حدثنا سفيان بن عيينة ، عن ايوب ، عن ابي قلابة ، عن ابي المهلب ، عن عمران بن حصين ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: كانت امراة اسرها العدو، وكانوا يريحون إبلهم عشاء، فاتت الإبل تريد منها بعيرا تركبه، فكلما دنت من بعير رغا، فتركته حتى اتت ناقة منها، فلم ترغ فركبت عليها، ثم نجت فقدمت المدينة، فلما رآها الناس , قالوا: ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم العضباء، قالت: إني نذرت ان انحرها إن الله عز وجل انجاني عليها , قال: " بئسما جزيتيها، لا نذر لابن آدم فيما لا يملك، ولا نذر في معصية الله" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كَانَتْ امْرَأَةٌ أَسَرَهَا الْعَدُوُّ، وَكَانُوا يُرِيحُونَ إِبِلَهُمْ عِشَاءً، فَأَتَتْ الْإِبِلَ تُرِيدُ مِنْهَا بَعِيرًا تَرْكَبُهُ، فَكُلَّمَا دَنَتْ مِنْ بَعِيرٍ رَغَا، فَتَرَكَتْهُ حَتَّى أَتَتْ نَاقَةً مِنْهَا، فَلَمْ تَرْغُ فَرَكِبَتْ عَلَيْهَا، ثُمَّ نَجَتْ فَقَدِمَتْ الْمَدِينَةَ، فَلَمَّا رَآهَا النَّاسُ , قَالُوا: نَاقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَضْبَاءُ، قَالَتْ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَهَا إِنْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْجَانِي عَلَيْهَا , قَالَ: " بِئْسَمَا جَزَيْتِيهَا، لَا نَذْرَ لِابْنِ آدَمَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةِ اللَّه" .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مسلمان عورت کو دشمن نے قید کرلیا، قبل ازیں ان لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی بھی چرا لی تھی، ایک دن اس عورت نے لوگوں کو غافل دیکھا تو چپکے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر سوار ہوئی اور یہ منت مان لی کہ اگر صحیح سلامت مدینہ پہنچ گئی تو اسی اونٹنی کو ذبح کر دے گی، بہرحال! وہ مدینہ منورہ پہنچ گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کو ذبح کرنا چاہا لیکن لوگوں نے اسے اس سے منع کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کردیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اسے برا بدلہ دیا، پھر فرمایا ابن آدم جس چیز کا مالک نہ ہو، اس میں نذر نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ کی معصیت میں منت ہوتی ہے۔
حدثنا سفيان ، عن ابن جدعان ، عن الحسن ، عن عمران بن حصين ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فنزلت: يايها الناس اتقوا ربكم إن زلزلة الساعة سورة الحج آية 1 , سقط على ابي كلمة راحلته، وقف الناس، قال: " هل تدرون اي يوم ذاك؟" قالوا: الله ورسوله اعلم سقطت على ابي كلمة" يقول: يا آدم ابعث بعث النار , قال: وما بعث النار؟ قال: من كل الف تسع مائة وتسعة وتسعين إلى النار" قال: فبكوا، قال:" قاربوا، وسددوا ما انتم في الامم إلا كالرقمة، إني لارجو ان تكونوا ربع اهل الجنة، إني لارجو ان تكونوا ثلث اهل الجنة" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ ابْنِ جُدْعَانَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَنَزَلَتْ: يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ سورة الحج آية 1 , سَقَطَ عَلَى أَبِي كَلِمَةٌ رَاحِلَتَهُ، وَقَفَ النَّاسُ، قَالَ: " هَلْ تَدْرُونَ أَيَّ يَوْمٍ ذَاكَ؟" قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ سَقَطَتْ عَلَى أَبِي كَلِمَةٌ" يَقُولُ: يَا آدَمُ ابْعَثْ بَعْثَ النَّارِ , قَالَ: وَمَا بَعْثُ النَّارِ؟ قَالَ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَ مِائَةٍ وتسعةً وَتِسْعِينَ إِلَى النَّارِ" قَالَ: فَبَكَوْا، قَالَ:" قَارِبُوا، وَسَدِّدُوا مَا أَنْتُمْ فِي الْأُمَمِ إِلَّا كَالرَّقْمَةِ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ" .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے تو یہ آیت نازل ہوئی " اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، بیشک قیامت کا زلزلہ بڑی عظیم چیز ہے " (یہاں میرے والد سے ایک لفظ چھوٹ گیا ہے، دوسری روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے ان دو آیتوں کی تلاوت فرمائی، صحابہ رضی اللہ عنہ کے کان میں اس کی آواز پہنچی تو انہوں نے اپنی سواریوں کو قریب کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد) آ کر کھڑے ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وہ دن ہوگا جب اللہ تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) سے پکار کر کہے گا کے اے آدم! جہنم کا حصہ نکالو، وہ پوچھیں گے کہ جہنم کا حصہ کیا ہے؟ تو ارشاد ہوگا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے جہنم کے لئے نکال لو، یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ رونے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قربت پیدا کرو اور راہ راست پر رہو، تمام امتوں میں تم لوگ صرف کپڑے پر ایک نشان کی مانند ہوگے، لیکن پھر بھی مجھے امید ہے کہ تم اہل جنت کا ایک چوتھائی حصہ ہو گے بلکہ مجھے امید ہے کہ تم اہل جنت کا ایک تہائی حصہ ہوگے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، ابن جدعان ضعيف لكنه توبع، الحسن البصري لم يسمع من عمران لكنه توبع أيضاً
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن الاعمش ، عن خيثمة او عن رجل، عن عمران بن حصين ، قال: مر برجل , وهو يقرا على قوم، فلما فرغ سال، فقال عمران: إنا لله وإنا إليه راجعون، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من قرا القرآن، فليسال الله به، فإنه سيجيء قوم يقرءون القرآن يسالون الناس به" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ خَيْثَمَةَ أَوْ عَنْ رَجُلٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: مَرَّ بِرَجُلٍ , وَهُوَ يَقْرَأُ عَلَى قَوْمٍ، فَلَمَّا فَرَغَ سَأَلَ، فَقَالَ عِمْرَانُ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ، فَلْيَسْأَلْ اللَّهَ بِهِ، فَإِنَّهُ سَيَجِيءُ قَوْمٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ بِهِ" .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ کسی آدمی کے پاس سے گزرے جو لوگوں کو قرآن پڑھ کر سنا رہا تھا، تلاوت سے فارغ ہو کر اس نے لوگوں سے مانگنا شروع کردیا، یہ دیکھ کر حضرت عمران رضی اللہ عنہ نے " انا للہ وانا الیہ راجعون " کہا اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص قرآن پڑھے، اسے چاہیے کہ قرآن کے ذریعے اللہ سے سوال کرے، کیونکہ عنقریب ایسے لوگ بھی آئیں گے جو قرآن کو پڑھ کر اس کے ذریعے لوگوں سے سوال کریں گے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، خيثمة فيه لين، وقوله فى الإسناد: أو عن رجل عن عمران، هكذا وقع فى هذا الإسناد، والمحفوظ فيه: خيثمة عن الحسن البصري، عن عمران، والحسن لم يسمع من عمران
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن جامع بن شداد ، عن صفوان بن محرز المازني ، عن عمران بن حصين ، قال: جاء النبي صلى الله عليه وسلم ناس من بني تميم، فقال: " ابشروا يا بني تميم" قالوا: بشرتنا فاعطنا , قال: فكان وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم كاد ان يتغير، قال: ثم جاء ناس من اهل اليمن، فقال لهم:" اقبلوا البشرى إذ لم يقبلها بنو تميم" قالوا: قد قبلنا .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ الْمَازِنِيِّ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: جَاءَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاسٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، فَقَالَ: " أَبْشِرُوا يَا بَنِي تَمِيمٍ" قَالُوا: بَشَّرْتَنَا فَأَعْطِنَا , قَالَ: فَكَانَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَادَ أَنْ يَتَغَيَّرَ، قَالَ: ثُمَّ جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فَقَالَ لَهُمْ:" اقْبَلُوا الْبُشْرَى إِذْ لَمْ يَقْبَلْهَا بَنُو تَمِيمٍ" قَالُوا: قَدْ قَبِلْنَا .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ بنو تمیم کے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے بنو تمیم! خوشخبری قبول کرو، وہ کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ نے ہمیں خوشخبری تو دے دی، اب کچھ عطاء بھی کر دیجئے، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور کا رنگ بدل گیا، تھوڑی دیر بعد یمن کا ایک قبیلہ آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ بنو تمیم نے تو خوشخبری قبول نہیں کی، تم قبول کرلو، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم نے اسے قبول کرلیا۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے بیک وقت بہت سی بیماریوں کی شکایت تھی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ثواب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے سے نصف ہے اور لیٹ کر نماز پڑھنے کا ثواب بیٹھ کر نماز پڑھنے سے نصف ہے۔
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی، مقتدیوں میں سے ایک آدمی نے سبح اسم ربک الاعلی والی سورت پڑھی، نماز سے فارغ ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم میں سے سبح اسم ربک الاعلی کس نے پڑھی ہے؟ ایک آدمی نے کہا میں نے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سمجھ گیا تھا کہ تم میں سے کوئی مجھ سے جھگڑ رہا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 398 وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل محبوب بن الحسن
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج تمہارا بھائی نجاشی فوت ہوگیا ہے لہذا اس کی نماز جنازہ پڑھو، چناچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہم نے پیچھے صفیں بنالیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل محبوب لكنه توبع
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج تمہارا بھائی نجاشی فوت ہوگیا ہے لہذا اس کی نماز جنازہ پڑھو،
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ فلاں آدمی تو ہمیشہ دن کو روزے کا ناغہ کرتا ہی نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے ناغہ کیا اور نہ روزہ رکھا۔