حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص نردشیر (بارہ ٹانی) کے ساتھ کھیلتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد منقطع، سعيد لم يلق أبا موسي، وقد اختلف فيه على سعيد
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص نردشیر (بارہ ٹانی) کے ساتھ کھیلتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن، وهذا إسناد اختلف فيه على أسامة بن زيد
حدثنا وكيع ، وابن جعفر ، قالا: حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن مرة الهمداني ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كمل من الرجال كثير، ولم يكمل من النساء إلا آسية امراة فرعون، ومريم بنت عمران، وإن فضل عائشة على النساء، كفضل الثريد على سائر الطعام" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَابْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرٍو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ مُرَّة الْهَمْدَانِيِّ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيرٌ، وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا آسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ، وَمَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ، وَإِنَّ فَضْلَ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ، كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مردوں میں سے کامل افراد تو بہت گذرے ہیں لیکن عورتوں میں کامل عورتیں صرف حضرت آسیہ رضی اللہ عنہ " جو فرعون کی بیوی تھیں " اور حضرت مریم (علیہا السلام) گذری ہیں اور تمام عورتوں پر عائشہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کو فضیلت حاصل ہے۔
حدثنا وكيع ، عن المسعودي ، عن عدي بن ثابت ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، ان اسماء لما قدمت لقيها عمر بن الخطاب رضي الله عنه في بعض طرق المدينة، فقال: آلحبشية هي؟ قالت: نعم، فقال: نعم القوم انتم، لولا انكم سبقتم بالهجرة، فقالت هي لعمر: كنتم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يحمل راجلكم، ويعلم جاهلكم، وفررنا بديننا، اما إني لا ارجع حتى اذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فرجعت إليه، فقالت له، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " بل لكم الهجرة مرتين: هجرتكم إلى المدينة، وهجرتكم إلى الحبشة" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ الْمَسْعُودِيِّ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، أَنَّ أَسْمَاءَ لَمَّا قَدِمَتْ لَقِيَهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ: آلْحَبَشِيَّةُ هِيَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، فَقَالَ: نِعْمَ الْقَوْمُ أَنْتُمْ، لَوْلَا أَنَّكُمْ سَبَقْتُمْ بِالْهِجْرَةِ، فَقَالَتْ هِيَ لِعُمَرَ: كُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْمِلُ رَاجِلَكُمْ، وَيُعَلِّمُ جَاهِلَكُمْ، وَفَرَرْنَا بِدِينِنَا، أَمَا إِنِّي لَا أَرْجِعُ حَتَّى أَذْكُرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَجَعَتْ إِلَيْهِ، فَقَالَتْ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَلْ لَكُمْ الْهِجْرَةُ مَرَّتَيْنِ: هِجْرَتُكُمْ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَهِجْرَتُكُمْ إِلَى الْحَبَشَةِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت اسماء رضی اللہ عنہ حبشہ سے واپس آئیں تو مدینہ منورہ کے کسی راستے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کا آمنا سامنا ہوگیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا حبشہ جانے والی ہو؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگ بہترین قوم تھے اگر تم سے ہجرت مدینہ نہ چھوٹتی انہوں نے فرمایا کہ تم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے وہ تمہارے پیدل چلنے والوں کو سواری دیتے تمہارے جاہل کو علم سکھاتے اور ہم لوگ اس وقت اپنے دین کو بچانے کے لئے نکلے تھے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کئے بغیر اپنے گھر واپس نہ جاؤں گی چناچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ساری بات بتادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری دوہجرتیں ہوئیں ایک مدینہ منورہ کی طرف اور دوسری ہجرت حبشہ کی جانب۔
حدثنا وكيع ، عن المسعودي . ويزيد ، قال: اخبرنا المسعودي، عن عمرو بن مرة ، عن ابي عبيدة ، عن ابي موسى ، قال: سمى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم نفسه اسماء، منها ما حفظنا، فقال:: " انا محمد، واحمد، والمقفي، والحاشر، ونبي الرحمة" ، قال يزيد:" ونبي التوبة، ونبي الملحمة".حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ الْمَسْعُودِيِّ . وَيَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: سَمَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ أَسْمَاءً، مِنْهَا مَا حَفِظْنَا، فَقَالَ:: " أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَحْمَدُ، وَالْمُقَفِّي، وَالْحَاشِرُ، وَنَبِيُّ الرَّحْمَةِ" ، قَالَ يَزِيدُ:" وَنَبِيُّ التَّوْبَةِ، وَنَبِيُّ الْمَلْحَمَةِ".
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے کچھ نام بتائے جو ہمیں پہلے سے یاد اور معلوم نہ تھے چناچہ فرمایا کہ میں محمد ہوں، احمد، مقفی، حاشر اور نبی الرحمۃ ہوں صلی اللہ علیہ وسلم ۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ سوال پوچھا کہ اگر کوئی آدمی کسی قوم سے محبت کرتا ہے لیکن ان تک پہنچ نہیں پاتا تو کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انسان اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی تکلیف دہ بات کو سن کر اللہ سے زیادہ اس پر صبر کرنے والا کوئی نہیں ہے اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرایا جاتا ہے لیکن وہ پھر بھی انہیں رزق دیتا ہے
حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا سفيان ، عن زياد بن علاقة ، عن رجل ، عن ابي موسى ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فناء امتي بالطعن والطاعون"، فقيل: يا رسول الله، هذا الطعن قد عرفناه، فما الطاعون؟ قال:" وخز اعدائكم من الجن، وفي كل شهداء" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَنَاءُ أُمَّتِي بِالطَّعْنِ وَالطَّاعُونِ"، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الطَّعْنُ قَدْ عَرَفْنَاهُ، فَمَا الطَّاعُونُ؟ قَالَ:" وَخْزُ أَعْدَائِكُمْ مِنَ الْجِنِّ، وَفِي كُلٍّ شُهَدَاءُ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت " طعن اور طاعون " سے فناء ہوگی کسی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! طعن کا معنی تو ہم نے سمجھ لیا (کہ نیزوں سے مارنا) طاعون سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے دشمن جنات کے کچوکے اور دونوں صورتوں میں شہادت ہے۔
حكم دارالسلام: وهذا إسناد اختلف فيه على زياد بن علا قة
حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا شعبة . وابن جعفر ، اخبرنا شعبة، عن عمرو بن مرة ، عن ابي عبيدة ، عن ابي موسى . قال ابن جعفر في حديثه: سمعت ابا عبيدة يحدث، عن ابي موسى، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله تعالى يبسط يده بالليل ليتوب مسيء النهار، ويبسط يده بالنهار ليتوب مسيء الليل، حتى تطلع الشمس من مغربها" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . وَابْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى . قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ فِي حَدِيثِهِ: سَمِعْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَبْسُطُ يَدَهُ بِاللَّيْلِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ النَّهَارِ، وَيَبْسُطُ يَدَهُ بِالنَّهَارِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ اللَّيْلِ، حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا رات کے وقت اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کرلے اور دن میں اپنے ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ رات میں گناہ کرنے والا توبہ کرلے یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوجاتا۔
حدثنا عبد الرحمن ، وابن جعفر ، قالا: حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي عبيدة ، عن ابي موسى ، قال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم باربع، فقال: " إن الله عز وجل لا ينام، ولا ينبغي له ان ينام، يخفض القسط، ويرفعه، يرفع إليه عمل الليل بالنهار، وعمل النهار بالليل" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، وَابْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَرْبَعٍ، فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَنَامُ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ، يَخْفِضُ الْقِسْطَ، وَيَرْفَعُهُ، يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلُ اللَّيْلِ بِالنَّهَارِ، وَعَمَلُ النَّهَارِ بِاللَّيْلِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور چارباتیں بیان فرمائیں اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کو نیند نہیں آتی اور نہ ہی نیند ان کی شایان شان ہے وہ ترازو کو جھکاتے اور اونچا کرتے ہیں رات کے اعمال دن کے وقت اور دن کے اعمال رات کے وقت ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔