حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن ابي موسى ، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الرجل يقاتل شجاعة، ويقاتل حمية، ويقتل رياء، فاي ذلك في سبيل الله تعالى؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا، فهو في سبيل الله عز وجل" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَن شَقِيقٍ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يُقَاتِلُ شَجَاعَةً، وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً، وَيَقْتُلُ رِيَاءً، فَأَيُّ ذَلِكَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا، فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ آدمی اپنے آپ کو بہادر ثابت کرنے کے لئے لڑتا ہے ایک آدمی قومی غیرت کے جذبے سے قتال کرتا ہے اور ایک آدمی ریاکاری کے لئے قتال کرتا ہے ان میں سے اللہ کے راستے میں قتال کرنے والا کون ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اس لئے قتال کرتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے وہی اللہ کے راستہ میں قتال کرنے والا ہے۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي عبيدة ، عن ابي موسى ، قال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بخمس كلمات، فقال: " إن الله تعالى لا ينام، ولا ينبغي له ان ينام، ولكنه يخفض القسط ويرفعه، يرفع إليه عمل الليل قبل عمل النهار، وعمل النهار قبل عمل الليل، حجابه النور، لو كشفه لاحرقت سبحات وجهه ما انتهى إليه بصره من خلقه" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَن عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَن أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ، فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَنَامُ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ، وَلَكِنَّهُ يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَيَرْفَعُهُ، يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ، وَعَمَلُ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّيْلِ، حِجَابُهُ النُّورُ، لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَتْ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَيْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور پانچ باتیں بیان فرمائیں اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کو نیند نہیں آتی اور نہ ہی نیند ان کی شایان شان ہے وہ ترازو کو جھکاتے اور اونچا کرتے ہیں رات کے اعمال دن کے وقت اور دن کے اعمال رات کے وقت ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، اس کا حجاب نور ہے جو اگر وہ ہٹادے تو تاحد نگاہ ساری مخلوق جل جائے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی تکلیف دہ بات کو سن کر اللہ سے زیادہ اس پر صبر کرنے والا کوئی نہیں ہے اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرایا جاتا ہے لیکن وہ پھر بھی انہیں عافیت اور رزق دیتا ہے، اس کی مصیبتیں دور کرتا ہے۔
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، اخبرنا معمر بن راشد ، عن فراس ، عن الشعبي ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " ثلاثة يؤتون اجرهم مرتين: رجل آمن بالكتاب الاول والكتاب الآخر، ورجل له امة فادبها، فاحسن تاديبها، ثم اعتقها وتزوجها، وعبد مملوك احسن عبادة ربه، ونصح لسيده" ، او كما قال.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرُ بْنُ رَاشِدٍ ، عَن فِرَاسٍ ، عَن الشَّعْبِيِّ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثَةٌ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ: رَجُلٌ آمَنَ بِالْكِتَابِ الْأَوَّلِ وَالْكِتَابِ الْآخِرِ، وَرَجُلٌ لَهُ أَمَةٌ فَأَدَّبَهَا، فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا، ثُمَّ أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا، وَعَبْدٌ مَمْلُوكٌ أَحْسَنَ عِبَادَةَ رَبِّهِ، وَنَصَحَ لِسَيِّدِهِ" ، أَوْ كَمَا قَالَ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین قسم کے لوگوں کو دہرا اجر ملتا ہے وہ آدمی جس کے پاس کوئی باندی ہو اور وہ اسے عمدہ دلائے بہترین ادب سکھائے، پھر اسے آزاد کرکے اس سے نکاح کرلے تو اسے دہرا اجر ملے گا، اسی طرح وہ غلام جو اپنے اللہ کا حق بھی ادا کرتا ہو اور اپنے آقا کا حق بھی ادا کرتا ہو یا اہل کتاب میں سے وہ آدمی جو اپنی شریعت پر بھی ایمان لایا ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر بھی ایمان لایا ہو، اسے بھی دہرا اجر ملے گا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں اپنی قوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا تھا جب فتح خیبر کو ابھی صرف تین دن گذرے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھی اس میں سے حصہ دیا اور ہمارے علاوہ کسی ایسے آدمی کو مال غنیمت میں سے حصہ نہیں دیا جو اس غزوے میں شریک نہیں ہوا تھا۔
حدثنا إسماعيل ، عن يونس ، عن الحسن ، ان اسيد بن المتشمس قال: اقبلنا مع ابي موسى من اصبهان، فتعجلنا، وجاءت عقيلة، فقال ابو موسى : الا فتى ينزل كنته؟ قال: يعني: امة الاشعري، فقلت: بلى، فادنيتها من شجرة، فانزلتها، ثم جئت، فقعدت مع القوم، فقال: الا احدثكم حديثا كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحدثناه، فقلنا: بلى، يرحمك الله، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحدثنا: " ان بين يدي الساعة الهرج"، قيل: وما الهرج؟ قال:" الكذب والقتل"، قالوا: اكثر مما نقتل الآن؟ قال:" إنه ليس بقتلكم الكفار، ولكنه قتل بعضكم بعضا، حتى يقتل الرجل جاره، ويقتل اخاه، ويقتل عمه، ويقتل ابن عمه"، قالوا: سبحان الله! ومعنا عقولنا؟ قال:" لا، إلا انه ينزع عقول اهل ذاكم الزمان حتى يحسب احدكم انه على شيء، وليس على شيء". والذي نفس محمد بيده، لقد خشيت ان تدركني وإياكم تلك الامور، وما اجد لي ولكم منها مخرجا، فيما عهد إلينا نبينا صلى الله عليه وسلم، إلا ان نخرج منها كما دخلناها، لم نحدث فيها شيئا ..حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَن يُونُسَ ، عَن الْحَسَنِ ، أَنَّ أَسِيدَ بْنَ الْمُتَشَمِّسِ قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ أَبِي مُوسَى مِنْ أَصْبَهَانَ، فَتَعَجَّلْنَا، وَجَاءَتْ عُقَيْلَةُ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى : أَلَا فَتًى يُنْزِلُ كَنَّتَهُ؟ قَالَ: يَعْنِي: أَمَةٌ الْأَشْعَرِيَّ، فَقُلْتُ: بَلَى، فَأَدْنَيْتُهَا مِنْ شَجَرَةٍ، فَأَنْزَلْتُهَا، ثُمَّ جِئْتُ، فَقَعَدْتُ مَعَ الْقَوْمِ، فَقَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُنَاهُ، فَقُلْنَا: بَلَى، يَرْحَمُكَ اللَّهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُنَا: " أَنَّ بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ الْهَرْجَ"، قِيلَ: وَمَا الْهَرْجُ؟ قَالَ:" الْكَذِبُ وَالْقَتْلُ"، قَالُوا: أَكْثَرُ مِمَّا نَقْتُلُ الْآنَ؟ قَالَ:" إِنَّهُ لَيْسَ بِقَتْلِكُمْ الْكُفَّارَ، وَلَكِنَّهُ قَتْلُ بَعْضِكُمْ بَعْضًا، حَتَّى يَقْتُلَ الرَّجُلُ جَارَهُ، وَيَقْتُلَ أَخَاهُ، وَيَقْتُلَ عَمَّهُ، وَيَقْتُلَ ابْنَ عَمِّهِ"، قَالُوا: سُبْحَانَ اللَّهِ! وَمَعَنَا عُقُولُنَا؟ قَالَ:" لَا، إِلَّا أَنَّهُ يَنْزِعُ عُقُولَ أَهْلِ ذَاكُمِ الزَّمَانِ حَتَّى يَحْسَبَ أَحَدُكُمْ أَنَّهُ عَلَى شَيْءٍ، وَلَيْسَ عَلَى شَيْءٍ". وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ تُدْرِكَنِي وَإِيَّاكُمْ تِلْكَ الْأُمُورُ، وَمَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مِنْهَا مَخْرَجًا، فِيمَا عَهِدَ إِلَيْنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا أَنْ نَخْرُجَ مِنْهَا كَمَا دَخَلْنَاهَا، لَمْ نُحْدِثْ فِيهَا شَيْئًا ..
اسید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم اصفہان سے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ واپس آرہے تھے ہم تیز رفتاری سفر کر رہے تھے کہ " عقیلہ " آگئی حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کوئی نوجوان ہے جوان کی باندی کو سواری سے اتارے میں نے کہا کیوں نہیں چناچہ میں نے اس کی سواری کو درخت کے قریب لے جا کر اسے اتارا پھر آکر لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک حدیث نہ سناؤں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سناتے تھے؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں اللہ کی رحمتیں آپ پر نازل ہوں انہوں نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتاتے تھے کہ قامت سے پہلے " ہرج " واقع ہوگا لوگوں نے پوچھا کہ " ہرج " سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قتل، لوگوں نے پوچھا اس تعداد سے بھی زیادہ جتنے ہم قتل کردیتے ہیں؟ ہم تو ہر سال ستر ہزار سے زیادہ لوگ قتل کردیتے تھے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے مراد مشرکین کو قتل کرنا نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کو قتل کرنا مراد ہے حتیٰ کہ آدمی اپنے پڑوسی، چچا، بھائی اور چچازاد بھائی کو قتل کردے گا لوگوں نے پوچھا کیا اس موقع پر ہماری عقلیں ہمارے ساتھ ہوں گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس زمانے کے لوگوں کی عقلیں چھین لی جائیں گی اور ایسے بیوقوف لوگ رہ جائیں گے جو یہ سمجھیں گے وہ کسی دین پر قائم ہیں حالانکہ وہ کسی دین پر نہیں ہوں گے۔ حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر وہ زمانہ آگیا تو میں اپنے اور تمہارے لئے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں پاتا الاّ یہ کہ ہم اس سے اسی طرح نکل جائیں جیسے داخل ہوئے تھے اور کسی کے قتل یا مال میں ملوث نہ ہوں
حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ليث ، عن ابي بردة بن ابي موسى ، عن ابيه ، انه قال: مرت برسول الله صلى الله عليه وسلم جنازة، تمخض مخض الزق، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" عليكم القصد" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا لَيْثٌ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَن أَبِيهِ ، أَنَّهُ قَالَ: مَرَّتْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِنَازَةٌ، تُمْخَضُ مَخْضَ الزِّقِّ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَلَيْكُمْ الْقَصْدَ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ایک جنازہ تیزی سے لے کر گذرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سکون کو اپنے اوپر لازم کرلو۔