حضرت نافع بن عتبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی نے فرمایا تم لوگ جزیرہ عرب کے لوگوں سے قتال کرو گے اور اللہ تمہیں ان پر فتح عطاء فرمائے گا اور پھر اہل فارس سے قتال کروگے اور اللہ ان پر بھی فتح دے گا، پھر اہل روم سے قتال کرو گے اور اللہ ان پر بھی فتح دے گا، پھر دجال سے قتال کرو گے اور اللہ اس پر بھی فتح دے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2900، المسعودي مختلط، وسماع يزيد منه بعد الاختلاط، وقد توبعا
حدثنا معاوية بن عمرو ، حدثنا ابو إسحاق يعني الفزاري ، عن عبد الملك بن عمير ، عن جابر بن سمرة ، عن نافع بن عتبة ، قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزاة، فاتاه قوم من قبل المغرب عليهم ثياب الصوف، فوافقوه عند اكمة، وهم قيام وهو قاعد، فاتيته فقمت بينهم وبينه فحفظت منه اربع كلمات اعدهن في يدي قال: " تغزون جزيرة العرب فيفتحها الله، ثم تغزون فارس فيفتحها الله، ثم تغزون الروم فيفتحها الله، ثم تغزون الدجال فيفتحه الله،" . قال نافع: يا جابر، الا ترى ان الدجال لا يخرج حتى تفتح الروم.حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ يَعْنِي الْفَزَارِيَّ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُتْبَةَ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، فَأَتَاهُ قَوْمٌ مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ عَلَيْهِمْ ثِيَابُ الصُّوفِ، فَوَافَقُوهُ عِنْدَ أَكَمَةٍ، وَهُمْ قِيَامٌ وَهُوَ قَاعِدٌ، فَأَتَيْتُهُ فَقُمْتُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَهُ فَحَفِظْتُ مِنْهُ أَرْبَعَ كَلِمَاتٍ أَعُدُّهُنَّ فِي يَدِي قَالَ: " تَغْزُونَ جَزِيرَةَ الْعَرَبِ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ، ثُمَّ تَغْزُونَ فَارِسَ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ، ثُمَّ تَغْزُونَ الرُّومَ فَيَفْتَحُهَا اللَّهُ، ثُمَّ تَغْزُونَ الدَّجَّالَ فَيَفْتَحُهُ اللَّهُ،" . قَالَ نَافِعٌ: يَا جَابِرُ، أَلَا تَرَى أَنَّ الدَّجَّالَ لَا يَخْرُجُ حَتَّى تُفْتَحَ الرُّومُ.
حضرت نافع بن عتبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کے ہمراہ کسی غزوے میں تھا، نبی کے پاس مغرب کی جانب سے ایک قوم آئی، ان لوگوں نے اون کے کپڑے پہن رکھے تھے، ایک ٹیلے کے قریب ان کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آمنا سامنا ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اور وہ لوگ کھڑے ہوئے تھے، میں بھی آکر ان کے درمیان کھڑا ہوگیا، میں نے گن کر چار باتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محفوظ کی ہیں، نبی نے فرمایا تم لوگ جزیرہ عرب کے لوگوں سے قتال کرو گے اور اللہ تمہیں ان پر فتح عطاء فرمائے گا اور پھر اہل فارس سے قتال کروگے اور اللہ ان پر بھی فتح دے گا، پھر اہل روم سے قتال کرو گے اور اللہ ان پر بھی فتح دے گا، پھر دجال سے قتال کرو گے اور اللہ اس پر بھی فتح دے گا۔
حدثنا عبد الصمد ، حدثني ابي ، حدثنا حسين يعني المعلم ، عن ابن بريدة ، حدثني حنظلة بن علي ، ان محجن بن الادرع حدثه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل المسجد، فإذا هو برجل قد قضى صلاته وهو يتشهد، وهو يقول: اللهم إني اسالك بالله الواحد الاحد الصمد الذي لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا احد ان تغفر لي ذنوبي، إنك انت الغفور الرحيم، قال: فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم: " قد غفر له، قد غفر له، قد غفر له" ثلاث مرار .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ يَعْنِي الْمُعَلِّمَ ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، حَدَّثَنِي حَنْظَلَةُ بْنُ عَلِيٍّ ، أَنَّ مِحْجَنَ بْنَ الْأَدْرَعِ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ قَدْ قَضَى صَلَاتَهُ وَهُوَ يَتَشَهَّدُ، وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِاللَّهِ الْوَاحِدِ الْأَحَدِ الصَّمَدِ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ أَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوبِي، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ، قَالَ: فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ غُفِرَ لَهُ، قَدْ غُفِرَ لَهُ، قَدْ غُفِرَ لَهُ" ثَلَاثَ مَرَّار .
حضرت محجن بن ادرع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک آدمی ہے جو نماز مکمل کرچکا ہے اور تشہد میں یہ کہہ رہا ہے اے اللہ! میں تجھ سے تیرے نام، اللہ، واحد، احد، صمد، جس کی کوئی اولاد نہیں اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور نہ اس کا کوئی ہمسر ہے، کی برکت سے سوال کرتا ہوں کہ تو میرے گناہوں کو معاف فرمادے، بیشک تو بڑا بخشنے والا، نہایت مہربان ہے، نبی نے یہ سن کر تین مرتبہ فرمایا اس کے گناہ معاف ہوگئے۔
حدثنا يونس ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، عن سعيد الجريري ، عن عبد الله بن شقيق ، عن محجن بن الادرع ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب الناس، فقال:" يوم الخلاص وما يوم الخلاص، يوم الخلاص وما يوم الخلاص"، ثلاثا، فقيل له: وما يوم الخلاص؟ قال: " يجيء الدجال، فيصعد احدا فينظر المدينة، فيقول لاصحابه: اترون هذا القصر الابيض؟ هذا مسجد احمد، ثم ياتي المدينة فيجد بكل نقب منها ملكا مصلتا، فياتي سبخة الحرف، فيضرب رواقه ثم ترجف المدينة ثلاث رجفات، فلا يبقى منافق ولا منافقة ولا فاسق ولا فاسقة إلا خرج إليه، فذلك يوم الخلاص" .حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، عَنْ مِحْجَنِ بْنِ الْأَدْرَعِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ:" يَوْمُ الْخَلَاصِ وَمَا يَوْمُ الْخَلَاصِ، يَوْمُ الْخَلَاصِ وَمَا يَوْمُ الْخَلَاصِ"، ثَلَاثًا، فَقِيلَ لَهُ: وَمَا يَوْمُ الْخَلَاصِ؟ قَالَ: " يَجِيءُ الدَّجَّالُ، فَيَصْعَدُ أُحُدًا فَيَنْظُرُ الْمَدِينَةَ، فَيَقُولُ لِأَصْحَابِهِ: أَتَرَوْنَ هَذَا الْقَصْرَ الْأَبْيَضَ؟ هَذَا مَسْجِدُ أَحْمَدَ، ثُمَّ يَأْتِي الْمَدِينَةَ فَيَجِدُ بِكُلِّ نَقْبٍ مِنْهَا مَلَكًا مُصْلِتًا، فَيَأْتِي سَبْخَةَ الْحَرْفِ، فَيَضْرِبُ رُوَاقَهُ ثُمَّ تَرْجُفُ الْمَدِينَةُ ثَلَاثَ رَجَفَاتٍ، فَلَا يَبْقَى مُنَافِقٌ وَلَا مُنَافِقَةٌ وَلَا فَاسِقٌ وَلَا فَاسِقَةٌ إِلَّا خَرَجَ إِلَيْهِ، فَذَلِكَ يَوْمُ الْخَلَاصِ" .
حضرت محجن سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی نے خطبہ دیتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا یوم الخلاص آنے والا ہے اور یوم الخلاص کیسا دن ہوگا،؟ کسی نے پوچھا کہ یوم الخلاص سے کیا مراد ہے، نبی نے فرمایا دجال آکر احد پہاڑ پر چڑھ جائے گا اور مدینہ منورہ کی طرف دیکھ کر اپنے ساتھیوں سے کہے گا کیا تم یہ سفید محل دیکھ رہے ہو؟ یہ احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد ہے، پھر وہ جرف نامی جگہ پر پہنچ کر اپنا خیمہ لگائے گا اور مدینہ منورہ میں تین مرتبہ زلزلہ آئے گا، جس سے گھبرا کر مدینہ میں کوئی منافق اور فاسق مرد و عورت ایسا نہیں رہے گا جو دجال کے پاس نہ چلا جائے، وہ دن یوم الخلاص ہوگا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، عبدالله بن شقيق لم يسمع محجن بن الأدرع
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي بشر ، عن عبد الله بن شقيق ، عن رجاء بن ابي رجاء ، قال: كان بريدة على باب المسجد، فمر محجن عليه وسكبة يصلي، فقال بريدة وكان فيه مراح لمحجن: الا تصلي كما يصلي هذا، فقال محجن : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم اخذ بيدي، فصعد على احد، فاشرف على المدينة، فقال: " ويل امها قرية يدعها اهلها خير ما تكون او كاخير ما تكون فياتيها الدجال، فيجد على كل باب من ابوابها ملكا مصلتا جناحيه فلا يدخلها" قال: ثم نزل وهو آخذ بيدي، فدخل المسجد، وإذا هو برجل يصلي، فقال لي:" من هذا؟" فاثنيت عليه خيرا فقال:" اسكت لا تسمعه فتهلكه" قال: ثم اتى حجرة امراة من نسائه، فنفض يده من يدي، قال:" إن خير دينكم ايسره، إن خير دينكم ايسره" ..حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، عَنْ رَجَاءِ بْنِ أَبِي رَجَاءٍ ، قَالَ: كَانَ بُرَيْدَةُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، فَمَرَّ مِحْجَنٌ عَلَيْهِ وَسُكْبَةُ يُصَلِّي، فَقَالَ بُرَيْدَةُ وَكَانَ فِيهِ مُرَاحٌ لِمِحْجَنٍ: أَلَا تُصَلِّي كَمَا يُصَلِّي هَذَا، فَقَالَ مِحْجَنٌ : إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِي، فَصَعِدَ عَلَى أُحُدٍ، فَأَشْرَفَ عَلَى الْمَدِينَةِ، فَقَالَ: " وَيْلُ أُمِّهَا قَرْيَةً يَدَعُهَا أَهْلُهَا خَيْرَ مَا تَكُونُ أَوْ كَأَخْيَرِ مَا تَكُونُ فَيَأْتِيهَا الدَّجَّالُ، فَيَجِدُ عَلَى كُلِّ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِهَا مَلَكًا مُصْلِتًا جَنَاحَيْهِ فَلَا يَدْخُلُهَا" قَالَ: ثُمَّ نَزَلَ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي، فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ، وَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ يُصَلِّي، فَقَالَ لِي:" مَنْ هَذَا؟" فَأَثْنَيْتُ عَلَيْهِ خَيْرًا فَقَالَ:" اسْكُتْ لَا تُسْمِعْهُ فَتُهْلِكَهُ" قَالَ: ثُمَّ أَتَى حُجْرَةَ امْرَأَةٍ مِنْ نِسَائِهِ، فَنَفَضَ يَدَهُ مِنْ يَدِي، قَالَ:" إِنَّ خَيْرَ دِينِكُمْ أَيْسَرُهُ، إِنَّ خَيْرَ دِينِكُمْ أَيْسُرُهُ" ..
رجاء بن ابو رجاء کہتے ہیں کہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ مسجد کے دروازے پر کھڑے تھے کہ وہاں سے حضرت محجن کا گذر ہوا، سکبہ نماز پڑھ رہے تھے، حضرت بریدہ جن کی طبیعت میں حس مزاح کا غلبہ تھا، حضرت محجن سے کہنے لگے کہ جس طرح یہ نماز پڑھ رہے ہیں تم کیوں نہیں پڑھ رہے؟ انہوں نے کہا ایک مرتبہ نبی نے میرا ہاتھ پکڑا اور احد پہاڑ پر چڑھ گئے، پھر مدینہ منورہ کی طرف جھانک کر فرمایا ہائے افسوس! اس بہترین شہر کو بہترین حالت میں چھوڑ کر یہاں رہنے والے چلے جائیں گے، پھر دجال یہاں آئے گا تو اس کے ہر دروازے پر ایک مسلح فرشتہ پہرہ دے رہا ہوگا، لہذا دجال اس شہر میں داخل نہیں ہوسکے گا، پھر نبی میرا ہاتھ پکڑے پکڑے نیچے اترے اور چلتے چلتے مسجد میں داخل ہوگئے، وہاں ایک آدمی نماز پڑھ رہا تھا، نبی نے مجھ سے پوچھا یہ کون ہے؟ میں نے اس کی تعریف کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آہستہ بولو، اسے مت سناؤ، ورنہ تم اسے ہلاک کردو گے، پھر اپنی کسی زوجہ محترمہ کے حجرے کے قریب پہنچ کر میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور دو مرتبہ فرمایا تمہارا سب سے بہترین دین وہ ہے جو سب سے زیادہ آسان ہو۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة رجاء بن أبى رجاء. وقوله: إن خير دينكم أيسره حسن لغيره
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن زيد بن اسلم . قال سفيان مرة: عن بسر او بشر بن محجن، ثم كان يقول بعد: عن ابن محجن الديلي، عن ابيه ، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو في المسجد، فحضرت الصلاة، فصلى، فقال لي:" الا صليت؟" قال: قلت: يا رسول الله، قد صليت في الرحل، ثم اتيتك، قال: " فإذا فعلت، فصل معهم، واجعلها نافلة" . قال ابي: ولم يقل ابو نعيم ولا عبد الرحمن:" واجعلها نافلة".حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ . قَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: عَنْ بُسْرٍ أَوْ بشْرِ بْنِ مِحْجَنٍ، ثُمَّ كَانَ يَقُولُ بَعْدُ: عَنِ ابْنِ مِحْجَنٍ الدِّيلِيِّ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، فَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ، فَصَلَّى، فَقَالَ لِي:" أَلَا صَلَّيْتَ؟" قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ صَلَّيْتُ فِي الرَّحْلِ، ثُمَّ أَتَيْتُكَ، قَالَ: " فَإِذَا فَعَلْتَ، فَصَلِّ مَعَهُمْ، وَاجْعَلْهَا نَافِلَةً" . قَالَ أَبِي: وَلَمْ يَقُلْ أَبُو نُعَيْمٍ وَلَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ:" وَاجْعَلْهَا نَافِلَةً".
حضرت محجن سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کی خدمت میں حاضر ہوا، نماز کھڑی ہوگئی تو میں ایک طرف کو بیٹھ گیا، نماز سے فارغ ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تم نے لوگوں کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے گھر میں نماز پڑھ لی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اگرچہ گھر میں نماز پڑھ لی ہو تب بھی لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوجایا کرو اور نفل کی نیت کرلیا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف، بسر بن محجن مجهول
حدثنا سريج بن النعمان ، حدثنا بقية بن الوليد ، عن سليمان ابن سليم ، عن يحيى بن جابر ، عن ضمرة بن ثعلبة ، انه اتى النبي صلى الله عليه وسلم وعليه حلتان من حلل اليمن، فقال:" يا ضمرة، اترى ثوبيك هذين مدخليك الجنة؟" فقال: لئن استغفرت لي يا رسول الله لا اقعد حتى انزعهما عني، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اللهم اغفر لضمرة بن ثعلبة" . فانطلق سريعا حتى نزعهما عنه.حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ابْنِ سُلَيْمٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ ثَعْلَبَةَ ، أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ حُلَّتَانِ مِنْ حُلَلِ الْيَمَنِ، فَقَالَ:" يَا ضَمْرَةُ، أَتَرَى ثَوْبَيْكَ هَذَيْنِ مُدْخِلَيْكَ الْجَنَّةَ؟" فَقَالَ: لَئِنْ اسْتَغْفَرْتَ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ لَا أَقْعُدُ حَتَّى أَنْزَعَهُمَا عَنِّي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِضَمْرَةَ بْنِ ثَعْلَبَةَ" . فَانْطَلَقَ سَرِيعًا حَتَّى نَزَعَهُمَا عَنْهُ.
حضرت ضمرہ بن ثعلبہ سے مروی ہے کہ وہ نبی کی خدمت میں ایک مرتبہ حاضر ہوئے تو یمن کے دو حلے پہن رکھے تھے، نبی نے فرمایا ضمرہ،! کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہارے یہ کپڑے تمہیں جنت میں داخل کروا دیں گے؟ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ میرے لئے استغفار کریں تو میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا جب تک انہیں اتار نہ دوں، چناچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء فرمادی کہ اے اللہ! ضمرہ بن ثعلبہ کو معاف فرمادے، پھر وہ جلدی سے واپس چلے گئے اور انہیں اتار دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف بقية بن الوليد. يحيى بن جابر كثير الإرسال
حضرت ضرار بن ازور سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مجھے میرے گھر والوں نے ایک دودھ دینے والی اونٹنی دے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، میں حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کا دودھ دوہنے کا حکم دیا، پھر نبی نے فرمایا کہ اس کے تھنوں میں اتنا دودھ رہنے دو کہ دوبارہ حاصل کرسکو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال يعقوب بن بحير
حضرت ضرار بن ازور سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مجھے میرے گھر والوں نے ایک دودھ دینے والی اونٹنی دے کر نبی کے پاس بھیجا، میں حاضر ہوا تو نبی نے مجھے اس کا دودھ دوہنے کا حکم دیا، پھر نبی نے فرمایا کہ اس کے تھنوں میں اتنا دودھ رہنے دو کہ دوبارہ حاصل کرسکو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال يعقوب بن بحير