حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص گوٹیوں کے ساتھ کھیلتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول اللہ کی نافرمانی کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد اختلف فيه على سعيد بن أبى هند
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ سونا اور ریشم دونوں میری امت کی عورتوں کے لئے حلال اور مردوں کے لئے حرام ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده، وهذا إسناد اختلف فيه على عبد الله بن سعيد
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ میں ریشم اور بائیں ہاتھ میں سونا بلند کیا اور فرمایا یہ دونوں میری امت کی عورتوں کے لئے حلال اور مردوں کے لئے حرام ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده، وهذا إسناد اختلف فيه على نافع
ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی پھر ایک حدیث ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور سنتوں کی وضاحت کرتے ہوئے ہمیں نماز کا طریقہ سکھایا اور فرمایا جب تم نماز پڑھو تو اپنی صفیں سیدھی کرلیا کرو اور تم میں سے ایک آدمی کو امام بن جانا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا الثوري ، عن قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ارض قومي، فلما حضر الحج، حج رسول الله صلى الله عليه وسلم وحججت، فقدمت عليه وهو نازل بالابطح، فقال لي:" بم اهللت يا عبد الله بن قيس؟"، قال: قلت: لبيك بحج كحج رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" احسنت"، ثم قال:" هل سقت هديا؟"، فقلت: ما فعلت، فقال لي:" اذهب، فطف بالبيت، وبين الصفا والمروة، ثم احلل"، فانطلقت، ففعلت ما امرني، واتيت امراة من قومي، فغسلت راسي بالخطمي، وفلته، ثم اهللت بالحج يوم التروية، فما زلت افتي الناس بالذي امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى توفي، ثم زمن ابي بكر رضي الله عنه، ثم زمن عمر رضي الله عنه، فبينا انا قائم عند الحجر الاسود، او المقام، افت الناس بالذي امرني به رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذ اتاني رجل، فسارني، فقال: لا تعجل بفتياك، فإن امير المؤمنين قد احدث في المناسك شيئا، فقلت: ايها الناس، من كنا افتيناه في المناسك شيئا، فليتئد، فإن امير المؤمنين قادم، فبه فاتموا، قال: فقدم عمر رضي الله عنه، فقلت: يا امير المؤمنين، هل احدثت في المناسك شيئا؟ قال: نعم، ان ناخذ بكتاب الله عز وجل، فإنه يامر بالتمام، وان ناخذ بسنة نبينا صلى الله عليه وسلم، فإنه لم يحلل، حتى نحر الهدي .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَرْضِ قَوْمِي، فَلَمَّا حَضَرَ الْحَجُّ، حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَجَجْتُ، فَقَدِمْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ نَازِلٌ بِالْأَبْطَحِ، فَقَالَ لِي:" بِمَ أَهْلَلْتَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ؟"، قَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ بِحَجٍّ كَحَجِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَحْسَنْتَ"، ثُمَّ قَالَ:" هَلْ سُقْتَ هَدْيًا؟"، فَقُلْتُ: مَا فَعَلْتُ، فَقَالَ لِي:" اذْهَبْ، فَطُفْ بِالْبَيْتِ، وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ احْلِلْ"، فَانْطَلَقْتُ، فَفَعَلْتُ مَا أَمَرَنِي، وَأَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَوْمِي، فَغَسَلَتْ رَأْسِي بِالْخِطْمِيِّ، وَفَلَّتْهُ، ثُمَّ أَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ، فَمَا زِلْتُ أُفْتِي النَّاسَ بِالَّذِي أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تُوُفِّيَ، ثُمَّ زَمَنَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ثُمَّ زَمَنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَبَيْنَا أَنَا قَائِمٌ عِنْدَ الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ، أَوْ الْمَقَامِ، أُفْتِ النَّاسَ بِالَّذِي أَمَرَنِي بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ أَتَانِي رَجُلٌ، فَسَارَّنِي، فَقَالَ: لَا تَعْجَلْ بِفُتْيَاكَ، فَإِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ أَحْدَثَ فِي الْمَنَاسِكِ شَيْئًا، فَقُلْتُ: أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ فِي الْمَنَاسِكِ شَيْئًا، فَلْيَتَّئِدْ، فَإِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ، فَبِهِ فَأْتَمُّوا، قَالَ: فَقَدِمَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، هَلْ أَحْدَثْتَ فِي الْمَنَاسِكِ شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ، أَنْ نَأْخُذَ بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالتَّمَامِ، وَأَنْ نَأْخُذَ بِسُنَّةِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّهُ لَمْ يَحْلِلْ، حَتَّى نَحَرَ الْهَدْيَ .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی قوم کے علاقے میں بھیج دیا، جب حج کاموسم قریب آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لئے تشریف لے گئے میں نے بھی حج کی سعادت حاصل کی، میں جب حاضرخدمت میں ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابطح میں پڑاؤ کئے ہوئے تھے مجھ سے پوچھا کہ اے عبداللہ بن قیس! تم نے کس نیت سے احرام باندھا؟ میں نے عرض کیا " لبیک بحج کحج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا یہ بتاؤ کہ کیا اپنے ساتھ ہدی کا جانور لائے ہو؟ میں نے کہا نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا کر بیت اللہ کا طواف کرو، صفا مروہ کے درمیان سعی کرو اور حلال ہوجاؤ۔ چناچہ میں چلا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق کرلیا پھر اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا، اس نے " خطمی " سے میرا سر دھویا اور میرے سر کی جوئیں دیکھیں، پھر میں نے آٹھ ذی الحج کو حج کا احرام باندھ لیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال تک لوگوں کو یہی فتویٰ دیتا رہا جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی یہی صورت حال رہی جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو ایک دن میں حجر اسود کے قریب کھڑا ہوا تھا اور لوگوں کو یہی مسئلہ بتارہا تھا جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا کہ اچانک ایک آدمی آیا اور سرگوشی میں مجھ سے کہنے لگا کہ یہ فتویٰ دینے میں جلدی سے کام مت لیجئے کیونکہ امیرالمؤمنین نے مناسک حج کے حوالے سے کچھ نئے احکام جاری کئے ہیں۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ اے لوگو! جسے ہم نے مناسک حج کے حوالے سے کوئی فتویٰ دیا ہو وہ انتظار کرے کیونکہ امیرالمؤمنین آنے والے ہیں آپ ان ہی کی اقتداء کریں، پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تو میں نے ان سے پوچھا اے امیرالمؤمنین! کیا مناسک حج کے حوالے سے آپ نے کچھ نئے احکام جاری کئے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہاں! اگر ہم کتاب اللہ کو لیتے ہیں تو وہ ہمیں اتمام کا حکم دیتی ہے اور اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لیتے ہیں تو انہوں نے قربانی کرنے تک احرام نہیں کھولا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1559، م: 1221، 1222
حدثنا وكيع ، عن حرملة بن قيس ، عن محمد بن ابي ايوب ، عن ابي موسى ، قال: امانان كانا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، رفع احدهما، وبقي الآخر: وما كان الله ليعذبهم وانت فيهم وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون سورة الانفال آية 33 .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ حَرْمَلَةَ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: أَمَانَانِ كَانَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رُفِعَ أَحَدُهُمَا، وَبَقِيَ الْآخَرُ: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ سورة الأنفال آية 33 .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں دو طرح کی امان تھی جن میں سے ایک اٹھ چکی ہے اور دوسری باقی ہے، (١) اللہ تعالیٰ انہیں آپ کی موجودگی میں عذاب نہیں دے گا (٢) اللہ انہیں اس وقت تک عذاب نہیں دے گا جب تک یہ استغفار کرتے رہیں گے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة محمد بن أبى أيوب
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ میں ریشم اور بائیں ہاتھ میں سونا بلند کیا اور فرمایا یہ دونوں میری امت کی عورتوں کے لئے حلال اور مردوں کے لئے حرام ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بشواهده، وهذا إسناد اختلف فيه على نافع
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن إسماعيل بن ابي خالد ، عن اخيه ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: قدم رجلان معي من قومي، قال: فاتينا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فخطبا، وتكلما، فجعلا يعرضان بالعمل، فتغير وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، او: رئي في وجهه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم " إن اخونكم عندي من يطلبه، فعليكما بتقوى الله عز وجل"، قال فما استعان بهما على شيء .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ أَخِيهِ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: قَدِمَ رَجُلَانِ مَعِي مِنْ قَوْمِي، قَالَ: فَأَتَيْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَطَبَا، وَتَكَلَّمَا، فَجَعَلَا يُعَرِّضَانِ بِالْعَمَلِ، فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ: رُئِيَ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِنَّ أَخْوَنَكُمْ عِنْدِي مَنْ يَطْلُبُهُ، فَعَلَيْكُمَا بِتَقْوَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ"، قَالَ فَمَا اسْتَعَانَ بِهِمَا عَلَى شَيْءٍ .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے ساتھ میری قوم کے دو آدمی بھی آئے تھے ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ان دونوں نے دوران گفتگو کوئی عہدہ طلب کیا جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور فرمایا میرے نزدیک تم میں سب سے بڑا خائن وہ ہے جو کسی عہدے کا طلب گار ہوتا ہے لہٰذا تم دونوں تقویٰ کو لازم پکڑو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کوئی خدمت نہیں لی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام أخي إسماعيل بن أبى خالد
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن قتادة ، عن ابي عثمان النهدي ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم حسبته قال: في حائط فجاء رجل، فسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " اذهب، فاذن له، وبشره بالجنة"، فذهبت، فإذا هو ابو بكر رضي الله عنه، فقلت: ادخل، وابشر بالجنة، فما زال يحمد الله عز وجل، حتى جلس، ثم جاء آخر، فسلم، فقال:" ائذن له وبشره بالجنة"، فانطلقت، فإذا هو عمر بن الخطاب رضي الله عنه، فقلت: ادخل، وابشر بالجنة، فما زال يحمد الله عز وجل حتى جلس، ثم جاء آخر، فسلم، فقال:" اذهب، فاذن له، وبشره بالجنة على بلوى شديدة"، قال: فانطلقت، فإذا هو عثمان، فقلت: ادخل، وابشر بالجنة على بلوى شديدة، قال: فجعل يقول: اللهم صبرا، حتى جلس .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَسِبْتُهُ قَالَ: فِي حَائِطٍ فَجَاءَ رَجُلٌ، فَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اذْهَبْ، فَأْذَنْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، فَذَهَبْتُ، فَإِذَا هُوَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: ادْخُلْ، وَأَبْشِرْ بِالْجَنَّةِ، فَمَا زَالَ يَحْمَدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، حَتَّى جَلَسَ، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ، فَسَلَّمَ، فَقَالَ:" ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ"، فَانْطَلَقْتُ، فَإِذَا هُوَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: ادْخُلْ، وَأَبْشِرْ بِالْجَنَّةِ، فَمَا زَالَ يَحْمَدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى جَلَسَ، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ، فَسَلَّمَ، فَقَالَ:" اذْهَبْ، فَأْذَنْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى شَدِيدَةٍ"، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ، فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ، فَقُلْتُ: ادْخُلْ، وَأَبْشِرْ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى شَدِيدَةٍ، قَالَ: فَجَعَلَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ صَبْرًا، حَتَّى جَلَسَ .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی باغ میں تھا ایک آدمی آیا اور اس نے سلام کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اسے اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنادو میں گیا تو وہ حضرت ابوبکرصدق رضی اللہ عنہ تھے میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے آئیے اور جنت کی خوشخبری قبول کیجئے وہ مسلسل اللہ کی تعریف کرتے ہوئے ایک جگہ پر بیٹھ گئے پھر دوسرا آدمی آیا اس نے بھی سلام کیا نبی کریم نے فرمایا اسے بھی اجازت اور خوشخبری دے دو میں گیا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے آئیے اور جنت کی خوشخبری قبول کیجئے وہ مسلسل اللہ کی تعریف کرتے ہوئے ایک جگہ پر بیٹھ گئے پھر تیسرا آدمی آیا اس نے بھی سلام کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا کر اسے بھی اجازت دے دو اور ایک امتحان کے ساتھ جنت کی خوشخبری سنا دو میں گیا تو وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے آئیے اور ایک سخت امتحان کے ساتھ جنت کی خوشخبری قبول کیجئے وہ یہ کہتے ہوئے کہ " اے اللہ! ثابت قدم رکھنا " آکر بیٹھ گئے۔
حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تین مرتبہ سلام کیا، انہیں اجازت نہیں ملی تو وہ واپس چلے گئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے پیچھے قاصد کو بھیجا کہ واپس کیوں چلے گئے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جب تم میں سے کوئی شخص تین مرتبہ سلام کرچکے اور اسے جواب نہ ملے تو اسے واپس لوٹ جانا چاہئے۔