حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے کچھ نام بتائے جو ہمیں پہلے سے یاد اور معلوم نہ تھے چناچہ فرمایا کہ میں محمد ہوں، احمد، مقفی، حاشر اور نبی التوبہ اور نبی الملحمہ ہوں صلی اللہ علیہ وسلم
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2355، المسعودي اختلط، لكن رواه أيضا قبل اختلاطه
حدثنا ابن ابي عدي ، عن سليمان يعني التيمي ، عن ابي السليل ، عن زهدم ، عن ابي موسى ، قال: انطلقنا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، نستحمله، فقال:" والله لا احملكم"، فرجعنا، فبعث إلينا بثلاث بقع الذرى، فقال بعضنا لبعض: حلف النبي صلى الله عليه وسلم ان لا يحملنا، فاتيناه، فقلنا: إنك حلفت ان لا تحملنا! فقال: " ما انا حملتكم، إنما حملكم الله تعالى، ما على الارض يمين احلف عليها، فارى غيرها خيرا منها، إلا اتيته" .حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَن سُلَيْمَانَ يَعْنِي التَّيْمِيَّ ، عَن أَبِي السَّلِيلِ ، عَن زَهْدَمٍ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: انْطَلَقْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَسْتَحْمِلُهُ، فَقَالَ:" وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُكُمْ"، فَرَجَعْنَا، فَبَعَثَ إِلَيْنَا بِثَلَاثٍ بُقْعِ الذُّرَى، فَقَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ: حَلَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَحْمِلَنَا، فَأَتَيْنَاهُ، فَقُلْنَا: إِنَّكَ حَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا! فَقَالَ: " مَا أَنَا حَمَلْتُكُمْ، إِنَّمَا حَمَلَكُمْ اللَّهُ تَعَالَى، مَا عَلَى الْأَرْضِ يَمِينٌ أَحْلِفُ عَلَيْهَا، فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَتَيْتُهُ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں اشعریین کے ایک گروہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے لئے جانوروں کی درخواست کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخدا! میں تمہیں سوار نہیں کرسکوں گا کیونکہ میرے پاس تمہیں سوار کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے؟ ہم کچھ دیر " جب تک اللہ کو منظور ہوا " رکے رہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے روشن پیشانی کے تین اونٹوں کا حکم دے دیا جب ہم واپس جانے لگے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواری کے جانور کی درخواست لے کر آئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی تھی کہ وہ ہمیں سواری کا جانور نہیں دیں گے واپس چلو تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی قسم یاد دلادیں۔ چناچہ ہم دوبارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! ہم آپ کے پاس سواری کے جانور کی درخواست لے کر آئے تھے اور آپ نے قسم کھائی تھی کہ ہمیں سواری کا جانور نہیں دیں گے، پھر آپ نے ہمیں جانور دے دیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تمہیں سوار نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے بخدا! اگر اللہ کو منظور ہوا تو میں جب بھی کوئی قسم کھاؤں گا اور کسی دوسری چیز میں خیر دیکھوں گا تو اسی کو اختیار کر کے اپنی قسم کا کفارہ دے دوں گا۔
حدثنا سفيان بن عيينة ، حدثنا شعبة الكوفي ، قال: كنا عند ابي بردة بن ابي موسى ، فقال: اي بني، الا احدثكم حديثا حدثني ابي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من اعتق رقبة، اعتق الله عز وجل بكل عضو منها عضوا منه من النار" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ الْكُوفِيُّ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى ، فَقَالَ: أَيْ بَنِيَّ، أَلَا أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً، أَعْتَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِكُلِّ عُضْوٍ مِنْهَا عُضْوًا مِنْهُ مِنَ النَّارِ" .
ابوبردہ رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ اپنے بچوں سے کہا میرے بچو! کیا میں تمہیں ایک حدیث نہ سناؤں؟ میرے والد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مجھے یہ حدیث سنائی ہے کہ جو شخص کسی غلام کو آزاد کرے اللہ اس کے ہر عضو کے بدلے میں آزاد کرنے والے کے ہر عضو کو جہنم کی آگ سے آزاد فرمادے گا۔
حدثنا سفيان ، عن بريد بن عبد الله بن ابي بردة ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، رواية، قال " المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا، ومثل الجليس الصالح مثل العطار، إن لم يحذك من عطره علقك من ريحه، ومثل الجليس السوء مثل الكير، إن لم يحرقك نالك من شرره، والخازن الامين الذي يؤدي ما امر به مؤتجرا احد المتصدقين" .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَن بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، رِوَايَةً، قَالَ " الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا، وَمَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ مَثَلُ الْعَطَّارِ، إِنْ لَمْ يُحْذِكَ مِنْ عِطْرِهِ عَلِقَكَ مِنْ رِيحِهِ، وَمَثَلُ الْجَلِيسِ السُّوءِ مَثَلُ الْكِيرِ، إِنْ لَمْ يُحْرِقْكَ نَالَكَ مِنْ شَرَرِهِ، وَالْخَازِنُ الْأَمِينُ الَّذِي يُؤَدِّي مَا أُمِرَ بِهِ مُؤْتَجِرًا أَحَدُ الْمُتَصَدِّقِينَ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہوتا ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔ اور اچھے ہم نشین کی مثال عطار کی سی ہے کہ اگر وہ اپنے عطر کی شیشی تمہارے قریب بھی نہ لائے تو اس کی مہک تم تک پہنچے گی اور برے ہم نشین کی مثال بھٹی کی سی ہے کہ اگر وہ تمہیں نہ بھی جلائے تب بھی اس کی گرمی اور شعلے تو تم تک پہنچیں گے۔ اور امانت دار خزانچی وہ ہوتا ہے کہ اسے جس چیز کا حکم دیا جائے وہ اسے مکمل، پورا اور دل کی خوشی کے ساتھ ادا کردے تاکہ صدقہ کرنے والوں نے جسے دینے کا حکم دیا ہے اس تک وہ چیز پہنچ جائے۔
حدثنا ابن إدريس ، عن بريد ، عن جده ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المؤمن للمؤمن كالبنيان، يشد بعضه بعضا" .حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ ، عَن بُرَيْدٍ ، عَن جَدِّهِ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ، يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہوتا ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن سهم ابن منجاب ، عن القرثع ، قال: لما ثقل ابو موسى الاشعري صاحت امراته، فقال لها: اما علمت ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: بلى، ثم سكتت، فلما مات، قيل لها: اي شيء قال رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لعن من حلق، او خرق، او سلق" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَن إِبْرَاهِيمَ ، عَن سَهْمِ ابْنِ مِنْجَابٍ ، عَن الْقَرْثَعِ ، قَالَ: لَمَّا ثَقُلَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ صَاحَتْ امْرَأَتُهُ، فَقَالَ لَهَا: أَمَا عَلِمْتِ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: بَلَى، ثُمَّ سَكَتَتْ، فَلَمَّا مَاتَ، قِيل لَهَا: أَيُّ شَيْءٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَعَنَ مَنْ حَلَقَ، أَوْ خَرَقَ، أَوْ سَلَقَ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ ان پر بیہوشی طاری ہوئی تو ان کی بیوی رونے لگی جب انہیں افاقہ ہوا تو فرمایا میں کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے؟ اس نے کہا کیوں نہیں پھر وہ خاموش ہوگئی ان کے انتقال کے بعد کسی نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو واویلا کرے، بال نوچے اور گریبان چاک کرے اس پر لعنت ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 104، تكلم فى القرثع الضبي، وقد توبع
حدثنا إسماعيل ، اخبرنا سعيد ، عن قتادة ، عن يونس بن جبير ، عن حطان بن عبد الله الرقاشي ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاتنا وسنتنا، فقال: " إنما الإمام ليؤتم به، فإذا كبر، فكبروا، وإذا قال: غير المغضوب عليهم ولا الضالين سورة الفاتحة آية 7، فقولوا: آمين، يجبكم الله تعالى، وإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: اللهم ربنا لك الحمد، يسمع الله لكم، وإذا سجد فاسجدوا، وإذا رفع فارفعوا، فإن الإمام يسجد قبلكم، ويرفع قبلكم"، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تلك بتلك" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ ، عَن قَتَادَةَ ، عَن يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَن حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ ، عَن أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَنَا وَسُنَّتَنَا، فَقَالَ: " إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ، فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَالَ: غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، فَقُولُوا: آمِينَ، يُجِبْكُمْ اللَّهُ تَعَالَى، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، يَسْمَعْ اللَّهُ لَكُمْ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، فَإِنَّ الْإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ، وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ"، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تِلْكَ بِتِلْكَ" .
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز اور اس کا طریقہ سکھایا اور فرمایا کہ امام کو تو مقررہیاقتداء کے لئے کیا جاتا ہے اس لئے جب وہ تکبیرک ہے تو تم بھی تکبیرکہو اور جب وہ غیرالمغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو آمین کہو اللہ اسے قبول کرلے گا جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنالک الحمد کہو اللہ تمہاری ضرور سنے گا جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ کیونکہ امام تم سے پہلے سجدہ کرے گا اور سر اٹھائے گا یہ اس کے بدلے میں ہوجائے گا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ سوال پوچھا کہ اگر کوئی آدمی کسی قوم سے محبت کرتا ہے لیکن ان تک پہنچ نہیں پاتا تو کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن شقيق ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن من ورائكم اياما، ينزل فيها الجهل، ويرفع فيها العلم، ويكثر فيها الهرج"، قالوا: يا رسول الله، وما الهرج؟ قال:" القتل" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَن الْأَعْمَشِ ، عَن شَقِيقٍ ، عَن أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ أَيَّامًا، يَنْزِلُ فِيهَا الْجَهْلُ، وَيُرْفَعُ فِيهَا الْعِلْمُ، وَيَكْثُرُ فِيهَا الْهَرْجُ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْهَرْجُ؟ قَالَ:" الْقَتْلُ" .
شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے حدیث کا مذاکرہ کررہے تھے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت سے پہلے جو زمانہ آئے گا اس میں علم اٹھالیا جائے گا اور جہالت اترنے لگے گی اور " ہرج " کی کثرت ہوگی جس کا معنی قتل ہے۔