حدثنا يزيد ، اخبرنا هشام ، عن محمد ، قال: حدثتنا امراة كانت تاتينا يقال لها: ماوية ، كانت ترزا في ولدها، واتيت عبيد الله بن معمر القرشي، ومعه رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فحدث ذلك الرجل ان امراة اتت النبي صلى الله عليه وسلم بابن لها، فقالت: يا رسول الله، ادع الله ان يبقيه لي، فقد مات لي قبله ثلاثة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" امنذ اسلمت؟" فقالت: نعم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " جنة حصينة"، قالت ماوية: قال لي عبيد الله بن معمر: اسمعي يا ماوية، قال محمد: فخرجت من عند ابن معمر، فاتتنا فحدثتنا هذا الحديث .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَتْنَا امْرَأَةٌ كَانَتْ تَأْتِينَا يُقَالُ لَهَا: مَاوِيَّةُ ، كَانَتْ تُرْزَأُ فِي وَلَدِهَا، وَأَتَيْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ مَعْمَرٍ الْقُرَشِيَّ، وَمَعَهُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَدَّثَ ذَلِكَ الرَّجُلُ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِابْنٍ لَهَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُبْقِيَهُ لِي، فَقَدْ مَاتَ لِي قَبْلَهُ ثَلَاثَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمُنْذُ أَسْلَمْتِ؟" فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " جُنَّةٌ حَصِينَةٌ"، قَالَتْ مَاوِيَّةُ: قَالَ لِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مَعْمَرٍ: اسْمَعِي يَا مَاوِيَّةُ، قَالَ مُحَمَّدٌ: فَخَرَجَتْ مِنْ عِنْدِ ابْنِ مَعْمَرٍ، فَأَتَتْنَا فَحَدَّثَتْنَا هَذَا الْحَدِيثَ .
محمد کہتے ہیں کہ، ماویہ، نام کی ایک خاتون تھی جس کے بچے زندہ نہیں رہتے تھے ایک مرتبہ میں عبیداللہ بن معمر کے پاس آیا وہاں ایک صحابی بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے فرمایا کہ ایک عورت اپنے ایک بچے کے ساتھ آئی اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ اس بچے کے متعلق اللہ سے برکت کی دعا کردیجیے کیونکہ اس سے پہلے میرے تین بچے فوت ہوچکے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد اب تک؟ اس نے کہا جی ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (یہ تمہارے حق میں) بڑی مضبوط ڈھال ہے۔ ماویہ کہتی ہیں کہ مجھ سے عبیداللہ بن معمر سے فرمایا کہ سن لو پھر وہ وہاں سے نکلے اور ہمارے پاس آکر ہم سے یہ حدیث بیان کی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، ماوية المراءة لا تعرف، ويزيد قد خالفه فى هذا الإسناد عبدالرزاق
حضرت بشیر بن خصاصیہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو قبرستان میں جوتیاں پہن کر چلتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ اے سبتی جوتیوں والے انہیں اتار دو۔
حدثنا حدثنا بهز ، وعفان ، قالا: حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا ايوب ، عن رجل من بني سدوس يقال له: ديسم ، قال: قلنا لبشير بن الخصاصية ، قال: وما كان اسمه بشيرا، فسماه رسول الله صلى الله عليه وسلم بشيرا إن لنا جيرة من بني تميم، لا تشد لنا قاصية إلا ذهبوا بها، وإنها تخفي لنا من اموالهم اشياء، افناخذها؟ قال:" لا" ..حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي سَدُوسٍ يُقَالُ لَهُ: دَيْسَمٌ ، قَالَ: قُلْنَا لِبَشِيرِ بْنِ الْخَصَاصِيَةِ ، قَالَ: وَمَا كَانَ اسْمُهُ بَشِيرًا، فَسَمَّاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشِيرًا إِنَّ لَنَا جِيرَةً مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، لَا تَشُدُّ لَنَا قَاصِيَةٌ إِلَّا ذَهَبُوا بِهَا، وَإِنَّهَا تَخْفِي لَنَا مِنْ أَمْوَالِهِمْ أَشْيَاءُ، أَفَنَأْخُذُهَا؟ قَالَ:" لَا" ..
بنوسدوس کے ایک آدمی دیسم کا کہنا ہے کہ ہم نے حضرت بشیر بن خصاصیہ جن کا اصل نام بشیر نہیں تھا ان کا یہ نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا سے پوچھا کہ ہمارے کچھ بنوتمیم کے ہمسایہ ہیں ہماری جو بکری بھی ریوڑ سے جدا ہوتی ہے وہ اسے پکڑ کرلے جاتے ہیں بعض اوقات ان کے مال میں سے کچھ ان کی نظروں سے چھپ کر ہمارے پاس آجاتا ہے تو کیا ہم بھی اس کو پکڑ سکتے ہیں انہوں نے کہا نہیں۔
حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا اسود بن شيبان ، عن خالد بن سمير ، عن بشير بن نهيك ، عن بشير ابن الخصاصية ، بشير رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال كنت اماشي رسول الله صلى الله عليه وسلم آخذا بيده، فقال لي:" يا ابن الخصاصية، ما اصبحت تنقم على الله؟! اصبحت تماشي رسوله"، قال: احسبه قال: آخذا بيده، قال: قلت: ما اصبحت انقم على الله شيئا، قد اعطاني الله كل خير، قال: فاتينا على قبور المشركين، فقال:" لقد سبق هؤلاء خيرا كثيرا" ثلاث مرات، ثم اتينا على قبور المسلمين، فقال:" لقد ادرك هؤلاء خيرا كثيرا" ثلاث مرات يقولها، قال فبصر برجل يمشي بين المقابر في نعليه، فقال" ويحك يا صاحب السبتيتين، الق سبتيتك" مرتين او ثلاثا، فنظر الرجل، فلما راى رسول الله صلى الله عليه وسلم، خلع نعليه ..حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا أَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سُمَيْرٍ ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ ، عَنْ بَشِيرِ ابْنِ الْخَصَاصِيَةِ ، بَشِيرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ كُنْتُ أُمَاشِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخِذًا بِيَدِهِ، فَقَالَ لِي:" يَا ابْنَ الْخَصَاصِيَةِ، مَا أَصْبَحْتَ تَنْقِمُ عَلَى اللَّهِ؟! أَصْبَحْتَ تُمَاشِي رَسُولَهُ"، قَالَ: أَحْسَبُهُ قَالَ: آخِذًا بِيَدِهِ، قَالَ: قُلْتُ: مَا أَصْبَحْتُ أَنْقِمُ عَلَى اللَّهِ شَيْئًا، قَدْ أَعْطَانِي اللَّهُ كُلَّ خَيْرٍ، قَالَ: فَأَتَيْنَا عَلَى قُبُورِ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَ:" لَقَدْ سَبَقَ هَؤُلَاءِ خَيْرًا كَثِيرًا" ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَتَيْنَا عَلَى قُبُورِ الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ:" لَقَدْ أَدْرَكَ هَؤُلَاءِ خَيْرًا كَثِيرًا" ثَلَاثَ مَرَّاتٍ يَقُولُهَا، قَالَ فَبَصُرَ بِرَجُلٍ يَمْشِي بَيْنَ الْمَقَابِرِ فِي نَعْلَيْهِ، فَقَالَ" وَيْحَكَ يَا صَاحِبَ السِّبْتِيَّتَيْنِ، أَلْقِ سِبْتِيَّتَكَ" مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، فَنَظَرَ الرَّجُلُ، فَلَمَّا رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، خَلَعَ نَعْلَيْهِ ..
حضرت بشیر سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک تھام کر چل رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابن خصاصیہ تم نے اس حال میں صبح نہیں کی کہ تم اللہ سے ناراض ہو تم نے اس حال میں صبح کی ہے کہ تم اللہ کے پیغمبر کے ساتھ چل رہے ہو میں نے عرض کیا واقع ہی میں نے اس حال میں صبح نہیں کی کہ میں اللہ سے ناراض ہوں کیونکہ اللہ نے مجھے ہر خیر عطا فرما رکھی ہے پھر ہم لوگ مشرکین کی قبروں کے پاس پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا ان لوگوں سے بہت ساری خیر آج بڑھ گئی تو پھر مسلمانوں کی قبروں کے پاس پہنچے تو تین مرتبہ فرمایا کہ ان لوگوں نے بہت ساری خیر حاصل کرلی اسی دوران آپ کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو قبروں کے درمیان جوتیاں پہنے چل رہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بھائی سبتی جوتیوں والے اپنی جوتیاں اتاردو دو تین مرتبہ فرمایا کہ اس آدمی نے مڑ کر دیکھا جونہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نظریں پڑیں تو اس نے اپنی جوتیاں اتار دیں۔ حضرت بشیر جن کا زمانہ جاہلیت میں نام زحم بن معبد تھا جب انہوں نے ہجرت کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ان کا نام پوچھا انہوں نے فرمایا کہ زحم۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں تمہارا نام بشیر ہے سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک تھام کر چل رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابن خصاصیہ تم نے اس حال میں صبح نہیں کی کہ تم اللہ سے ناراض ہو تم نے اس حال میں صبح کی ہے کہ تم اللہ کے پیغمبر کے ساتھ چل رہے ہو میں نے عرض کیا واقعی میں نے اس حال میں صبح نہیں کی کہ میں اللہ سے ناراض ہوں کیونکہ اللہ نے مجھے ہر خیر عطا فرما رکھی ہے پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی ارے بھائی سبتی جوتیوں والے اپنی جوتیاں اتار دو۔
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا الاسود ، حدثنا خالد بن سمير ، حدثنا بشير بن نهيك ، قال: حدثني بشير ، رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان اسمه في الجاهلية زحم بن معبد، فهاجر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فساله:" ما اسمك؟" قال: زحم، قال:" لا، بل انت بشير"، فكان اسمه، قال: بينا انا اماشي رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذ قال:" يا ابن الخصاصية، ما اصبحت تنقم على الله؟! اصبحت تماشي رسول الله" قال ابو شيبان: وهو الاسود بن شيبان احسبه قال:" آخذا بيده"، فقلت: يا رسول الله، بابي انت وامي، ما انقم على الله شيئا، فذكر الحديث، وقال:" يا صاحب السبتيتين الق سبتيتك".حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا بَشِيرُ بْنُ نَهِيكٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي بَشِيرُ ، رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ اسْمُهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ زَحْمَ بْنَ مَعْبَدٍ، فَهَاجَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ:" مَا اسْمُكَ؟" قَالَ: زَحْمٌ، قَالَ:" لَا، بَلْ أَنْتَ بَشِيرٌ"، فَكَانَ اسْمَهُ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا أُمَاشِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ قَالَ:" يَا ابْنَ الْخَصَاصِيَةِ، مَا أَصْبَحْتَ تَنْقِمُ عَلَى اللَّهِ؟! أَصْبَحْتَ تُمَاشِي رَسُولَ اللَّهِ" قَالَ أَبُو شَيْبَانَ: وَهُوَ الْأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ أَحْسَبُهُ قَالَ:" آخِذًا بِيَدِهِ"، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، مَا أَنْقِمُ عَلَى اللَّهِ شَيْئًا، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ:" يَا صَاحِبَ السِّبْتِيَّتَيْنِ أَلْقِ سِبْتِيَّتَكَ".
حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن حفصة بنت سيرين ، قالت: كنا نمنع عواتقنا ان يخرجن، فقدمت امراة، فنزلت قصر بني خلف، فحدثت، ان اختها كانت تحت رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قد غزا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم اثنتي عشرة غزوة، قالت: اختي غزوت معه ست غزوات، قالت: كنا نداوي الكلمى، ونقوم على المرضى، فسالت اختي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: هل على إحدانا باس إن لم يكن لها جلباب ان لا تخرج؟ فقال:" لتلبسها صاحبتها من جلبابها، ولتشهد الخير ودعوة المؤمنين"، قالت: فلما قدمت ام عطية فسالتها، او سالناها هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول كذا وكذا؟ قالت: وكانت لا تذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم ابدا إلا قالت بيبا، فقالت: نعم، بيبا، قال: " لتخرج العواتق ذوات الخدور"، او قالت" العواتق وذوات الخدور، والحيض فيشهدن الخير، ودعوة المؤمنين، ويعتزلن الحيض المصلى"، فقلت لام عطية: الحائض؟! فقالت: اوليس يشهدن عرفة وتشهد كذا وتشهد كذا؟! .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ ، قَالَتْ: كُنَّا نَمْنَعُ عَوَاتِقَنَا أَنْ يَخْرُجْنَ، فَقَدِمَتْ امْرَأَةٌ، فَنَزَلَتْ قَصْرَ بَنِي خَلَفٍ، فَحَدَّثَتْ، أَنَّ أُخْتَهَا كَانَتْ تَحْتَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ غَزْوَةً، قَالَتْ: أُخْتِي غَزَوْتُ مَعَهُ سِتَّ غَزَوَاتٍ، قَالَتْ: كُنَّا نُدَاوِي الْكَلْمَى، وَنَقُومُ عَلَى الْمَرْضَى، فَسَأَلَتْ أُخْتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: هَلْ عَلَى إِحْدَانَا بَأْسٌ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا جِلْبَابٌ أَنْ لَا تَخْرُجَ؟ فَقَالَ:" لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا، وَلْتَشْهَدِ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُؤْمِنِينَ"، قَالَتْ: فَلَمَّا قَدِمَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ فَسَأَلْتُهَا، أَوْ سَأَلْنَاهَا هَلْ سَمِعْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا؟ قَالَتْ: وَكَانَتْ لَا تَذْكُرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَدًا إِلَّا قَالَتْ بِيَبَا، فَقَالَتْ: نَعَمْ، بِيَبَا، قَالَ: " لِتَخْرُجِ الْعَوَاتِقُ ذَوَاتُ الْخُدُورِ"، أَوْ قَالَتْ" الْعَوَاتِقُ وَذَوَاتُ الْخُدُورِ، وَالْحُيَّضُ فَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ، وَدَعْوَةَ الْمُؤْمِنِينَ، وَيَعْتَزِلْنَ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى"، فَقُلْتُ لِأُمِّ عَطِيَّةَ: الْحَائِضُ؟! فَقَالَتْ: أَوَلَيْسَ يَشْهَدْنَ عَرَفَةَ وَتَشْهَدُ كَذَا وَتَشْهَدُ كَذَا؟! .
حفصہ بنت سیرین کہتی ہیں کہ ہم اپنی نوجوان لڑکیوں کو باہر نکلنے سے روکتے تھے اسی زمانہ میں ایک عورت آئی اور قصر بن خلف میں قیام پذیر ہوئی اس نے بتایا کہ اس کی بہن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کے نکاح میں تھی جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ غزوات میں حصہ لیا تھا جن میں سے میری بہن کہتی ہے میں نے بھی حصہ لیا ہے میری بہن کا کہنا ہے کہ ہم لوگ زخمیوں کا علاج کرتیں تھیں اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتیں تھیں پھر ایک مرتبہ میری بہن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا کہ کیا اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو اور وہ نماز عید کے لئے نہ نکل سکے تو کیا اس پر کوئی گناہ ہوگا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی سہیلی کو چاہئے کہ اسے اپنی چادر میں شریک کرلے اور وہ بھی خیر اور مسلمانوں کی دعاء کے موقع پر حاضرہو۔ حفصہ بنت سیرین کہتی ہیں پھر جب حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہ آئیں تو ہم نے ان سے پوچھا تو آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ جب بھی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتیں تو یوں ضرورکہتیں میر اباپ ان پر قربان ہو چنانچہ انہوں نے اب بھی فرمایا جی ہاں میر اباپ ان پر قربان ہو انہوں نے فرمایا نوجوان پردہ نشین لڑکیوں اور ایام والی عورتوں کو بھی نماز کے لئے نکلنا چاہئے تاکہ وہ خیر اور مسلمانوں کی دعا کے موقع پر شریک ہوسکیں البتہ ایام والی عورتیں نمازیوں کی صفوں سے دور رہیں میں نے حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہ سے ایام والی عورت کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ کیا یہ عورتیں عرفات میں نہیں جاتیں اور فلاں فلاں موقع پر حاضر نہیں ہوتیں۔
حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن محمد ، عن ام عطية ، قالت: اتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نغسل ابنته عليها السلام، فقال: " اغسلنها ثلاثا، او خمسا، او اكثر من ذلك، إن رايتن ذلك، بماء وسدر، واجعلن في الآخرة كافورا او شيئا من كافور فإذا فرغتن فآذنني"، قالت: فلما فرغنا آذناه، فالقى إلينا حقوه، وقال:" اشعرنها إياه" ، قال: وقالت حفصة قال:" اغسلنها وترا ثلاثا او خمسا او سبعا"، قال: وقالت ام عطية: مشطناها ثلاثة قرون.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ ، قَالَتْ: أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَغْسِلُ ابْنَتَهُ عَلَيْهَا السَّلَام، فَقَالَ: " اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا، أَوْ خَمْسًا، أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، إِنْ رَأَيْتُنَّ ذَلِكَ، بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي"، قَالَتْ: فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ، فَأَلْقَى إِلَيْنَا حِقْوَهُ، وَقَالَ:" أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ" ، قَالَ: وَقَالَتْ حَفْصَةُ قَالَ:" اغْسِلْنَهَا وِتْرًا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ سَبْعًا"، قَالَ: وَقَالَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ: مَشَطْنَاهَا ثَلَاثَةَ قُرُونٍ.
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب کو غسل دے رہی تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا اسے تین یا اس سے زیادہ طاق عدد میں غسل دو اگر مناسب سمجھو تو پانی میں بیری کے پتے ملادو اور سب سے آخر میں اس پر کافور لگا دینا۔ اور جب ان چیزوں سے فارغ ہوجاؤ تو مجھے بتادینا چنانچہ ہم نے فارغ ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع کردی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تہبند ہماری طرف پھینک کر فرمایا کہ اس کے جسم پر سر سے پہلے لپیٹ دو ام عطیہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ ہم نے حضرت زینب کے بالوں میں کنگھی کرکے تین چوٹیاں بنادیں۔
حدثنا محمد بن جعفر ، اخبرنا هشام ، عن حفصة ، عن ام عطية ، قالت: كان فيما اخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم علينا عند البيعة ان " لا تنحن" فما وفت منا غير خمس نسوة .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ حَفْصَةَ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ ، قَالَتْ: كَانَ فِيمَا أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا عِنْدَ الْبَيْعَةِ أَنْ " لَا تَنُحْنَ" فَمَا وَفَتْ مِنَّا غَيْرُ خَمْسِ نِسْوَةٍ .
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیعت لیتے وقت جو شرائط لگائی تھیں ان میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ تم نوحہ نہیں کروگی لیکن پانچ عورتوں کے علاوہ ہم میں سے کسی نے اس وعدے کو وفا نہیں کیا۔
حدثنا حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا هشام ، عن حفصة ، عن ام عطية ، قالت: " غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم سبع غزوات، اخلفهم في رحالهم، واصنع لهم الطعام، واقوم على مرضاهم، واداوي جرحاهم" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ حَفْصَةَ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ ، قَالَتْ: " غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ، أَخْلُفُهُمْ فِي رِحَالِهِمْ، وَأَصْنَعُ لَهُمْ الطَّعَامَ، وَأَقُومُ عَلَى مَرْضَاهُمْ، وَأُدَاوِي جَرْحَاهُمْ" .
حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سات غزاوت میں حصہ لیا ہے اور میں خیموں میں رہ کر مجاہدین کے لئے کھانا تیار کرتی تھی اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں اور زخمیوں کا علاج کرتی تھی۔