مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر

مسند احمد
802. حَدِيثُ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
حدیث نمبر: 19863
Save to word اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا ايوب ، عن ابي قلابة ، عن ابي المهلب ، عن عمران بن حصين ، قال: كانت العضباء لرجل من بني عقيل، وكانت من سوابق الحاج، فاسر الرجل، واخذت العضباء معه، قال: فمر به رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في وثاق ورسول الله صلى الله عليه وسلم على حمار عليه قطيفة، فقال: يا محمد، تاخذوني وتاخذون سابقة الحاج؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ناخذك بجريرة حلفائك ثقيف" قال: وقد كانت ثقيف قد اسروا رجلين من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، وقال فيما قال: وإني مسلم , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لو قلتها وانت تملك امرك افلحت كل الفلاح" قال: ومضى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فقال: يا محمد، إني جائع فاطعمني، وإني ظمآن فاسقني، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هذه حاجتك!" ثم فدي بالرجلين، وحبس رسول الله صلى الله عليه وسلم العضباء لرحله , قال: ثم إن المشركين اغاروا على سرح المدينة، فذهبوا بها، وكانت العضباء فيه، قال: واسروا امراة من المسلمين، قال: فكانوا إذا نزلوا اراحوا إبلهم بافنيتهم، قال: فقامت المراة ذات ليلة بعدما ناموا، فجعلت كلما اتت على بعير رغا، حتى اتت على العضباء، فاتت على ناقة ذلول مجرسة فركبتها، ثم وجهتها قبل المدينة، قال: ونذرت إن الله عز وجل انجاها عليها لتنحرنها، فلما قدمت المدينة عرفت الناقة، فقيل: ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فاخبر النبي صلى الله عليه وسلم بنذرها، او اتته فاخبرته، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بئسما جزتها او بئسما جزيتيها إن الله تبارك وتعالى انجاها عليها لتنحرنها" قال: ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا وفاء لنذر في معصية الله، ولا فيما لا يملك ابن آدم" , وقال وهيب: يعني ابن خالد , وكانت ثقيف حلفاء لبني عقيل، وزاد حماد بن سلمة فيه: وكانت العضباء داجنا لا تمنع من حوض ولا نبت , قال عفان: مجرسة معودة.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: كَانَتْ الْعَضْبَاءُ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِي عُقَيْلٍ، وَكَانَتْ مِنْ سَوَابِقِ الْحَاجِّ، فَأُسِرَ الرَّجُلُ، وَأُخِذَتْ الْعَضْبَاءُ مَعَهُ، قَالَ: فَمَرَّ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي وَثَاقٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِمَارٍ عَلَيْهِ قَطِيفَةٌ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، تَأْخُذُونِي وَتَأْخُذُونَ سَابِقَةَ الْحَاجِّ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَأْخُذُكَ بِجَرِيرَةِ حُلَفَائِكَ ثَقِيفَ" قَالَ: وَقَدْ كَانَتْ ثَقِيفُ قَدْ أَسَرُوا رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ فِيمَا قَالَ: وَإِنِّي مُسْلِمٌ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ قُلْتَهَا وَأَنْتَ تَمْلِكُ أَمْرَكَ أَفْلَحْتَ كُلَّ الْفَلَاحِ" قَالَ: وَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِي، وَإِنِّي ظَمْآنُ فَاسْقِنِي، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذِهِ حَاجَتُكَ!" ثُمَّ فُدِيَ بِالرَّجُلَيْنِ، وَحَبَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَضْبَاءَ لِرَحْلِهِ , قَالَ: ثُمَّ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ أَغَارُوا عَلَى سَرْحِ الْمَدِينَةِ، فَذَهَبُوا بِهَا، وَكَانَتْ الْعَضْبَاءُ فِيهِ، قَالَ: وَأَسَرُوا امْرَأَةً مِنَ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: فَكَانُوا إِذَا نَزَلُوا أَرَاحُوا إِبِلَهُمْ بِأَفْنِيَتِهِمْ، قَالَ: فَقَامَتْ الْمَرْأَةُ ذَاتَ لَيْلَةٍ بَعْدَمَا نَامُوا، فَجَعَلَتْ كُلَّمَا أَتَتْ عَلَى بَعِيرٍ رَغَا، حَتَّى أَتَتْ عَلَى الْعَضْبَاءِ، فَأَتَتْ عَلَى نَاقَةٍ ذَلُولٍ مُجَرَّسَةٍ فَرَكِبَتْهَا، ثُمَّ وَجَّهَتْهَا قِبَلَ الْمَدِينَةِ، قَالَ: وَنَذَرَتْ إِنْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْجَاهَا عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، فَلَمَّا قَدِمَتْ الْمَدِينَةَ عُرِفَتْ النَّاقَةُ، فَقِيلَ: نَاقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأُخْبِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَذْرِهَا، أَوْ أَتَتْهُ فَأَخْبَرَتْهُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِئْسَمَا جَزَتْهَا أَوْ بِئْسَمَا جَزَيْتِيهَا إِنْ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنْجَاهَا عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا" قَالَ: ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ" , وقَالَ وُهَيْبٌ: يَعْنِي ابْنَ خَالِدٍ , وَكَانَتْ ثَقِيفُ حُلَفَاءَ لِبَنِي عُقَيْلٍ، وَزَادَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ فِيهِ: وَكَانَتْ الْعَضْبَاءُ دَاجِنًا لَا تُمْنَعُ مِنْ حَوْضٍ وَلَا نَبْتٍ , قَالَ عَفَّانُ: مُجَرَّسَةٌ مُعَوَّدَةٌ.
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عضباء نامی اونٹنی دراصل بنو عقیل میں سے ایک آدمی کی تھی اور حاجیوں کی سواری تھی، وہ شخص گرفتار ہوگیا اور اس کی اونٹنی بھی پکڑ لی گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گذرے تو وہ رسیوں سے بندھا ہوا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار تھے اور ایک چادر اوڑھ رکھی تھی، وہ کہنے لگا اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم کیا تم مجھے اور حاجیوں کی سواری کو بھی پکڑ لوگے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم نے تمہیں تمہارے حلیفوں بنو ثقیف کی جرأت کی وجہ سے پکڑا ہے، کیونکہ بنو ثقیف نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابہ قید کر رکھے تھے، بہرحال! دوران گفتگو وہ کہنے لگا کہ میں تو مسلمان ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نے اس وقت یہ بات کہی ہوتی جب کہ تمہیں اپنے اوپر مکمل اختیار تھا تو فلاح کلی حاصل کرلیتے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھنے لگے تو وہ کہنے لگا کہ اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم میں بھوکا ہوں، مجھے کھانا کھلائیے، پیاسا ہوں، پانی پلائیے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تمہاری ضرورت ہے (جو ہم پوری کریں گے) پھر ان دو صحابیوں کے فدئیے میں اس شخص کو دے دیا اور عضباء کو اپنی سواری کے لئے رکھ لیا، کچھ ہی عرصے بعد مشرکین نے مدینہ منورہ کی چراگاہ پر شب خون مارا اور وہاں کے جانور اپنے ساتھ لے گئے انہی میں عضباء بھی شامل تھی۔ نیز انہوں نے ایک مسلمان عورت کو بھی قید کرلیا، ایک دن اس عورت نے لوگوں کو غافل دیکھا تو چپکے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر سوار ہوئی اور یہ منت مان لی کہ اگر صحیح سلامت مدینہ پہنچ گئی تو اسی اونٹنی کو ذبح کر دے گی، بہرحال! وہ مدینہ منورہ پہنچ گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کو ذبح کرنا چاہا لیکن لوگوں نے اسے اس سے منع کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کردیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اسے برا بدلہ دیا، پھر فرمایا ابن آدم جس چیز کا مالک نہ ہو، اس میں نذر نہیں ہوئی اور نہ ہی اللہ کی معصیت میں منت ہوتی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1641


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.