حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بھوکے کو کھانا کھلایا کرو، قیدیوں کو چھڑایا کرو اور بیماروں کی عیادت کیا کرو۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا عوف ، حدثنا قسامة بن زهير ، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم. وحدثناه هوذة ، حدثنا عوف ، عن قسامة ، قال سمعت الاشعري يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله عز وجل خلق آدم من قبضة قبضها من جميع الارض، فجاء بنو آدم على قدر الارض، جعل منهم الاحمر، والابيض، والاسود، وبين ذلك، والسهل والحزن، وبين ذلك، والخبيث والطيب، وبين ذلك" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، حَدَّثَنَا قَسَامَةُ بْنُ زُهَيْرٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وحَدَّثَنَاه هَوْذَةُ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَن قَسَامَةَ ، قَالَ سَمِعْتُ الْأَشْعَرِيَّ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيعِ الْأَرْضِ، فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَى قَدْرِ الْأَرْضِ، جَعَلَ مِنْهُمْ الْأَحْمَرَ، وَالْأَبْيَضَ، وَالْأَسْوَدَ، وَبَيْنَ ذَلِكَ، وَالسَّهْلَ وَالْحَزْنَ، وَبَيْنَ ذَلِكَ، وَالْخَبِيثَ وَالطَّيِّبَ، وَبَيْنَ ذَلِكَ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو ایک مٹھی مٹی سے پیدا کیا تھا جو اس نے ساری زمین سے اکٹھی کی تھی یہی وجہ سے کہ بنو آدم زمین ہی کی طرح ہیں چناچہ کچھ سفید ہیں، کچھ سرخ ہیں کچھ سیاہ فام ہیں اور کچھ اس کے درمیان، اسی طرح کچھ گندے ہیں اور کچھ عمدہ، کچھ نرم ہیں اور کچھ غمگین وغیرہ۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن عثمان بن غياث ، حدثنا ابو عثمان ، عن ابي موسى : انه كان مع النبي صلى الله عليه وسلم في حائط، وبيد النبي صلى الله عليه وسلم عود يضرب به بين الماء والطين، فجاء رجل يستفتح، فقال: " افتح له، وبشره بالجنة"، فإذا هو ابو بكر رضي الله عنه، قال: ففتحت له، وبشرته بالجنة، ثم جاء رجل يستفتح، فقال:" افتح له، وبشره بالجنة"، فإذا هو عمر رضي الله عنه، ففتحت له، وبشرته بالجنة، ثم جاء رجل، فاستفتح، فقال:" افتح له، وبشره بالجنة على بلوى تصيبه، او بلوى تكون"، قال فإذا هو عثمان رضي الله عنه، ففتحت له، وبشرته بالجنة، واخبرته، فقال:" الله المستعان" ..حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَن عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ ، عَن أَبِي مُوسَى : أَنَّهُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ، وَبِيَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُودٌ يَضْرِبُ بِهِ بَيْنَ الْمَاءِ وَالطِّينِ، فَجَاءَ رَجُلٌ يَسْتَفْتِحُ، فَقَالَ: " افْتَحْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، فَإِذَا هُوَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: فَفَتَحْتُ لَهُ، وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ يَسْتَفْتِحُ، فَقَالَ:" افْتَحْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، فَإِذَا هُوَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَفَتَحْتُ لَهُ، وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ، فَاسْتَفْتَحَ، فَقَالَ:" افْتَحْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ، أَوْ بَلْوَى تَكُونُ"، قَالَ فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَفَتَحْتُ لَهُ، وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، وَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ:" اللَّهُ الْمُسْتَعَانُ" ..
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی باغ میں تھا ایک آدمی آیا اور اس نے سلام کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اسے اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنادو میں گیا تو وہ حضرت ابوبکرصدق رضی اللہ عنہ تھے میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے آئیے اور جنت کی خوشخبری قبول کیجئے وہ مسلسل اللہ کی تعریف کرتے ہوئے ایک جگہ پر بیٹھ گئے پھر دوسرا آدمی آیا اس نے بھی سلام کیا نبی کریم نے فرمایا اسے بھی اجازت اور خوشخبری دے دو میں گیا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے آئیے اور جنت کی خوشخبری قبول کیجئے وہ مسلسل اللہ کی تعریف کرتے ہوئے ایک جگہ پر بیٹھ گئے پھر تیسرا آدمی آیا اس نے بھی سلام کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا کر اسے بھی اجازت دے دو اور ایک امتحان کے ساتھ جنت کی خوشخبری سنا دو میں گیا تو وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے آئیے اور ایک سخت امتحان کے ساتھ جنت کی خوشخبری قبول کیجئے وہ یہ کہتے ہوئے کہ " اے اللہ! ثابت قدم رکھنا " آکر بیٹھ گئے۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا عثمان يعني ابن غياث ، عن ابي عثمان ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حائط من حيطان المدينة، فذكر معنى حديث يحيى، إلا انه قال في قول عثمان رضي الله عنه: الله المستعان، اللهم صبرا، وعلى الله التكلان.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ يَعْنِي ابْنَ غِيَاثٍ ، عَن أَبِي عُثْمَانَ ، عَن أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ الْمَدِينَةِ، فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ يَحْيَى، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ فِي قَوْلِ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: اللَّهُ الْمُسْتَعَانُ، اللَّهُمَّ صَبْرًا، وَعَلَى اللَّهِ التُّكْلَانُ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ریشم اور سونا یہ دونوں میری امت کی عورتوں کے لئے حلال اور مردوں کے لئے حرام ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده، وهذا إسناد منقطع، سعيد بن أبى هند لم يلق أبا موسي
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا قرة ، حدثنا سيار ابو الحكم ، عن ابي بردة ، عن ابيه ، قال: قلت للنبي صلى الله عليه وسلم" إن لاهل اليمن شرابين، او اشربة، هذا البتع من العسل، والمزر من الذرة والشعير، فما تامرني فيهما؟ قال: " انهاكم عن كل مسكر" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ ، حَدَّثَنَا سَيَّارٌ أَبُو الْحَكَمِ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِيهِ ، قَالَ: قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِنَّ لِأَهْلِ الْيَمَنِ شَرَابَيْنِ، أَوْ أَشْرِبَةً، هَذَا الْبِتْعُ مِنَ الْعَسَلِ، وَالْمِزْرُ مِنَ الذُّرَةِ وَالشَّعِيرِ، فَمَا تَأْمُرُنِي فِيهِمَا؟ قَالَ: " أَنْهَاكُمْ عَنْ كُلِّ مُسْكِرٍ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھے یمن کی طرف بھیجا) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہاں کچھ مشروبات رائج ہیں ایک تو تبع جو شہد سے بنتی ہے اور ایک مزر ہے اور وہ جو سے بنتی ہے آپ مجھے اس کے متعلق کیا حکم دیتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی نشہ آور چیز مت پینا۔
حدثنا يحيى ، عن التيمي ، عن ابي عثمان ، عن ابي موسى ، قال: اخذ القوم في عقبة او ثنية، فكلما علا رجل عليها، نادى: لا إله إلا الله، والله اكبر، والنبي صلى الله عليه وسلم على بغلة يعرضها في الخيل، فقال:" يا ايها الناس، إنكم لا تدعون اصم ولا غائبا" . ثم قال:" يا ابا موسى او: يا عبد الله بن قيس: الا ادلك على كنز من كنوز الجنة؟" قال: قلت: بلى، قال: " لا حول ولا قوة إلا بالله" .حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَن التَّيْمِيِّ ، عَن أَبِي عُثْمَانَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: أَخَذَ الْقَوْمُ فِي عُقْبَةٍ أَوْ ثَنِيَّةٍ، فَكُلَّمَا عَلَا رَجُلٌ عَلَيْهَا، نَادَى: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَةٍ يَعْرِضُهَا فِي الْخَيْلِ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا" . ثُمَّ قَالَ:" يَا أَبَا مُوسَى أَوْ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ: أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟" قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: " لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جہاد کے سفر میں تھے جس ٹیلے یا بلند جگہ پر چڑھتے یا کسی نشیب میں اترتے تو بلند آواز سے تکبیر کہتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے قریب آکر فرمایا لوگو! اپنے ساتھ نرمی کرو، تم کسی بہرے یا غائب اللہ کو نہیں پکار رہے، تم سمیع وبصیر کو پکار رہے ہو جو تمہاری سواری کی گردن سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے، اے عبداللہ بن قیس کیا میں تمہیں جنت کے ایک خزانے کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا لاحول ولاقوۃ الا باللہ (جنت کا ایک خزانہ ہے)
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص گوٹیوں کے ساتھ کھیلتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، حميد بن بشير لا بأس به فى الشواهد
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن ہر مسلمان ایک یہودی یا عیسائی کو لے کر آئے گا اور کہے گا کہ یہ جہنم سے بچاؤ کے لئے میری طرف سے فدیہ ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح بغير هذه السياقة ، م: 2767، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى معشر ومصعب بن ثابت