ نے واقعی اپنے والد سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات سنی ہے انہوں نے فرمایا ہاں۔ چنانچہ وہ حضرت عبداللہ کو پکڑ کر نہر کے کنارے لے گئے اور وہاں لے جا کر شہید کردیا ان کا خون اس طرح بہہ رہا تھا جیسے جوتی کا وہ تسمہ جو جدا نہ ہوا ہو پھر انہوں نے ان کی ام ولد (باندی) کا پیٹ چاک کرکے اس کے بچے کو بھی مار ڈالا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن كان الرجل المبهم الذى روى عنه حميد ثقة