حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے کچھ نام بتائے جو ہمیں پہلے سے یاد اور معلوم نہ تھے چناچہ فرمایا کہ میں محمد ہوں، احمد، مقفی، حاشر اور نبی التوبہ اور نبی الملحمہ ہوں صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، 2355، المسعودي اختلط، لكن رواه قبل اختلاطه
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے بیٹے ابوبردہ سے کہا کہ بیٹا! اگر تم نے وہ وقت دیکھا ہوتا تو کیسا لگتا کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے تھے اور ہمارے اندر سے بھیڑ بکریوں جیسی مہک آرہی ہوتی تھی، (موٹے کپڑوں پر بارش کا پانی پڑنے کی وجہ سے)
حكم دارالسلام: حديث صحيح، أبو هلال ضعيف، لكنه توبع
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن صالح ، قال: حدث ابو الزناد ، ان ابا سلمة اخبره، ان عبد الرحمن بن نافع بن عبد الحارث الخزاعي اخبره، ان ابا موسى اخبره، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان في حائط بالمدينة، على قف البئر مدليا رجليه، فدق الباب ابو بكر رضي الله عنه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ائذن له، وبشره بالجنة"، ففعل، فدخل ابو بكر رضي الله عنه، فدلى رجليه، ثم دق الباب عمر رضي الله عنه، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ائذن له، وبشره بالجنة"، ففعل، ثم دق الباب عثمان بن عفان رضي الله عنه، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ائذن له، وبشره بالجنة، وسيلقى بلاء" ففعل.حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، قَالَ: حَدَّثَ أَبُو الزِّنَادِ ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ نَافِعٍ بْنِ عَبْدِ الْحَارِثِ الْخُزَاعِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا مُوسَى أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي حَائِطٍ بِالْمَدِينَةِ، عَلَى قُفِّ الْبِئْرِ مُدَلِّيًا رِجْلَيْهِ، فَدَقَّ الْبَابَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ائْذَنْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، فَفَعَلَ، فَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَدَلَّى رِجْلَيْهِ، ثُمَّ دَقَّ الْبَابَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ائْذَنْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، فَفَعَلَ، ثُمَّ دَقَّ الْبَابَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ائْذَنْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، وَسَيَلْقَى بَلَاءً" فَفَعَلَ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی باغ میں تھا ایک آدمی آیا اور اس نے سلام کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اسے اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنادو میں گیا تو وہ حضرت ابوبکرصدق رضی اللہ عنہ تھے میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے آئیے اور جنت کی خوشخبری قبول کیجئے وہ مسلسل اللہ کی تعریف کرتے ہوئے ایک جگہ پر بیٹھ گئے پھر دوسرا آدمی آیا اس نے بھی سلام کیا نبی کریم نے فرمایا اسے بھی اجازت اور خوشخبری دے دو میں گیا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے آئیے اور جنت کی خوشخبری قبول کیجئے وہ مسلسل اللہ کی تعریف کرتے ہوئے ایک جگہ پر بیٹھ گئے پھر تیسرا آدمی آیا اس نے بھی سلام کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا کر اسے بھی اجازت دے دو اور ایک امتحان کے ساتھ جنت کی خوشخبری سنادو میں گیا تو وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے چناچہ ایسا ہی ہوا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3674، م: 2403، عبدالرحمن بن نافع مجهول لكنه توبع
حدثنا حدثنا حسن بن موسى ، وعفان ، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، عن عمارة ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يجمع الله عز وجل الامم في صعيد واحد يوم القيامة، فإذا بدا لله عز وجل ان يصدع بين خلقه، مثل لكل قوم ما كانوا يعبدون، فيتبعونهم حتى يقحمونهم النار، ثم ياتينا ربنا عز وجل، ونحن على مكان رفيع، فيقول: من انتم؟ فنقول: نحن المسلمون، فيقول: ما تنتظرون؟ فيقولون: ننتظر ربنا عز وجل"، قال:" فيقول: وهل تعرفونه إن رايتموه؟ فيقولون: نعم، فيقول: كيف تعرفونه ولم تروه؟ فيقولون: نعم، إنه لا عدل له، فيتجلى لنا ضاحكا، يقول: ابشروا ايها المسلمون، فإنه ليس منكم احد إلا جعلت مكانه في النار يهوديا، او نصرانيا" ..حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَن عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَن عُمَارَةَ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَجْمَعُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْأُمَمَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَإِذَا بَدَا لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَصْدَعَ بَيْنَ خَلْقِهِ، مَثَّلَ لِكُلِّ قَوْمٍ مَا كَانُوا يَعْبُدُونَ، فَيَتْبَعُونَهُمْ حَتَّى يُقْحِمُونَهُمْ النَّارَ، ثُمَّ يَأْتِينَا رَبُّنَا عَزَّ وَجَلَّ، وَنَحْنُ عَلَى مَكَانٍ رَفِيعٍ، فَيَقُولُ: مَنْ أَنْتُمْ؟ فَنَقُولُ: نَحْنُ الْمُسْلِمُونَ، فَيَقُولُ: مَا تَنْتَظِرُونَ؟ فَيَقُولُونَ: نَنْتَظِرُ رَبَّنَا عَزَّ وَجَلَّ"، قَالَ:" فَيَقُولُ: وَهَلْ تَعْرِفُونَهُ إِنْ رَأَيْتُمُوهُ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، فَيَقُولُ: كَيْفَ تَعْرِفُونَهُ وَلَمْ تَرَوْهُ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ، إِنَّهُ لَا عِدْلَ لَهُ، فَيَتَجَلَّى لَنَا ضَاحِكًا، يَقُولُ: أَبْشِرُوا أَيُّهَا الْمُسْلِمُونَ، فَإِنَّهُ لَيْسَ مِنْكُمْ أَحَدٌ إِلَّا جَعَلْتُ مَكَانَهُ فِي النَّارِ يَهُودِيًّا، أَوْ نَصْرَانِيًّا" ..
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ساری امتوں کو ایک ٹیلے پر جمع فرمائے گا جب اللہ تعالیٰ اپنی ساری مخلوق کا امتحان شروع کرے گا تو ہر قدم کے سامنے اس چیز کی تصویر آجائے جس کی وہ عبادت کرتے تھے وہ ان کے پیچھے چلنے لگیں گے اور اس طرح جہنم میں گرجائیں گے پھر ہمارا رب ہمارے پاس آئے گا ہم اس وقت ایک بلند جگہ پر ہوں گے وہ پوچھے گا کہ تم کون ہو؟ ہم کہیں گے کہ ہم مسلمان ہیں وہ کہے گا کہ تم کس کا انتظار کررہے ہو؟ ہم کہیں گے کہ اپنے رب کا انتظار کررہے ہیں وہ پوچھے گا کہ اگر تم اسے دیکھو تو پہچان لو گے ہم کہیں گے جی ہاں وہ کہے گا کہ جب تم نے اسے دیکھا ہی نہیں ہے تو کیسے پہچانو گے؟ ہم کہیں گے کہ ہاں! اس کی کوئی مثال نہیں ہے پھر وہ مسکراتا ہوا اپنی تجلی ہمارے سامنے ظاہر کرے گا اور فرمایا مسلمانو! خوش ہوجاؤ تم میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کی جگہ پر میں نے کسی یہودی یا عیسائی کو جہنم میں نہ ڈال دیاہو۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے لیکن اس کے آغاز میں یہ ہے کہ عمارہ قرشی کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک وفد لے کر حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے پاس گئے جس میں ابوبردہ رحمہ اللہ بھی شامل تھے، انہوں نے ہماری ضرورت پوری کردی ہم وہاں سے نکل آئے لیکن حضرت ابوبردہ رحمہ اللہ دوبارہ ان کے پاس چلے گئے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے پوچھا شیخ کو کوئی اور بات یاد آگئی ہے؟ اب کیا چیز آپ کو واپس لائی؟ کیا آپ کی ضرورت پوری نہیں ہوئی؟ انہوں نے فرمایا ہاں! ایک حدیث ہے جو میرے والدنے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے سنائی تھی پھر انہوں نے مذکورہ حدیث سنائی عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے پوچھا کیا واقعی آپ نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں! میں نے اپنے والد کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔
حكم دارالسلام: قوله: وليس منكم أحد إلا جعلت مكانه فى النار يهوديا أو نصرانيا صحيح، م: 2767، وهذا أسناد ضعيف لضعف على بن زيد وجهالة عمارة
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا علي بن زيد بن جدعان ، عن عمارة القرشي ، قال: وفدنا إلى عمر بن عبد العزيز، وفينا ابو بردة، فقضى حاجتنا، فلما خرج ابو بردة، رجع، فقال عمر بن عبد العزيز: اذكر الشيخ، قال: ما ردك؟ الم اقض حوائجك؟ قال: فقال ابو بردة : إلا حديثا حدثنيه ابي ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" يجمع الله عز وجل الامم يوم القيامة"، فذكر الحديث. قال: فقال عمر لابي بردة: آلله لسمعت ابا موسى يحدث به، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: نعم، لانا سمعته من ابي يحدثه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ ، عَن عُمَارَةَ الْقُرَشِيِّ ، قَالَ: وَفَدْنَا إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَفِينَا أَبُو بُرْدَةَ، فَقَضَى حَاجَتَنَا، فَلَمَّا خَرَجَ أَبُو بُرْدَةَ، رَجَعَ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ: أَذْكُرُ الشَّيْخَ، قَالَ: مَا رَدَّكَ؟ أَلَمْ أَقْضِ حَوَائِجَكَ؟ قَالَ: فَقَالَ أَبُو بُرْدَةَ : إِلَّا حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ أَبِي ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَجْمَعُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْأُمَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ لِأَبِي بُرْدَةَ: آللَّهِ لَسَمِعْتَ أَبَا مُوسَى يُحَدِّثُ بِهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَعَمْ، لَأَنَا سَمِعْتُهُ مِنْ أَبِي يُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کے پاس کوئی باندی ہو اور وہ اسے آزاد کر کے اس سے نئے مہر کے ساتھ نکاح کرلے تو اسے دہرا اجرملے گا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بالغ لڑکی سے اس کے نکاح کی اجازت لی جائے گی، اگر وہ خاموش رہے تو گویا اس نے اجازت دے دی اور اگر وہ انکار کردے تو اسے اس رشتے پر مجبور نہ کیا جائے۔
حدثنا محمد بن سابق ، حدثنا ربيع يعني ابا سعيد النصري ، عن معاوية بن إسحاق ، عن ابي بردة. قال ابو بردة : حدثني ابي ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن هذه الامة مرحومة، جعل الله عز وجل عذابها بينها، فإذا كان يوم القيامة، دفع إلى كل امرئ منهم رجل من اهل الاديان، فيقال: هذا يكون فداءك من النار" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ ، حَدَّثَنَا رَبِيعٌ يَعْنِي أَبَا سَعِيدٍ النَّصْرِيَّ ، عَن مُعَاوِيَةَ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ. قَالَ أَبُو بُرْدَةَ : حَدَّثَنِي أَبِي ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ مَرْحُومَةٌ، جَعَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَذَابَهَا بَيْنَهَا، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ، دُفِعَ إِلَى كُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْأَدْيَانِ، فَيُقَالُ: هَذَا يَكُونُ فِدَاءَكَ مِنَ النَّارِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ امت، امت مرحومہ ہے اللہ نے اس کا عذاب ان کے درمیان ہی رکھ دیا ہے، جب قیامت کا دن آئے گا تو ان میں سے ہر ایک کو دوسرے ادیان و مذاہب کا ایک ایک آدمی دے کر کہا جائے گا کہ یہ شخص جہنم سے بچاؤ کا تمہارے لئے فدیہ ہے
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ربيع أبو سعيد النصري مجهول
حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، حدثنا داود بن عبد الله الاودي ، عن حميد بن عبد الرحمن الحميري ، ان رجلا كان يقال له: حممة، من اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم خرج إلى اصبهان غازيا في خلافة عمر رضي الله عنه، فقال:" اللهم إن حممة يزعم انه يحب لقاءك، فإن كان حممة صادقا، فاعزم له بصدقه، وإن كان كاذبا، فاعزم عليه، وإن كره، اللهم لا ترد حممة من سفره هذا، قال: فاخذه الموت وقال عفان مرة: البطن فمات باصبهان، قال: فقام ابو موسى ، فقال: يا ايها الناس، إنا والله ما سمعنا فيما سمعنا من نبيكم صلى الله عليه وسلم، وما بلغ علمنا، إلا ان: حممة شهيد .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَوْدِيُّ ، عَن حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ يُقَالُ لَهُ: حَمَمَةُ، مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى أَصْبَهَانَ غَازِيًا فِي خِلَافَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ إِنَّ حَمَمَةَ يَزْعُمُ أَنَّهُ يُحِبُّ لِقَاءَكَ، فَإِنْ كَانَ حَمَمَةُ صَادِقًا، فَاعْزِمْ لَهُ بِصِدْقِهِ، وَإِنْ كَانَ كَاذِبًا، فَاعْزِمْ عَلَيْهِ، وَإِنْ كَرِهَ، اللَّهُمَّ لَا تَرُدَّ حَمَمَةَ مِنْ سَفَرِهِ هَذَا، قَالَ: فَأَخَذَهُ الْمَوْتُ وَقَالَ عَفَّانُ مَرَّةً: الْبَطْنُ فَمَاتَ بأَصْبَهَانَ، قَالَ: فَقَامَ أَبُو مُوسَى ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّا وَاللَّهِ مَا سَمِعْنَا فِيمَا سَمِعْنَا مِنْ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا بَلَغَ عِلْمَنَا، إِلَّا أَنَّ: حَمَمَةَ شَهِيدٌ .
حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ایک آدمی تھا جس کا نام " حممہ " تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے تھا وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جہاد کے لئے اصفہان کی طرف روانہ ہوا اور یہ دعاء کی کہ اے اللہ! حممہ کا یہ خیال ہے کہ وہ تجھ سے ملنے کو پسند کرتا ہے اگر حممہ سچا ہے تو اس کی سچائی اور عزم کو پورا فرما اور اگر وہ جھوٹا ہے تو اسے اس کا عزم عطاء فرما اگرچہ اسے ناپسند ہی ہو اے اللہ! حممہ کو اس سفر سے واپس نہ لوٹا، چناچہ اسے موت نے آلیا اور وہ اصفہان میں ہی فوت ہوگیا حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے لوگو! ہم نے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا اور جہاں تک ہمارا علم پہنچتا ہے وہ یہی ہے کہ حممہ شہید ہوا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن ثبت سماع حميد بن عبدالرحمن لهذه القصة من أبى موسي
حدثنا عفان ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، حدثنا عاصم الاحول ، عن ابي كبشة ، قال: سمعت ابا موسى ، يقول على المنبر: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مثل الجليس الصالح، كمثل العطار، إن لا يحذك يعبق بك من ريحه، ومثل الجليس السوء كمثل صاحب الكير" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَن أَبِي كَبْشَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مُوسَى ، يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ، كَمَثَلِ الْعَطَّارِ، إِنْ لَا يُحْذِكَ يَعْبَقُ بِكَ مِنْ رِيحِهِ، وَمَثَلُ الْجَلِيسِ السَّوْءِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْكِيرِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھے ہم نشین کی مثال عطار کی سی ہے کہ اگر وہ اپنے عطر کی شیشی تمہارے قریب بھی نہ لائے تو اس کی مہک تم تک پہنچے گی اور برے ہم نشین کی مثال بھٹی کی سی ہے کہ اگر وہ تمہیں نہ بھی جلائے تب بھی اس کی گرمی اور شعلے تو تم تک پہنچیں گے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى كبشة، وقد اختلف فيه على عاصم الأحول