مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 19863
Save to word اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا ايوب ، عن ابي قلابة ، عن ابي المهلب ، عن عمران بن حصين ، قال: كانت العضباء لرجل من بني عقيل، وكانت من سوابق الحاج، فاسر الرجل، واخذت العضباء معه، قال: فمر به رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في وثاق ورسول الله صلى الله عليه وسلم على حمار عليه قطيفة، فقال: يا محمد، تاخذوني وتاخذون سابقة الحاج؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ناخذك بجريرة حلفائك ثقيف" قال: وقد كانت ثقيف قد اسروا رجلين من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، وقال فيما قال: وإني مسلم , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لو قلتها وانت تملك امرك افلحت كل الفلاح" قال: ومضى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فقال: يا محمد، إني جائع فاطعمني، وإني ظمآن فاسقني، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هذه حاجتك!" ثم فدي بالرجلين، وحبس رسول الله صلى الله عليه وسلم العضباء لرحله , قال: ثم إن المشركين اغاروا على سرح المدينة، فذهبوا بها، وكانت العضباء فيه، قال: واسروا امراة من المسلمين، قال: فكانوا إذا نزلوا اراحوا إبلهم بافنيتهم، قال: فقامت المراة ذات ليلة بعدما ناموا، فجعلت كلما اتت على بعير رغا، حتى اتت على العضباء، فاتت على ناقة ذلول مجرسة فركبتها، ثم وجهتها قبل المدينة، قال: ونذرت إن الله عز وجل انجاها عليها لتنحرنها، فلما قدمت المدينة عرفت الناقة، فقيل: ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فاخبر النبي صلى الله عليه وسلم بنذرها، او اتته فاخبرته، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بئسما جزتها او بئسما جزيتيها إن الله تبارك وتعالى انجاها عليها لتنحرنها" قال: ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا وفاء لنذر في معصية الله، ولا فيما لا يملك ابن آدم" , وقال وهيب: يعني ابن خالد , وكانت ثقيف حلفاء لبني عقيل، وزاد حماد بن سلمة فيه: وكانت العضباء داجنا لا تمنع من حوض ولا نبت , قال عفان: مجرسة معودة.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: كَانَتْ الْعَضْبَاءُ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِي عُقَيْلٍ، وَكَانَتْ مِنْ سَوَابِقِ الْحَاجِّ، فَأُسِرَ الرَّجُلُ، وَأُخِذَتْ الْعَضْبَاءُ مَعَهُ، قَالَ: فَمَرَّ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي وَثَاقٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِمَارٍ عَلَيْهِ قَطِيفَةٌ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، تَأْخُذُونِي وَتَأْخُذُونَ سَابِقَةَ الْحَاجِّ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَأْخُذُكَ بِجَرِيرَةِ حُلَفَائِكَ ثَقِيفَ" قَالَ: وَقَدْ كَانَتْ ثَقِيفُ قَدْ أَسَرُوا رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ فِيمَا قَالَ: وَإِنِّي مُسْلِمٌ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ قُلْتَهَا وَأَنْتَ تَمْلِكُ أَمْرَكَ أَفْلَحْتَ كُلَّ الْفَلَاحِ" قَالَ: وَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِي، وَإِنِّي ظَمْآنُ فَاسْقِنِي، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذِهِ حَاجَتُكَ!" ثُمَّ فُدِيَ بِالرَّجُلَيْنِ، وَحَبَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَضْبَاءَ لِرَحْلِهِ , قَالَ: ثُمَّ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ أَغَارُوا عَلَى سَرْحِ الْمَدِينَةِ، فَذَهَبُوا بِهَا، وَكَانَتْ الْعَضْبَاءُ فِيهِ، قَالَ: وَأَسَرُوا امْرَأَةً مِنَ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: فَكَانُوا إِذَا نَزَلُوا أَرَاحُوا إِبِلَهُمْ بِأَفْنِيَتِهِمْ، قَالَ: فَقَامَتْ الْمَرْأَةُ ذَاتَ لَيْلَةٍ بَعْدَمَا نَامُوا، فَجَعَلَتْ كُلَّمَا أَتَتْ عَلَى بَعِيرٍ رَغَا، حَتَّى أَتَتْ عَلَى الْعَضْبَاءِ، فَأَتَتْ عَلَى نَاقَةٍ ذَلُولٍ مُجَرَّسَةٍ فَرَكِبَتْهَا، ثُمَّ وَجَّهَتْهَا قِبَلَ الْمَدِينَةِ، قَالَ: وَنَذَرَتْ إِنْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْجَاهَا عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، فَلَمَّا قَدِمَتْ الْمَدِينَةَ عُرِفَتْ النَّاقَةُ، فَقِيلَ: نَاقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَذْرِهَا، أَوْ أَتَتْهُ فَأَخْبَرَتْهُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِئْسَمَا جَزَتْهَا أَوْ بِئْسَمَا جَزَيْتِيهَا إِنْ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنْجَاهَا عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا" قَالَ: ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ" , وقَالَ وُهَيْبٌ: يَعْنِي ابْنَ خَالِدٍ , وَكَانَتْ ثَقِيفُ حُلَفَاءَ لِبَنِي عُقَيْلٍ، وَزَادَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ فِيهِ: وَكَانَتْ الْعَضْبَاءُ دَاجِنًا لَا تُمْنَعُ مِنْ حَوْضٍ وَلَا نَبْتٍ , قَالَ عَفَّانُ: مُجَرَّسَةٌ مُعَوَّدَةٌ.
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عضباء نامی اونٹنی دراصل بنو عقیل میں سے ایک آدمی کی تھی اور حاجیوں کی سواری تھی، وہ شخص گرفتار ہوگیا اور اس کی اونٹنی بھی پکڑ لی گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گذرے تو وہ رسیوں سے بندھا ہوا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار تھے اور ایک چادر اوڑھ رکھی تھی، وہ کہنے لگا اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم کیا تم مجھے اور حاجیوں کی سواری کو بھی پکڑ لوگے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم نے تمہیں تمہارے حلیفوں بنو ثقیف کی جرأت کی وجہ سے پکڑا ہے، کیونکہ بنو ثقیف نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابہ قید کر رکھے تھے، بہرحال! دوران گفتگو وہ کہنے لگا کہ میں تو مسلمان ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نے اس وقت یہ بات کہی ہوتی جب کہ تمہیں اپنے اوپر مکمل اختیار تھا تو فلاح کلی حاصل کرلیتے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھنے لگے تو وہ کہنے لگا کہ اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم میں بھوکا ہوں، مجھے کھانا کھلائیے، پیاسا ہوں، پانی پلائیے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہاری ضرورت ہے (جو ہم پوری کریں گے) پھر ان دو صحابیوں کے فدئیے میں اس شخص کو دے دیا اور عضباء کو اپنی سواری کے لئے رکھ لیا، کچھ ہی عرصے بعد مشرکین نے مدینہ منورہ کی چراگاہ پر شب خون مارا اور وہاں کے جانور اپنے ساتھ لے گئے انہی میں عضباء بھی شامل تھی۔ نیز انہوں نے ایک مسلمان عورت کو بھی قید کرلیا، ایک دن اس عورت نے لوگوں کو غافل دیکھا تو چپکے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر سوار ہوئی اور یہ منت مان لی کہ اگر صحیح سلامت مدینہ پہنچ گئی تو اسی اونٹنی کو ذبح کر دے گی، بہرحال! وہ مدینہ منورہ پہنچ گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کو ذبح کرنا چاہا لیکن لوگوں نے اسے اس سے منع کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کردیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اسے برا بدلہ دیا، پھر فرمایا ابن آدم جس چیز کا مالک نہ ہو، اس میں نذر نہیں ہوئی اور نہ ہی اللہ کی معصیت میں منت ہوتی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1641
حدیث نمبر: 19864
Save to word اعراب
حدثنا هشيم ، عن يونس ، عن الحسن ، عن عمران بن حصين ، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الكي، فاكتوينا، فما افلحنا ولا انجحنا" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَن يُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْكَيِّ، فَاكْتَوَيْنَا، فَمَا أَفْلَحْنَا وَلَا أَنْجَحْنَا" .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں داغنے کا علاج کرنے سے منع فرمایا ہے، لیکن ہم داغتے رہے اور کبھی کامیاب نہ ہو سکے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، الحسن البصري لم يسمع من عمران، لكنه توبع
حدیث نمبر: 19865
Save to word اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا علي بن زيد ، عن ابي نضرة , ان فتى سال عمران بن حصين عن صلاة النبي صلى الله عليه وسلم في السفر، فعدل إلى مجلس العوقة، فقال: إن هذا الفتى سالني عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في السفر، فاحفظوا عني: " ما سافر رسول الله صلى الله عليه وسلم سفرا إلا صلى ركعتين ركعتين حتى يرجع، وإنه اقام بمكة زمان الفتح ثماني عشرة ليلة يصلي بالناس ركعتين ركعتين حدثناه يونس بن محمد بهذا الإسناد , وزاد فيه إلا المغرب , ثم يقول: يا اهل مكة، قوموا فصلوا ركعتين اخريين، فإنا سفر، ثم غزا حنينا , والطائف، فصلى ركعتين ركعتين، ثم رجع إلى جعرانة، فاعتمر منها في ذي القعدة" , ثم غزوت مع ابي بكر رضي الله تعالى عنه وحججت واعتمرت، فصلى ركعتين ركعتين، ومع عمر رضي الله تعالى عنه , فصلى ركعتين ركعتين قال يونس: إلا المغرب , ومع عثمان صدرا من إمارته، فصلى ركعتين قال يونس: إلا المغرب ثم إن عثمان صلى بعد ذلك اربعا.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ , أَنَّ فَتًى سَأَلَ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ عَنْ صَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ، فَعَدَلَ إِلَى مَجْلِسِ الْعُوقَةِ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الْفَتَى سَأَلَنِي عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ، فَاحْفَظُوا عَنِّي: " مَا سَافَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَفَرًا إِلَّا صَلَّى رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ حَتَّى يَرْجِعَ، وَإِنَّهُ أَقَامَ بِمَكَّةَ زَمَانَ الْفَتْحِ ثَمَانِيَ عَشْرَةَ لَيْلَةً يُصَلِّي بِالنَّاسِ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ حَدَّثَنَاه يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ , وَزَادَ فِيهِ إِلَّا الْمَغْرِبَ , ثُمَّ يَقُولُ: يَا أَهْلَ مَكَّةَ، قُومُوا فَصَلُّوا رَكْعَتَيْنِ أُخْرَيَيْنِ، فَإِنَّا سَفْرٌ، ثُمَّ غَزَا حُنَيْنًا , وَالطَّائِفَ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى جِعِرَّانَةَ، فَاعْتَمَرَ مِنْهَا فِي ذِي الْقَعْدَةِ" , ثُمَّ غَزَوْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ وَحَجَجْتُ وَاعْتَمَرْتُ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ , فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ قَالَ يُونُسُ: إِلَّا الْمَغْرِبَ , وَمَعَ عُثْمَانَ صَدْرًَا من إِمَارَتِهِ، فصلَّى ركعتين قَالَ يُونُسُ: إِلَّا الْمَغْرِبَ ثُمَّ إِنَّ عُثْمَانَ صَلَّى بَعْدَ ذَلِكَ أَرْبَعًا.
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے ایک نوجوان نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سفر کے متعلق پوچھا تو وہ مجلس عوقہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ یہ نوجوان مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سفر کے متعلق پوچھ رہا ہے، لہذا تم بھی اسے اچھی طرح محفوظ کرلو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی کوئی سفر کیا ہے تو واپسی تک دو دو رکعتیں ہی پڑھی ہیں اور مکہ مکرمہ میں فتح مکہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھارہ دن تک رہے لیکن لوگوں کو دو دو رکعتیں ہی پڑھاتے رہے۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ گزشتہ حدیث یونس بن محمد سے اس اضافے کے ساتھ منقول ہے کہ البتہ مغرب میں قصر نہیں فرماتے تھے، پھر فرما دیتے کہ اہل مکہ! تم لوگ کھڑے ہو کر اگلی دو رکعتیں خود ہی پڑھ لو کیونکہ ہم لوگ مسافر ہیں۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم غروہ حنین اور طائف کے لئے تشریف لے گئے تب بھی دو دو رکعتیں پڑھتے رہے، پھر جعرانہ گئے اور ماہ ذیقعدہ میں وہاں سے عمرہ کا احرام باندھا (تب بھی ایسا ہی کیا) پھر میں نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ غزوات، حج اور عمرے کے سفر میں شرکت کی، انہوں نے بھی دو دو رکعتیں پڑھیں، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ان کے ابتدائی دور خلافت میں ایسے ہی نماز پڑھی، بعد میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ چار رکعتیں پڑھنے لگے تھے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ولبعضه شواهد، على بن زيد ضعيف
حدیث نمبر: 19866
Save to word اعراب
حدثنا هشيم ، اخبرنا منصور ، عن الحسن ، عن عمران بن حصين , ان رجلا من الانصار اعتق ستة مملوكين له عند موته، وليس له مال غيرهم، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" لقد هممت ان لا اصلي عليه" قال: ثم دعا بالرقيق فجزاهم ثلاثة اجزاء، فاعتق اثنين، وارق اربعة .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ أَعْتَقَ سِتَّةَ مَمْلُوكِينَ لَهُ عِنْدَ مَوْتِهِ، وَلَيْسَ لَهُ مَالٌ غَيْرُهُمْ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ لَا أُصَلِّيَ عَلَيْهِ" قَالَ: ثُمَّ دَعَا بِالرَّقِيقِ فَجَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ، فَأَعْتَقَ اثْنَيْنِ، وَأَرَقَّ أَرْبَعَةً .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے مرتے وقت اپنے چھ کے چھ غلام آزاد کر دئیے، جن کے علاوہ اس کے پاس کوئی مال بھی نہ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غلاموں کو بلایا اور انہیں تین حصوں میں تقسیم کرکے ان کے درمیان قرعہ اندازی کی، پھر جن دو کا نام نکل آیا انہیں آزاد کردیا اور باقی چار کو غلام ہی رہنے دیا اور مرنے والے کے متعلق فرمایا میرا دل چاہتا ہے کہ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھاؤں۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1668، وهذا إسناد منقطع، الحسن البصري لم يسمع من عمران، لكنه توبع
حدیث نمبر: 19867
Save to word اعراب
حدثنا هشيم ، اخبرنا يونس ، عن ابي قلابة ، عن ابي المهلب ، عن عمران بن حصين , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إن اخاكم النجاشي قد مات، فصلوا عليه" فقام فصفنا خلفه، فإني لفي الصف الثاني، فصلى عليه .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ أَخَاكُمْ النَّجَاشِيَّ قَدْ مَاتَ، فَصَلُّوا عَلَيْهِ" فَقَامَ فَصَفَّنَا خَلْفَهُ، فَإِنِّي لَفِي الصَّفِّ الثَّانِي، فَصَلَّى عَلَيْهِ .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج تمہارا بھائی نجاشی فوت ہوگیا ہے لہذا اس کی نماز جنازہ پڑھو، چناچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہم نے پیچھے صفیں بنالیں، میں دوسری صف میں تھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 19868
Save to word اعراب
حدثنا معتمر ، عن خالد ، عن ابي قلابة ، عن ابي المهلب ، عن عمران بن حصين , ان النبي صلى الله عليه وسلم: " صلى ثلاث ركعات، فسلم، فقيل له، فقام فصلى ركعة، فسلم، ثم سجد سجدتين وهو جالس" .حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَلَّى ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ، فَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ، فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَةً، فَسَلَّمَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ" .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی تین رکعتوں پر ہی سلام پھیر دیا، لوگوں کے توجہ دلانے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر چھوٹی ہوئی ایک رکعت پڑھائی اور سلام پھیر کر بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کئے اور سلام پھیر دیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 574
حدیث نمبر: 19869
Save to word اعراب
حدثنا إسماعيل ، حدثنا يزيد يعني الرشك ، عن مطرف بن الشخير ، عن عمران بن حصين ، قال: قال رجل: يا رسول الله، اعلم اهل الجنة من اهل النار؟ قال:" نعم" قال: فيم يعمل العاملون؟ قال: " اعملوا فكل ميسر لما خلق له" , او كما قال.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي الرِّشْكَ ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعُلِمَ أَهْلُ الْجَنَّةِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ؟ قَالَ:" نَعَمْ" قَالَ: فِيمَ يَعْمَلُ الْعَامِلُونَ؟ قَالَ: " اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ" , أَوْ كَمَا قَالَ.
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا اہل جہنم، اہل جنت سے ممتاز ہوچکے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اس نے پوچھا کہ پھر عمل کرنے والے کیوں عمل کرتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمل کرتے رہو، کیونکہ ہر شخص وہی عمل کرتا ہے جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہو۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6596، م: 2649
حدیث نمبر: 19870
Save to word اعراب
حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن ابي قلابة ، عن ابي المهلب ، عن عمران بن حصين ، قال: بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض اسفاره، وامراة من الانصار على ناقة، فضجرت فلعنتها، فسمع ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " خذوا ما عليها ودعوها، فإنها ملعونة" , قال عمران: فكاني انظر إليها الآن تمشي في الناس ما يعرض لها احد , يعني الناقة.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، وَامْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ عَلَى نَاقَةٍ، فَضَجِرَتْ فَلَعَنَتْهَا، فَسَمِعَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " خُذُوا مَا عَلَيْهَا وَدَعُوهَا، فَإِنَّهَا مَلْعُونَةٌ" , قَالَ عِمْرَانُ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهَا الْآنَ تَمْشِي فِي النَّاسِ مَا يَعْرِضُ لَهَا أَحَدٌ , يَعْنِي النَّاقَةَ.
حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے اپنی اونٹنی پر لعنت بھیجی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اونٹنی ملعون ہوگئی ہے اس لئے اسے چھوڑ دو، میں نے اس اونٹنی کو منزلیں طے کرتے ہوئے لیکن اسے کوئی ہاتھ نہ لگاتا تھا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2595
حدیث نمبر: 19871
Save to word اعراب
حدثنا إسماعيل ، قال علي بن زيد اخبرنا، عن ابي نضرة ، قال: مر عمران بن حصين ، بمجلسنا فقام إليه فتى من القوم، فساله عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في الغزو والحج والعمرة، فجاء فوقف علينا، فقال: إن هذا سالني عن امر فاردت ان تسمعوه او كما قال غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يصل إلا ركعتين حتى رجع إلى المدينة، وحججت معه، فلم يصل إلا ركعتين حتى رجع إلى المدينة، وشهدت معه الفتح، فاقام بمكة ثمان عشرة لا يصلي إلا ركعتين، ويقول لاهل البلد:" صلوا اربعا فإنا سفر" , واعتمرت معه ثلاث عمر، فلم يصل إلا ركعتين، وحججت مع ابي بكر , وعمر رضي الله تعالى عنهما حجات، فلم يصليا إلا ركعتين حتى رجعا إلى المدينة.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ أخبرنا، عن أَبِي نَضْرَةَ ، قَالَ: مَرَّ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ ، بمَجَلَسْنَا فَقَامَ إِلَيْهِ فَتًى مِنَ الْقَوْمِ، فَسَأَلَهُ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَزْوِ وَالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، فَجَاءَ فَوَقَفَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا سَأَلَنِي عَنْ أَمْرٍ فَأَرَدْتُ أَنْ تَسْمَعُوهُ أَوْ كَمَا قَالَ غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا رَكْعَتَيْنِ حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَحَجَجْتُ مَعَهُ، فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا رَكْعَتَيْنِ حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَشَهِدْتُ مَعَهُ الْفَتْحَ، فَأَقَامَ بِمَكَّةَ ثَمَانِ عَشْرَةَ لَا يُصَلِّي إِلَّا رَكْعَتَيْنِ، وَيَقُولُ لِأَهْلِ الْبَلَدِ:" صَلُّوا أَرْبَعًا فَإِنَّا سَفْرٌ" , وَاعْتَمَرْتُ مَعَهُ ثَلَاثَ عُمَرٍ، فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا رَكْعَتَيْنِ، وَحَجَجْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ , وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا حَجَّاتٍ، فَلَمْ يُصَلِّيَا إِلَّا رَكْعَتَيْنِ حَتَّى رَجَعَا إِلَى الْمَدِينَةِ.
ابونضرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمران رضی اللہ عنہ ہماری مجلس سے گذرے تو ایک نوجوان نے کھڑے ہو کر ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سفر کے متعلق پوچھا تو وہ ہماری مجلس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ یہ نوجوان مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سفر کے متعلق پوچھ رہا ہے، لہذا تم بھی اسے اچھی طرح محفوظ کرلو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی کوئی سفر کیا ہے تو واپسی تک دو دو رکعتیں ہی پڑھی ہیں، حج کے موقع پر بھی واپسی تک اور مکہ مکرمہ میں فتح مکہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھارہ دن تک رہے لیکن لوگوں کو دو دو رکعتیں ہی پڑھاتے رہے، پھر فرما دیتے کہ اہل مکہ! تم لوگ کھڑے ہو کر اگلی دو رکعتیں خود ہی پڑھ لو کیونکہ ہم لوگ مسافر ہیں، میں نے ان کے ساتھ تین مرتبہ عمرہ بھی کیا ہے، اس میں بھی انہوں نے دو دو رکعتیں پڑھیں۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف من أجل على ابن زيد، ولبعضه شواهد
حدیث نمبر: 19872
Save to word اعراب
حدثنا عبد الاعلى ، عن يونس ، عن الحسن ، عن عمران بن حصين :" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان في مسير فعرسوا، فناموا عن صلاة الصبح، فلم يستيقظوا حتى طلعت الشمس، فلما ارتفعت وانبسطت، امر إنسانا فاذن فصلوا الركعتين، فلما حانت الصلاة صلوا" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ :" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي مَسِيرٍ فَعَرَّسُوا، فَنَامُوا عَنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ، فَلَمْ يَسْتَيْقِظُوا حَتَّى طَلَعَتْ الشَّمْسُ، فَلَمَّا ارْتَفَعَتْ وَانْبَسَطَتْ، أَمَرَ إِنْسَانًا فَأَذَّنَ فَصَلَّوْا الرَّكْعَتَيْنِ، فَلَمَّا حَانَتْ الصَّلَاةُ صَلَّوْا" .
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر میں تھے، رات کے وقت ایک مقام پر پڑاؤ کیا، تو فجر کی نماز کے وقت سب لوگ سوتے ہی رہ گئے اور اس وقت بیدار ہوئے جب سورج طلوع ہوچکا تھا، جب سورج خوب بلند ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو حکم دیا، اس نے اذان دی اور لوگوں نے دو سنتیں پڑھیں، پھر انہوں نے فرض نماز ادا کی۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، الحسن البصري لم يسمع من عمران، لكنه توبع

Previous    7    8    9    10    11    12    13    14    15    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.