حدثنا هشيم ، اخبرنا حصين ، عن الشعبي ، عن محمد بن صيفي الانصاري ، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم في يوم عاشوراء، فقال:" اصمتم يومكم هذا؟" فقال بعضهم: نعم، وقال بعضهم: لا، قال: " فاتموا بقية يومكم هذا"، وامرهم ان يؤذنوا اهل العروض ان يتموا يومهم ذلك .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَيْفِيٍّ الْأَنْصَاريِّ ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ:" أَصُمْتُمْ يَوْمَكُمْ هَذَا؟" فَقَالَ بَعْضُهُمْ: نَعَمْ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا، قَالَ: " فَأَتِمُّوا بَقِيَّةَ يَوْمِكُمْ هَذَا"، وَأَمَرَهُمْ أَنْ يُؤْذِنُوا أَهْلَ الْعَرُوضِ أَنْ يُتِمُّوا يَوْمَهُمْ ذَلِكَ .
حضرت محمد بن صیفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عاشورہ کے دن ہمارے یہاں تشریف لائے اور فرمایا کیا تم نے آج کا روزہ رکھا ہے؟ بعض نے اثبات میں جواب دیا اور بعض نے نفی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج کے بقیہ دن کھائے پیئے بغیر مکمل کرلو اور حکم دیا کہ اہل مدینہ اردگرد کے لوگوں کو بھی اطلاع کردیں کہ اپنا دین کھائے پیئے بغیر مکمل کریں۔
حدثنا هشيم ، اخبرنا عثمان بن حكيم الانصاري ، عن خارجة بن زيد ، عن عمه يزيد بن ثابت ، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما وردنا البقيع، إذا هو بقبر جديد، فسال عنه، فقيل: فلانة، فعرفها، فقال:" الا آذنتموني بها؟" قالوا: يا رسول الله، كنت قائلا صائما، فكرهنا ان نؤذنك، فقال:" لا تفعلوا، لا يموتن فيكم ميت ما كنت بين اظهركم إلا آذنتموني به، فإن صلاتي عليه له رحمة"، قال: ثم اتى القبر، فصفنا خلفه، وكبر عليه اربعا .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ الْأَنْصَارِيُّ ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ عَمِّهِ يَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا وَرَدْنَا الْبَقِيعَ، إِذَا هُوَ بِقَبْرٍ جَدِيدٍ، فَسَأَلَ عَنْهُ، فَقِيلَ: فُلَانَةُ، فَعَرَفَهَا، فَقَالَ:" أَلَا آذَنْتُمُونِي بِهَا؟" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُنْتَ قَائِلًا صَائِمًا، فَكَرِهْنَا أَنْ نُؤْذِنَكَ، فَقَالَ:" لَا تَفْعَلُوا، لَا يَمُوتَنَّ فِيكُمْ مَيِّتٌ مَا كُنْتُ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ إِلَا آذَنْتُمُونِي بِهِ، فَإِنَّ صَلَاتِي عَلَيْهِ لَهُ رَحْمَةٌ"، قَالَ: ثُمَّ أَتَى الْقَبْرَ، فَصَفَّنَا خَلْفَهُ، وَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا .
حضرت یزید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے جنت البقیع میں پہنچے تو وہاں ایک نئی قبر نظر آئی نبی کے پوچھا کہ یہ کس کی قبر ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ فلاں عورت کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہچان گئے اور فرمایا تم نے اس کے متعلق مجھے کیوں نہیں بتایا؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ روزے کی حالت میں تھے اور قیلولہ فرما رہے تھے ہم نے آپ کو تنگ کرنا مناسب نہ سمجھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا نہ کیا کرو، میں جب تک تم میں موجود ہوں تو مجھے اپنے درمیان فوت ہونے والوں کی اطلاع ضرور دیا کرو کیونکہ میرا اس کی نماز جنازہ پڑھانا اس کے لئے باعث رحمت ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر کے قریب پہنچنے ہم پیچھے صف بندی کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر چار تکبیرات کہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن ثبت سماع خارجة بن زيد من عمه يزيد بن ثابت، وإلا فمنقطع
حدثنا ابن نمير ، عن عثمان يعني ابن حكيم ، عن خارجة بن زيد ، عن عمه يزيد بن ثابت ، انه كان جالسا مع النبي صلى الله عليه وسلم في اصحابه، فطلعت جنازة، فلما رآها رسول الله صلى الله عليه وسلم ثار، وثار اصحابه معه، فلم يزالوا قياما حتى نفذت، قال:" والله ما ادري من تاذ بها، او من تضايق المكان، ولا احسبها إلا يهوديا، او يهودية، وما سالنا عن قيامه صلى الله عليه وسلم .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ عُثْمَانَ يَعْنِي ابْنَ حَكِيمٍ ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ عَمِّهِ يَزِيدَ بْنِ ثَابِتٍ ، أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَصْحَابِهِ، فَطَلَعَتْ جِنَازَةٌ، فَلَمَّا رَآهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَارَ، وَثَارَ أَصْحَابُهُ مَعَهُ، فَلَمْ يَزَالُوا قِيَامًا حَتَّى نَفَذَتْ، قَالَ:" وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مِنْ تَأَذٍّ بِهَا، أَوْ مِنْ تَضَايُقِ الْمَكَانِ، وَلَا أَحْسِبُهَا إِلَّا يَهُودِيًّا، أَوْ يَهُودِيَّةً، وَمَا سَأَلْنَا عَنْ قِيَامِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
حضرت یزید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جنازہ آگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھ کر کھڑے ہوگئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی کھڑے ہوگئے اور اس وقت تک کھڑے رہے جب تک جنازہ گذر نہ گیا واللہ میں نہیں جانتا کہ کتنے لوگوں کو اس جنازے کیوجہ سے یا جگہ کے تنگ ہونے کی وجہ سے تکلیف ہوئی اور میرا خیال یہی ہے کہ وہ جنازہ کسی یہودی مرد یا عورت کا تھا لیکن ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کھڑے ہونے کی وجہ نہیں پوچھی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد يصح إن ثبت سماع خارجة بن زيد من عمه يزيد بن ثابت
حضرت شرید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گذرے میں اس وقت اس طرح بیٹھا ہوا تھا کہ اپنا بایاں ہاتھ اپنی کمر کے پیچھے رکھ ہاتھ کے نچلے حصے پر ٹیک لگا رکھی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم ان لوگوں کی طرح بیٹھتے ہو جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا۔
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حماد بن سلمة ، حدثنا محمد بن عمرو ، عن ابي سلمة ، عن الشريد ، ان امه اوصت ان يعتقوا عنها رقبة مؤمنة، فسال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال: عندي جارية سوداء نوبية، فاعتقها عنها؟ فقال:" ائت بها"، فدعوتها، فجاءت، فقال لها:" من ربك؟"، قالت: الله، قال:" من انا؟" قالت: رسول الله، قال: " اعتقها، فإنها مؤمنة" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنِ الشَّرِيدِ ، أَنَّ أُمَّهُ أَوْصَتْ أَنْ يُعْتِقُوا عَنْهَا رَقَبَةً مُؤْمِنَةً، فَسَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: عِنْدِي جَارِيَةٌ سَوْدَاءُ نُوبِيَّةٌ، فَأُعْتِقُهَا عَنْهَا؟ فَقَالَ:" ائْتِ بِهَا"، فَدَعَوْتُهَا، فَجَاءَتْ، فَقَالَ لَهَا:" مَنْ رَبُّكِ؟"، قَالَتْ: اللَّهُ، قَالَ:" مَنْ أَنَا؟" قَالَتْ: رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: " أَعْتِقْهَا، فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ" .
حضرت شرید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہیں ان کی والدہ نے یہ وصیت کی کہ ان کی طرف سے ایک مسلمان غلام آزاد کردیں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھتے ہوئے کہا کہ میرے پاس حبشہ کے ایک علاقے نوبیہ کی ایک باندی ہے کیا میں اسے آزاد کرسکتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے لے کر آؤ میں نے اسے بلایا وہ آگئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا تیرا رب کون ہے؟ اس نے کہا اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا میں کون ہوں۔؟ اس نے جواب دیا آپ اللہ کے رسول ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے آزاد کردو یہ مسلمان ہے۔
حضرت شرید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مالدار کا ٹال مٹول کرنا اس کی شکایت اور اسے قید کرنے کو حلال کردیتا ہے۔
حضرت شرید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے امیہ بن ابی صلت کے اشعار سنانے کو کہا میں اشعار سنانے لگا جب بھی ایک شعر سناتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے اور سناؤ حتیٰ کہ میں نے سو شعر سنا ڈالے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قریب تھا کہ امیہ مسلمان ہوجاتا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2255، عبد الله بن عبدالرحمن ضعيف لكنه توبع
حدثنا مكي بن إبراهيم ، حدثنا ابن جريج ، قال: اخبرني إبراهيم بن ميسرة ، عن عمرو بن الشريد ، انه سمعه يخبره عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه كان إذا وجد الرجل راقدا على وجهه، ليس على عجزه شيء، ركضه برجله، وقال: " هي ابغض الرقدة إلى الله عز وجل" .حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، عَنْ عَمْرٍو بْنِ الشَّرِيدِ ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُخْبِرُهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ إِذَا وَجَدَ الرَّجُلَ رَاقِدًا عَلَى وَجْهِهِ، لَيْسَ عَلَى عَجُزِهِ شَيْءٌ، رَكَضَهُ بِرِجْلِهِ، وَقَالَ: " هِيَ أَبْغَضُ الرِّقْدَةِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت شرید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی آدمی کو چہرے کے بل اس طرح لیٹے ہوئے دیکھتے کہ اس کی سرین پر کچھ نہ ہوتا تو اسے پاؤں سے ٹھوکر مارتے اور فرماتے اللہ کے نزدیک لیٹنے کا یہ طریقہ سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے۔
حضرت شرید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جب کوئی شخص شراب نوشی کرے اسے کوڑے مارو، دوبارہ پینے پر پھر کوڑے مارو سہ بارہ پینے پر پھر کوڑے مارو، چوتھی یا پانچویں مرتبہ فرمایا کہ پھر اگر پیئے تو اسے قتل کردو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة، عبد الله بن أبى عاصم لم يوجد له ترجمة