قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنما سمي القلب من تقلبه، إنما مثل القلب كمثل ريشة معلقة في اصل شجرة، يقلبها الريح ظهرا لبطن" .قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا سُمِّيَ الْقَلْبُ مِنْ تَقَلُّبِهِ، إِنَّمَا مَثَلُ الْقَلْبِ كَمَثَلِ رِيشَةٍ مُعَلَّقَةٍ فِي أَصْلِ شَجَرَةٍ، يُقَلِّبُهَا الرِّيحُ ظَهْرًا لِبَطْنٍ" .
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قلب کو قلب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ پلٹتا رہتا ہے اور دل کی مثال تو اس پر کی سی ہے جو کسی درخت کی جڑ میں پڑا ہو اور ہوا اسے الٹ پلٹ کرتی رہتی ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى كبشة، وقد اختلف فيه على عاصم الأحول
قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن بين ايديكم فتنا، كقطع الليل المظلم، يصبح الرجل فيها مؤمنا، ويمسي كافرا، ويمسي مؤمنا، ويصبح كافرا، القاعد فيها خير من القائم، والقائم فيها خير من الماشي، والماشي فيها خير من الساعي"، قالوا: فما تامرنا؟ قال:" كونوا احلاس بيوتكم" .قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ فِتَنًا، كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا، وَيُمْسِي كَافِرًا، وَيُمْسِي مُؤْمِنًا، وَيُصْبِحُ كَافِرًا، الْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي، وَالْمَاشِي فِيهَا خَيْرٌ مِنَ السَّاعِي"، قَالُوا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ:" كُونُوا أَحْلَاسَ بُيُوتِكُمْ" .
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے آگے تاریک رات کے حصوں کی طرح فتنے آرہے ہیں اس زمانے میں ایک آدمی صبح کو مسلمان اور شام کو کافر ہوگا یا شام کو مسلمان اور صبح کو کافر ہوگا، اس زمانے میں بیٹھا ہوا شخص کھڑے ہوئے سے، کھڑا ہوا چلنے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا پھر آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے گھر کا ٹاٹ بن جانا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، راجع ما قبله
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فتنوں کے زمانے میں اپنی کمانیں توڑ دینا تانتیں کاٹ دینا اپنے گھروں کے ساتھ چمٹ جانا اور حضرت آدم کے بہترین بیٹے (ہابیل) کی طرح ہوجانا۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا شعبة ، عن قتادة ، عن انس ، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " مثل المؤمن الذي يقرا القرآن مثل الاترجة، طعمها طيب، وريحها طيب، ومثل المؤمن الذي لا يقرا القرآن مثل التمرة، طعمها طيب، ولا ريح لها، ومثل المنافق الذي يقرا القرآن كمثل الريحانة، طيب ريحها، ولا طعم لها"، وقال يحيى مرة:" طعمها مر، ومثل المنافق الذي لا يقرا القرآن مثل الحنظلة، لا ريح لها، وطعمها خبيث" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَن قَتَادَةَ ، عَن أَنَسٍ ، عَن أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ الْأُتْرُجَّةِ، طَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَرِيحُهَا طَيِّبٌ، وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ التَّمْرَةِ، طَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَلَا رِيحَ لَهَا، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ، طَيِّبٌ رِيحُهَا، وَلَا طَعْمَ لَهَا"، وَقَالَ يَحْيَى مَرَّةً:" طَعْمُهَا مُرٌّ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ الْحَنْظَلَةِ، لَا رِيحَ لَهَا، وَطَعْمُهَا خَبِيثٌ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس مسلمان کی مثال جو قرآن کریم پڑھتا ہے اترج کی سی ہے جس کا ذائقہ بھی عمدہ ہوتا ہے اور اس کی مہک بھی عمدہ ہوتی ہے، اس مسلمان کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور کی سی ہے جس کا ذائقہ تو عمدہ ہوتا ہے لیکن اس کی مہک نہیں ہوتی، اس گنہگار کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے ریحان کی سی ہے جس کا ذائقہ تو کڑوا ہوتا ہے لیکن مہک عمدہ ہوتی ہے۔ اور اس فاجر کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اندرائن کی سی ہے جس کا ذائقہ بھی کڑوا ہوتا ہے اور اس کی مہک بھی نہیں ہوتی۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا هشام ، قال: حدثنا قتادة ، عن يونس بن جبير ، عن حطان بن عبد الله الرقاشي : ان الاشعري صلى باصحابه صلاة، فقال رجل من القوم حين جلس في صلاته: اقرت الصلاة بالبر والزكاة، فلما قضى الاشعري صلاته، اقبل على القوم، فقال: ايكم القائل كلمة كذا وكذا؟ فارم القوم قال ابو عبد الرحمن: قال ابي: ارم: السكوت قال: لعلك يا حطان قلتها لحطان بن عبد الله قال: والله إن قلتها، ولقد رهبت ان تبعكني بها، قال رجل من القوم: انا قلتها، وما اردت بها إلا الخير، فقال الاشعري : الا تعلمون ما تقولون في صلاتكم؟ فإن نبي الله صلى الله عليه وسلم خطبنا، فعلمنا سنتنا، وبين لنا صلاتنا، فقال: " اقيموا صفوفكم، ثم ليؤمكم اقرؤكم، فإذا كبر فكبروا، وإذا قال: ولا الضالين سورة الفاتحة آية 7، فقولوا: آمين، يجبكم الله، فإذا كبر الإمام، وركع، فكبروا واركعوا، فإن الإمام يركع قبلكم، ويرفع قبلكم، قال نبي الله صلى الله عليه وسلم:" فتلك بتلك، فإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: اللهم ربنا لك الحمد، يسمع الله لكم، فإن الله عز وجل قال على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم: سمع الله لمن حمده، وإذا كبر الإمام وسجد، فكبروا واسجدوا، فإن الإمام يسجد قبلكم، ويرفع قبلكم"، قال نبي الله صلى الله عليه وسلم:" فتلك بتلك، فإذا كان عند القعدة، فليكن من اول قول احدكم ان يقول: التحيات الطيبات الصلوات لله، السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، اشهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا عبده ورسوله" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَن يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَن حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ : أَنَّ الْأَشْعَرِيَّ صَلَّى بِأَصْحَابِهِ صَلَاةً، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ حِينَ جَلَسَ فِي صَلَاتِهِ: أَقَرَّتْ الصَّلَاةُ بِالْبِرِّ وَالزَّكَاةِ، فَلَمَّا قَضَى الْأَشْعَرِيُّ صَلَاتَهُ، أَقْبَلَ عَلَى الْقَوْمِ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ الْقَائِلُ كَلِمَةَ كَذَا وَكَذَا؟ فَأَرَمَّ الْقَوْمُ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: قَالَ أَبِي: أَرَمَّ: السُّكُوتُ قَالَ: لَعَلَّكَ يَا حِطَّانُ قُلْتَهَا لِحِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: وَاللَّهِ إِنْ قُلْتُهَا، وَلَقَدْ رَهِبْتُ أَنْ تَبْعَكَنِي بِهَا، قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَنَا قُلْتُهَا، وَمَا أَرَدْتُ بِهَا إِلَّا الْخَيْرَ، فَقَالَ الْأَشْعَرِيُّ : أَلَا تَعْلَمُونَ مَا تَقُولُونَ فِي صَلَاتِكُمْ؟ فَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَنَا، فَعَلَّمَنَا سُنَّتَنَا، وَبَيَّنَ لَنَا صَلَاتَنَا، فَقَالَ: " أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ، ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمْ أَقْرَؤُكُمْ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَالَ: وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، فَقُولُوا: آمِينَ، يُجِبْكُمْ اللَّهُ، فَإِذَا كَبَّرَ الْإِمَامُ، وَرَكَعَ، فَكَبِّرُوا وَارْكَعُوا، فَإِنَّ الْإِمَامَ يَرْكَعُ قَبْلَكُمْ، وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ، قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَتِلْكَ بِتِلْكَ، فَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، يَسْمَعْ اللَّهُ لَكُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، وَإِذَا كَبَّرَ الْإِمَامُ وَسَجَدَ، فَكَبِّرُوا وَاسْجُدُوا، فَإِنَّ الْإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ، وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ"، قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَتِلْكَ بِتِلْكَ، فَإِذَا كَانَ عِنْدَ الْقَعْدَةِ، فَلْيَكُنْ مِنْ أَوَّلِ قَوْلِ أَحَدِكُمْ أَنْ يَقُولَ: التَّحِيَّاتُ الطَّيِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ" .
حطان بن عبداللہ کہتے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی، دوران نماز جب " جلسے " میں بیٹھے تو ایک کہنے لگا کہ نماز کو نیکی اور زکوٰۃ سے قرار دیا گیا ہے نماز سے فارغ ہو کر حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا کہ تم میں سے کس نے یہ کلمہ کہا ہے؟ لوگ خاموش رہے انہوں نے حطان سے کہا کہ حطان! شاید تم نے یہ جملہ کہا ہے؟ حطان نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نے یہ جملہ نہیں کہا اور میں اسی سے ڈررہا تھا کہ کہیں آپ مجھے بیوقوف نہ قرار دے دیں، پھر ایک آدمی بولا کہ میں نے ہی جملہ کہا ہے اور صرف خیرہی کی نیت سے کہا ہے۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ نماز میں کیا پڑھنا چاہئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیں ایک مرتبہ خطبہ دیا تھا اور اس میں ہمارے سامنے سنتیں اور نماز کا طریقہ واضح کردیا تھا اور فرمایا تھا صفیں سیدھی رکھا کرو پھر جو زیادہ قرآن پڑھا ہوا ہو وہ امام کرائے جب وہ تکبیر کہیں تو تم بھی تکبیر کہو، جب وہ ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو، اللہ تمہاری پکار کو قبول کرے گا جب وہ تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے تو تم بھی تکبیر کہہ کر رکوع کرو کیونکہ امام تم سے پہلے رکوع کرے گا اور تم سے پہلے سر اٹھائے گا یہ تو برابر برابر ہوگیا۔ جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنالک الحمد کہو اللہ تمہاری پکار کیونکہ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ فرمایا ہے کہ جو اللہ کی تعریف کرتا ہے اللہ اس کی سن لیتا ہے جب وہ تکبیر کہہ کر سجدے میں جائے تو تم بھی تکبیر کہہ کر سجدہ کرو کیونکہ امام تم سے پہلے سجدہ کرے گا اور سر اٹھائے گا اور یہ بھی برابر برابر ہوگیا۔ جب وہ قعدے میں بیٹھے تو سب سے پہلے تمہیں یوں کہنا چاہئے التحیات الطیبات الصلوات للہ السلام علیک ایہا النبی ورحمتہ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین اشہدان لا الہ الا اللہ واشہدان محمدا عبدہ ورسولہ۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا قرة بن خالد ، حدثنا حميد بن هلال ، حدثنا ابو بردة ، قال: قال ابو موسى الاشعري : اقبلت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، ومعي رجلان من الاشعريين، احدهما عن يميني، والآخر عن يساري، فكلاهما سال العمل، والنبي صلى الله عليه وسلم يستاك، قال:" ما تقول يا ابا موسى، او: يا عبد الله بن قيس؟"، قال: قلت: والذي بعثك بالحق، ما اطلعاني على ما في انفسهما، وما شعرت انهما يطلبان العمل، قال: فكاني انظر إلى سواكه تحت شفته، قلصت، قال:" إني، او: لا نستعمل على عملنا من اراده، ولكن اذهب انت يا ابا موسى، او: يا عبد الله بن قيس"، فبعثه على اليمن، ثم اتبعه معاذ بن جبل، فلما قدم عليه، قال: انزل، والقى له وسادة، فإذا رجل عنده موثق، قال:" ما هذا؟" قال: كان يهوديا، فاسلم، ثم راجع دينه دين السوء، فتهود، قال: لا اجلس حتى يقتل، قضاء الله ورسوله، ثلاث مرار، فامر به، فقتل ، ثم تذاكرنا قيام الليل، فقال معاذ بن جبل: اما انا فانام واقوم، او: اقوم وانام، وارجو في نومتي ما ارجو في قومتي.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ : أَقْبَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعِي رَجُلَانِ مِنَ الْأَشْعَرِيِّينَ، أَحَدُهُمَا عَنْ يَمِينِي، وَالْآخَرُ عَنْ يَسَارِي، فَكِلَاهُمَا سَأَلَ الْعَمَلَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَاكُ، قَالَ:" مَا تَقُولُ يَا أَبَا مُوسَى، أَوْ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ؟"، قَالَ: قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، مَا أَطْلَعَانِي عَلَى مَا فِي أَنْفُسِهِمَا، وَمَا شَعُرْتُ أَنَّهُمَا يَطْلُبَانِ الْعَمَلَ، قَالَ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى سِوَاكِهِ تَحْتَ شَفَتِهِ، قَلَصَتْ، قَالَ:" إِنِّي، أَوْ: لَا نَسْتَعْمِلُ عَلَى عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَهُ، وَلَكِنْ اذْهَبْ أَنْتَ يَا أَبَا مُوسَى، أَوْ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ"، فَبَعَثَهُ عَلَى الْيَمَنِ، ثُمَّ أَتْبَعَهُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، فَلَمَّا قَدِمَ عَلَيْهِ، قَالَ: انْزِلْ، وَأَلْقَى لَهُ وِسَادَةً، فَإِذَا رَجُلٌ عِنْدَهُ مُوثَقٌ، قَالَ:" مَا هَذَا؟" قَالَ: كَانَ يَهُودِيًّا، فَأَسْلَمَ، ثُمَّ رَاجَعَ دِينَهُ دِينَ السَّوْءِ، فَتَهَوَّدَ، قَالَ: لَا أَجْلِسُ حَتَّى يُقْتَلَ، قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثَلَاثَ مِرَارٍ، فَأَمَرَ بِهِ، فَقُتِلَ ، ثُمَّ تَذَاكَرْنَا قِيَامَ اللَّيْلِ، فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: أَمَّا أَنَا فَأَنَامُ وَأَقُومُ، أَوْ: أَقُومُ وَأَنَامُ، وَأَرْجُو فِي نَوْمَتِي مَا أَرْجُو فِي قَوْمَتِي.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں اشعریین کے آدمی بھی تھے جن میں سے ایک میری دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب تھا اس قوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک فرما رہے تھے ان دونوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی عہدہ مانگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ابوموسیٰ! تم کیا کہتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ان دونوں نے مجھے اپنے اس خیال سے آگاہ نہیں کیا تھا اور نہ میں ہی سمجھتا تھا کہ یہ لوگ کسی عہدے کی درخواست کرنے والے ہیں وہ منظر اس وقت بھی میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسواک ہونٹ کے نیچے آگئی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم کسی ایسے شخص کو کوئی عہدہ نہیں دیتے جو ہم سے اس کا مطالبہ کرتا ہے البتہ اے ابوموسیٰ! تم جاؤ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن بھیج دیا پھر ان کے پیچھے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو روانہ کردیا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ جب وہاں پہنچے تو حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا تشریف لائیے اور ان کے لئے تکیہ رکھا وہاں! ایک آدمی رسیوں سے بندھا ہوا نظر آیا تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس کا کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ ایک یہودی تھا اس نے اسلام قبول کرلیا بعد میں اپنے ناپسندیدہ دین کی طرف لوٹ گیا اور دوبارہ یہودی ہوگیا، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو اس وقت نہیں بیٹھوں گا جب تک اسے قتل نہیں کردیا جاتا، یہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ ہے (یہ بات تین مرتبہ کہی) چناچہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا اور اسے قتل کردیا گیا، پھر ہم قیام اللیل کی باتیں کرنے لگے تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو سوتا بھی ہوں اور قیام بھی کرتا ہوں، قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور اپنی نیند میں بھی اتنے ہی ثواب کی امید رکھتا ہوں جتنے ثواب کی امید قیام پر رکھتا ہوں۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن سفيان ، حدثني ابو بردة بن عبد الله بن ابي بردة ، عن جده ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا جاءه السائل او ذو الحاجة، قال: " اشفعوا تؤجروا، وليقض الله عز وجل على لسان رسوله ما شاء" . وقال: " المؤمن للمؤمن كالبنيان، يشد بعضه بعضا" . وقال: " الخازن الامين الذي يؤدي ما امر به طيبة به نفسه، احد المتصدقين" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَن سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَن جَدِّهِ ، عَن أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَاءَهُ السَّائِلُ أَوْ ذُو الْحَاجَةِ، قَالَ: " اشْفَعُوا تُؤْجَرُوا، وَلْيَقْضِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى لِسَانِ رَسُولِهِ مَا شَاءَ" . وَقَالَ: " الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ، يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا" . وَقَالَ: " الْخَازِنُ الْأَمِينُ الَّذِي يُؤَدِّي مَا أُمِرَ بِهِ طَيِّبَةً بِهِ نَفْسُهُ، أَحَدُ الْمُتَصَدِّقِينَ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی سائل آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں فرماتے تم اس کی سفارش کرو تمہیں اجر ملے گا اور اللہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر وہی فیصلہ جاری فرمائے گا جو اسے محبوب ہوگا۔ اور فرمایا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہوتا ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔ اور امانت دارخزانچی وہ ہوتا ہے کہ اسے جس چیز کا حکم دیا جائے وہ اسے مکمل، پورا اور دل کی خوشی کے ساتھ ادا کردے تاکہ صدقہ کرنے والوں نے جسے دینے کا حکم دیا ہے اس تک وہ چیز پہنچ جائے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مردوں میں سے کامل افراد تو بہت گذرے ہیں لیکن عورتوں میں کامل عورتیں صرف حضرت آسیہ رضی اللہ عنہ " جو فرعون کی بیوی تھیں " اور حضرت مریم (علیہا السلام) گذری ہیں اور تمام عورتوں پر عائشہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کو فضیلت حاصل ہے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہودی لوگ یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس دن کا روزہ رکھا کرو۔
حدثنا ابو اسامة ، عن طلحة بن يحيى ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كان يوم القيامة، دفع إلى كل مؤمن رجل من اهل الملل، فيقال له: هذا فداؤك من النار" .حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَن طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ، دُفِعَ إِلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمِلَلِ، فَيُقَالَ لَهُ: هَذَا فِدَاؤُكَ مِنَ النَّارِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب قیامت کا دن آئے گا تو ہر ایک مسلمان کو دوسرے ادیان و مذاہب کا ایک ایک آدمی دے کر کہا جائے گا کہ یہ شخص جہنم سے بچاؤ کا تمہارے لئے فدیہ ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2767، وهذا إسناده حسن