حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن القاسم التميمي ، عن زهدم الجرمي ، قال: كنا عند ابي موسى، فقدم في طعامه لحم دجاج، وفي القوم رجل من بني تيم الله احمر، كانه مولى، فلم يدن، قال له ابو موسى : ادن، فإني قد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ياكل منه، قال: إني رايته ياكل شيئا، فقذرته، فحلفت ان لا اطعمه ابدا . فقال: ادن، اخبرك عن ذلك، إني اتيت النبي صلى الله عليه وسلم في رهط من الاشعريين نستحمله، وهو يقسم نعما من نعم الصدقة قال ايوب: احسبه وهو غضبان فقال: لا والله، ما احملكم، وما عندي ما احملكم، فانطلقنا، فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بنهب إبل، فقال:" اين هؤلاء الاشعريون؟" فاتينا، فامر لنا بخمس ذود غر الذرى، فاندفعنا، فقلت لاصحابي: اتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم نستحمله، فحلف ان لا يحملنا، ثم ارسل إلينا، فحملنا، فقلت: نسي رسول الله صلى الله عليه وسلم يمينه، والله لئن تغفلنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يمينه، لا نفلح ابدا، ارجعوا بنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلنذكره يمينه، فرجعنا إليه، فقلنا: يا رسول الله، اتيناك نستحملك، فحلفت ان لا تحملنا، ثم حملتنا، فعرفنا، او: ظننا انك نسيت يمينك، فقال صلى الله عليه وسلم:" انطلقوا، فإنما حملكم الله عز وجل، وإني والله إن شاء الله لا احلف على يمين، فارى غيرها خيرا منها، إلا اتيت الذي هو خير، وتحللتها" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنِ الْقَاسِمِ التَّمِيمِيِّ ، عَنْ زَهْدَمٍ الْجَرْمِيِّ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَى، فَقَدَّمَ فِي طَعَامِهِ لَحْمَ دَجَاجٍ، وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ أَحْمَرُ، كَأَنَّهُ مَوْلًى، فَلَمْ يَدْنُ، قَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى : ادْنُ، فَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ مِنْهُ، قَالَ: إِنِّي رَأَيْتُهُ يَأْكُلُ شَيْئًا، فَقَذِرْتُهُ، فَحَلَفْتُ أَنْ لَا أَطْعَمَهُ أَبَدًا . فَقَالَ: ادْنُ، أُخْبِرْكَ عَنْ ذَلِكَ، إِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ مِنَ الْأَشْعَرِيِّينَ نَسْتَحْمِلُهُ، وَهُوَ يَقْسِمُ نَعَمًا مِنْ نَعَمْ الصَّدَقَةِ قَالَ أَيُّوبُ: أَحْسِبُهُ وَهُوَ غَضْبَانُ فَقَالَ: لَا وَاللَّهِ، مَا أَحْمِلُكُمْ، وَمَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ، فَانْطَلَقْنَا، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَهْبِ إِبِلٍ، فَقَالَ:" أَيْنَ هَؤُلَاءِ الْأَشْعَرِيُّونَ؟" فَأَتَيْنَا، فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرَى، فَانْدَفَعْنَا، فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي: أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَسْتَحْمِلُهُ، فَحَلَفَ أَنْ لَا يَحْمِلَنَا، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيْنَا، فَحَمَلَنَا، فَقُلْتُ: نَسِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينَهُ، وَاللَّهِ لَئِنْ تَغَفَّلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمِينَهُ، لَا نُفْلِحُ أَبَدًا، ارْجِعُوا بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلْنُذَكِّرْهُ يَمِينَهُ، فَرَجَعْنَا إِلَيْهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَيْنَاكَ نَسْتَحْمِلُكَ، فَحَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا، ثُمَّ حَمَلْتَنَا، فَعَرَفْنَا، أَوْ: ظَنَنَّا أَنَّكَ نَسِيتَ يَمِينَكَ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" انْطَلِقُوا، فَإِنَّمَا حَمَلَكُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِنِّي وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ، فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ، وَتَحَلَّلْتُهَا" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا وہ اس وقت مرغی کھا رہے تھے وہ آدمی ایک طرف کو ہو کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ میں نے قسم کھا رکھی ہے کہ اسے نہیں کھاؤں گا کیونکہ میں مرغیوں کو گندکھاتے ہوئے دیکھتا ہوں، انہوں نے فرمایا قریب آجاؤ کیونکہ میں تمہیں اس کے متعلق بتاتاہوں۔ ایک مرتبہ میں اشعریین کے ایک گروہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے لئے جانوروں کی درخواست کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخدا! میں تمہیں سوار نہیں کرسکوں گا کیونکہ میرے پاس تمہیں سوار کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے؟ ہم کچھ دیر " جب تک اللہ کو منظور ہوا " رکے رہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے روشن پیشانی کے تین اونٹوں کا حکم دے دیا جب ہم واپس جانے لگے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواری کے جانور کی درخواست لے کر آئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی تھی کہ وہ ہمیں سواری کا جانور نہیں دیں گے واپس چلو تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی قسم یاد دلادیں۔ چناچہ ہم دوبارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم آپ کے پاس سواری کے جانور کی درخواست لے کر آئے تھے اور آپ نے قسم کھائی تھی کہ ہمیں سواری کا جانور نہیں دیں گے، پھر آپ نے ہمیں جانور دے دیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تمہیں سوار نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے بخدا! اگر اللہ کو منظور ہوا تو میں جب بھی کوئی قسم کھاؤں گا اور کسی دوسری چیز میں خیر دیکھوں گا تو اسی کو اختیار کر کے اپنی قسم کا کفارہ دے دوں گا۔ گذشہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا إسماعيل ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن يونس بن جبير ، عن حطان بن عبد الله الرقاشي ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاتنا، وسنتنا، فقال: " إنما الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا قال: غير المغضوب عليهم ولا الضالين سورة الفاتحة آية 7، فقولوا: آمين، يجبكم الله تعالى، وإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا قال: سمع الله لمن حمده، فقولوا: ربنا لك الحمد، يسمع الله لكم، وإذا سجد فاسجدوا، وإذا رفع فارفعوا، فإن الإمام يسجد قبلكم، ويرفع قبلكم"، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فتلك بتلك" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: عَلَّمَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَنَا، وَسُنَّتَنَا، فَقَالَ: " إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَالَ: غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، فَقُولُوا: آمِينَ، يُجِبْكُمْ اللَّهُ تَعَالَى، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، يَسْمَعْ اللَّهُ لَكُمْ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، فَإِنَّ الْإِمَامَ يَسْجُدُ قَبْلَكُمْ، وَيَرْفَعُ قَبْلَكُمْ"، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَتِلْكَ بِتِلْكَ" .
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز اور اس کا طریقہ سکھایا اور فرمایا کہ امام کو تو مقرر ہی اقتداء کے لئے کیا جاتا ہے اس لئے وہ تکبیر جب کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ غیرالمغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو آمین کہو اللہ اسے قبول کرلے گا جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنالک الحمد کہو اللہ تمہاری ضرور سنے گا جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ کیونکہ امام تم سے پہلے سجدہ کرے گا اور سر اٹھائے گا یہ اس کے بدلے میں ہوجائے گا۔
حدثنا محمد بن جعفر ، وعفان ، قالا: حدثنا شعبة ، عن عمرو ابن مرة ، قال عفان: اخبرني عمرو بن مرة، قال: سمعت ابا وائل ، قال: حدثنا ابو موسى الاشعري ، ان اعرابيا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، الرجل يقاتل للمغنم، والرجل يقاتل ليذكر، والرجل يقاتل ليرى مكانه، فمن في سبيل الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا، فهو في سبيل الله عز وجل" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو ابْنِ مُرَّةَ ، قَالَ عَفَّانُ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ، وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِيُذْكَرَ، وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِيُرَى مَكَانُهُ، فَمَنْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا، فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ بتائیے کہ ایک آدمی مال غنیمت کے لئے لڑتا ہے دوسرا آدمی اپنے آپ کو بہادرثابت کرنے کے لئے لڑتا ہے اور ایک آدمی ریاکاری کے لئے قتال کرتا ہے ان میں سے اللہ کے راستے میں قتال کرنے والا کون ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اس لئے قتال کرتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے وہی اللہ کے راستہ میں قتال کرنے والا ہے۔
حدثنا مؤمل بن إسماعيل ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا ابو عمران الجوني ، عن ابي بكر بن ابي موسى ، عن ابيه ، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم ومعي نفر من قومي، فقال: " ابشروا، وبشروا من وراءكم، انه من شهد ان لا إله إلا الله صادقا بها، دخل الجنة"، فخرجنا من عند النبي صلى الله عليه وسلم، نبشر الناس، فاستقبلنا عمر بن الخطاب رضي الله عنه، فرجع بنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال عمر: يا رسول الله، إذا يتكل الناس؟ قال: فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعِي نَفَرٌ مِنْ قَوْمِي، فَقَالَ: " أَبْشِرُوا، وَبَشِّرُوا مَنْ وَرَاءَكُمْ، أَنَّهُ مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ صَادِقًا بِهَا، دَخَلَ الْجَنَّةَ"، فَخَرَجْنَا مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نُبَشِّرُ النَّاسَ، فَاسْتَقْبَلَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَرَجَعَ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذًَا يَتَّكِلَ النَّاسُ؟ قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میرے ساتھ میری قوم کے کچھ لوگ بھی تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خوشخبری قبول کرو اور اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو سنا دو کہ جو شخص صدق دل کے ساتھ لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے نکل کر لوگوں کو یہ خوشخبری سنانے لگے اچانک سامنے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ آگئے وہ ہمیں لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس طرح تو لوگ اسی بات پر بھروسہ کرکے بیٹھ جائیں گے اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، مؤمل سييء الحفظ لكنه توبع
حدثنا مصعب بن سلام ، حدثنا الاجلح ، عن ابي بكر بن ابي موسى ، عن ابيه ، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن، فقلت:" يا رسول الله، إن بها اشربة، فما اشرب وما ادع؟ قال:" وما هي؟"، قلت: البتع والمزر، فلم يدر رسول الله صلى الله عليه وسلم ما هو، فقال:" ما البتع وما المزر؟"، قال: اما البتع، فنبيذ الذرة يطبخ حتى يعود بتعا، واما المزر، فنبيذ العسل، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تشربن مسكرا" .حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ سَلَّامٍ ، حَدَّثَنَا الْأَجْلَحُ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، فَقُلْتُ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ بِهَا أَشْرِبَةً، فَمَا أَشْرَبُ وَمَا أَدَعُ؟ قَالَ:" وَمَا هِيَ؟"، قُلْتُ: الْبِتْعُ وَالْمِزْرُ، فَلَمْ يَدْرِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا هُوَ، فَقَالَ:" مَا الْبِتْعُ وَمَا الْمِزْرُ؟"، قَالَ: أَمَّا الْبِتْعُ، فَنَبِيذُ الذُّرَةِ يُطْبَخُ حَتَّى يَعُودَ بِتْعًا، وَأَمَّا الْمِزْرُ، فَنَبِيذُ الْعَسَلِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَشْرَبَنَّ مُسْكِرًا" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہاں کچھ مشروبات رائج ہیں میں ان میں سے کون سا مشروب پیوں اور کون ساچھوڑوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشروبات کے نام پوچھے میں نے بتایا " تبع اور مزر " لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ نہیں پائے کہ یہ کیسے مشروبات ہوتے ہیں اس لئے پوچھا کہ تبع اور مزر کسے کہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ تبع تو جو کی اس نبیذ کو کہتے جسے خوب پکایا جاتا ہے اور مزر شہد کی نبیذ کو کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی نشہ آور چیز مت پینا۔
حكم دارالسلام: قوله: لا تشربن مسكرا صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف مصعب بن سلام. أخطأ الأجلح فى تفسير البتع والمزر
حدثنا عبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي ابو محمد ، حدثنا خالد الحذاء ، عن ابي عثمان النهدي ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزاة، فجعلنا لا نصعد شرفا، ولا نعلو شرفا، ولا نهبط في واد، إلا رفعنا اصواتنا بالتكبير، قال: فدنا منا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" ايها الناس، اربعوا على انفسكم، فإنكم ما تدعون اصم ولا غائبا، إنما تدعون سميعا بصيرا، إن الذي تدعون اقرب إلى احدكم من عنق راحلته، يا عبد الله بن قيس، الا اعلمك كلمة من كنوز الجنة؟ لا حول ولا قوة إلا بالله" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الثَّقَفِيُّ أَبُو مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَن أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، فَجَعَلْنَا لَا نَصْعَدُ شَرَفًا، وَلَا نَعْلُو شَرَفًا، وَلَا نَهْبِطُ فِي وَادٍ، إِلَّا رَفَعْنَا أَصْوَاتَنَا بِالتَّكْبِيرِ، قَالَ: فَدَنَا مِنَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّكُمْ مَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، إِنَّمَا تَدْعُونَ سَمِيعًا بَصِيرًا، إِنَّ الَّذِي تَدْعُونَ أَقْرَبُ إِلَى أَحَدِكُمْ مِنْ عُنُقِ رَاحِلَتِهِ، يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، أَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَةً مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جہاد کے سفر میں تھے جس ٹیلے یا بلند جگہ پر چڑھتے یا کسی نشیب میں اترتے تو بلند آواز سے تکبیر کہتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے قریب آکر فرمایا لوگو! اپنے ساتھ نرمی کرو، تم کسی بہرے یا غائب اللہ کو نہیں پکار رہے، تم سمیع وبصیر کو پکار رہے ہو جو تمہاری سواری کی گردن سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے، اے عبداللہ بن قیس کیا میں تمہیں جنت کے ایک خزانے کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں فرمایا لاحول ولاقوۃ الاباللہ (جنت کا ایک خزانہ ہے)
حدثنا ابو المغيرة وهو النضر بن إسماعيل يعني القاص ، حدثنا بريد ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كان يوم القيامة، لم يبق مؤمن إلا اتي بيهودي، او نصراني، حتى يدفع إليه، يقال له: هذا فداؤك من النار" ، قال ابو بردة: فاستحلفني عمر ابن عبد العزيز بالله الذي لا إله إلا هو: اسمعت ابا موسى يذكره عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: قلت: نعم، فسر بذلك عمر.حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ وَهُوَ النَّضْرُ بن إسماعيل يعني القاص ، حَدَّثَنَا بُرَيْدٌ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ، لَمْ يَبْقَ مُؤْمِنٌ إِلَّا أُتِيَ بِيَهُودِيٍّ، أَوْ نَصْرَانِيٍّ، حَتَّى يُدْفَعَ إِلَيْهِ، يُقَالُ لَهُ: هَذَا فِدَاؤُكَ مِنَ النَّارِ" ، قَالَ أَبُو بُرْدَةَ: فَاسْتَحْلَفَنِي عُمَرُ ابْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بِاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ: أَسَمِعْتَ أَبَا مُوسَى يَذْكُرُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، فَسُرَّ بِذَلِكَ عُمَرُ.
ایک مرتبہ ابوبردہ نے حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو اپنے والد صاحب کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو مسلمان بھی فوت ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کسی یہودی یا عیسائی کو جہنم میں داخل کردیتا ہے، ابوبردہ نے گزشتہ حدیث حضرت عمرعبدالعزیز رحمہ اللہ کو سنائی تو انہوں نے ابوبردہ سے اس اللہ کے نام کی قسم کھانے کے لئے کہا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ یہ حدیث ان کے والد صاحب نے بیان کی ہے اور انہوں نے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اور سعید بن ابی بردہ، عوف کی اس بات کی تردید نہیں کرتے۔
حكم دارالسلام: صحيح، م: 2767، وهذا إسناد ضعيف لضعف النضر بن إسماعيل، وللاختلاف فيه على أبى بردة