حدثنا معمر بن سليمان الرقي ، حدثنا الحجاج ، عن عبد الجبار ، عن ابيه ، قال:" استكرهت امراة على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدرا عنها الحد، واقامه على الذي اصابها، ولم يذكر انه جعل لها مهرا" .حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" اسْتُكْرِهَتْ امْرَأَةٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَرَأَ عَنْهَا الْحَدَّ، وَأَقَامَهُ عَلَى الَّذِي أَصَابَهَا، وَلَمْ يَذْكُرْ أَنَّهُ جَعَلَ لَهَا مَهْرًا" .
حضرت وائل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ایک عورت کے ساتھ زنا بالجبر کا واقعہ پیش آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے سزا کو معاف کردیا اور مرد پر سزاجاری فرمائی راوی نے یہ ذکر نہیں کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے مہر بھی مقرر کیا (یا نہیں؟)
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف حجاج، ولم يسمع من عبدالجبار، وعبدالجبار لم يسمع من أبيه
حدثنا يحيى بن ابي بكير، ، حدثنا زهير ، حدثنا ابو إسحاق ، عن عبد الجبار بن وائل ، عن وائل ، قال:" رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع يده اليمنى على اليسرى في الصلاة قريبا من الرسغ، ويرفع يديه حين يوجب حتى يبلغا اذنيه، وصليت خلفه فقرا: غير المغضوب عليهم ولا الضالين سورة الفاتحة آية 7 فقال:" آمين" يجهر .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ ، عَنْ وَائِلٍ ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاَةِ قَرِيبًا مِنَ الرُّسْغِ، ويرفَعُ يَديَهُ حِينَ يُوجِبُ حَتَّى يَبْلُغَا أُذُنَيْهِ، وَصَلَّيْتُ خَلْفَهُ فَقَرَأَ: غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7 فَقَالَ:" آمِينَ" يَجْهَرُ .
حضرت وائل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ نماز میں وہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر گٹوں کے قریب رکھتے تھے اور نماز شروع کرتے وقت کانوں تک ہاتھ اٹھاتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولا الضالین " کہہ کر بلند آواز سے آمین کہی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، عبدالجبار لم يسمع من أبيه.زهير سمع من أبى إسحاق بعد الاختلاط، لكنه توبع
حدثنا ابو احمد ، حدثنا مسعر ، عن عبد الجبار بن وائل ، عن ابيه ،" ان النبي صلى الله عليه وسلم اتي بدلو من ماء زمزم، فتمضمض، فمج فيه اطيب من المسك او قال مسك واستنثر خارجا من الدلو" .حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِدَلْوٍ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ، فَتَمَضْمَضَ، فَمَجَّ فِيهِ أَطْيَبَ مِنَ الْمِسْكِ أَوْ قَالَ مِسْكٌ وَاسْتَنْثَرَ خَارِجًا مِنَ الدَّلْوِ" .
حضرت وائل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ڈول پیش کیا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کچھ پانی پیا اور ڈول میں کلی کردی، پھر اس ڈول کو کنوئیں میں الٹا دیا یا ڈول میں سے پانی پی کر کنوئیں میں کلی کردی جس سے وہ کنواں مشک کی طرح مہکنے لگا اور ڈول سے ہٹا کر ناک صاف کی۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، عبدالجبار لم يسمع من أبيه، بينهما أهله ، ولا تضر جهالتهم
حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا زهير بن معاوية ، عن عاصم بن كليب ان اباه اخبره، ان وائل بن حجر اخبره، قال: قلت:" لانظرن إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف يصلي، فقام فرفع يديه حتى حاذتا اذنيه، ثم اخذ شماله بيمينه، ثم قال: حين اراد ان يركع رفع يديه حتى حاذتا اذنيه، ثم وضع يديه على ركبتيه، ثم رفع، فرفع يديه مثل ذلك، ثم سجد فوضع يديه حذاء اذنيه، ثم قعد، فافترش رجله اليسرى، ووضع كفه اليسرى على ركبته اليسرى فخذه في صفة عاصم ثم وضع حد مرفقه الايمن على فخذه اليمنى، وقبض ثلاثين، وحلق حلقة، ثم رايته يقول هكذا، واشار زهير بسبابته الاولى، وقبض إصبعين، وحلق الإبهام على السبابة الثانية . قال زهير : قال عاصم : وحدثني عبد الجبار ، عن بعض اهله ان وائلا ، قال: اتيته مرة اخرى وعلى الناس ثياب فيها البرانس وفيها الاكسية، فرايتهم يقولون هكذا تحت الثياب.حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: قُلْتُ:" لَأَنْظُرَنَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يُصَلِّي، فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا أُذُنَيْهِ، ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ، ثُمَّ قَالَ: حِينَ أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا أُذُنَيْهِ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ رَفَعَ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ سَجَدَ فَوَضَعَ يَدَيْهِ حِذَاءَ أُذُنَيْهِ، ثُمَّ قَعَدَ، فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى فَخِذِهِ فِي صِفَةِ عَاصِمٍ ثُمَّ وَضَعَ حَدَّ مِرْفَقِهِ الأْيْمَنِ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَقَبَضَ ثَلاثًين، وَحَلَّقَ حَلْقَةً، ثُمَّ رَأَيْتُهُ يَقُولُ هَكَذَا، وَأَشَارَ زُهَيْرٌ بِسَبَّابَتِهِ الَأُولَى، وَقَبَضَ إِصْبَعَيْنِ، وَحَلَّقَ الَإِبْهَامَ عَلَى السَّبَّابَةِ الثَّانِيَةِ . قَالَ زُهَيْرٌ : قَالَ عَاصِمٌ : وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الْجَبَّارِ ، عَنْ بَعْضِ أَهْلِهِ أَنَّ وَائِلًَا ، قَالَ: أَتَيْتُهُ مَرَّةً أُخْرَى وَعَلَى النَّاسِ ثِيَابٌ فِيهَا الْبَرَانِسُ وَفِيهَا الْأَكْسِيَةُ، فَرَأَيْتُهُمْ يَقُولُونَ هَكَذَا تَحْتَ الثِّيَابِ.
حضرت وائل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو سوچا کہ میں یہ ضرور دیکھوں گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نماز پڑھتے ہیں چناچہ نبی کریم نے قبلہ کی طرف رخ کرکے تکبیر کہی اور دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر بلند کئے پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ لیا، جب رکوع کا ارادہ کیا تو پھر رفع یدین کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک برابر بلند کیا اور رکوع میں اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ دیئے جب رکوع سے سر اٹھایا تو پھر رفع یدین کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک برابر بلند کیا اور جب سجدے میں گئے تو اپنے ہاتھوں کو چہرے کے قریب رکھ دیا اور جب بیٹھے تو بائیں پاؤں کو بچھا کر دائیں پاؤں کو کھڑا کرلیا اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر رکھ لیا اور کہنی کی حد کو دائیں ران پر رکھ لیا اور تیس کے عدد کا دائرہ بنا کر حلقہ بنالیا اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرمایا۔ حضرت وائل سے مروی ہے کہ میں ایک مرتبہ پھر موسم سرما میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھوں کو اپنی چادروں کے اندر ہی سے اٹھا رہے تھے۔
حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا شعبة ، عن عاصم بن كليب ، قال: سمعت ابي يحدث، عن وائل الحضرمي :" انه راى النبي صلى الله عليه وسلم صلى، فكبر، فرفع يديه، فلما ركع، رفع يديه، فلما رفع راسه من الركوع رفع يديه، وخوى في ركوعه، وخوى في سجوده، فلما قعد يتشهد وضع فخذه اليمنى على اليسرى، ووضع يده اليمنى واشار بإصبعه السبابة، وحلق بالوسطى" ..حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ :" أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى، فَكَبَّرَ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ، فَلَمَّا رَكَعَ، رَفَعَ يَدَيْهِ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَخَوَّى فِي رُكُوعِهِ، وَخَوَّى فِي سُجُودِهِ، فَلَمَّا قَعَدَ يَتَشَهَّدُ وَضَعَ فَخِذَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ، وَحَلَّقَ بِالْوُسْطَى" ..
حضرت وائل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو سوچا کہ میں یہ ضرور دیکھوں گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نماز پڑھتے ہیں چناچہ نبی کریم نے قبلہ کی طرف رخ کرکے تکبیر کہی اور دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر بلند کئے پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ لیا، جب رکوع کا ارادہ کیا تو پھر رفع یدین کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک برابر بلند کیا اور رکوع میں اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ دیئے جب رکوع سے سر اٹھایا تو پھر رفع یدین کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک برابر بلند کیا اور جب سجدے میں گئے تو اپنے ہاتھوں کو چہرے کے قریب رکھ دیا اور جب بیٹھے تو بائیں پاؤں کو بچھا کر دائیں پاؤں کو کھڑا کرلیا اور بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر رکھ لیا اور کہنی کی حد کو دائیں ران پر رکھ لیا اور تیس کے عدد کا دائرہ بنا کر حلقہ بنالیا اور شہادت کی انگلی سے اشارہ فرمایا۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا اسود بن عامر، حدثنا شعبة ، عن عاصم بن كليب ، قال: سمعت ابي يحدث، عن وائل بن حجر الحضرمي : انه راى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلي، فذكره، وقال فيه: ووضع يده اليمنى على اليسرى، قال: وزاد فيه شعبة مرة اخرى: فلما كان في الركوع وضع يده على ركبتيه، وجافى في الركوع.حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، قَال: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ الْحَضْرَمِيِّ : أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صلي، فَذَكَرَهُ، وَقَالَ فِيهِ: وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى، قَالَ: وَزَادَ فِيهِ شُعْبَةُ مَرَّةً أُخْرَى: فَلَمَّا كَانَ فِي الرُّكُوعِ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، وَجَافَى فِي الرُّكُوعِ.
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن عبيد الله ، قال: حدثني سعيد بن ابي سعيد ، عن عمر بن ابي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث ، عن ابيه ، ان عمارا صلى ركعتين، فقال له عبد الرحمن بن الحارث: يا ابا اليقظان، لا اراك إلا قد خففتهما، قال: هل نقصت من حدودها شيئا؟! قال: لا، ولكن خففتهما، قال: إني بادرت بهما السهو، إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن الرجل ليصلي، ولعله ان لا يكون له من صلاته إلا عشرها، وتسعها، او ثمنها، او سبعها" حتى انتهى إلى آخر العدد .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عَمَّارًا صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَارِثِ: يَا أَبَا الْيَقْظَانِ، لَا أَرَاكَ إِلَّا قَدْ خَفَّفْتَهُمَا، قَالَ: هَلْ نَقَصْتُ مِنْ حُدُودِهَا شَيْئًا؟! قَالَ: لَا، وَلَكِنْ خَفَّفْتَهُمَا، قَالَ: إِنِّي بَادَرْتُ بِهِمَا السَّهْوَ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ الرَّجُلَ لَيُصَلِّي، وَلَعَلَّهُ أَنْ لَا يَكُونَ لَهُ مِنْ صَلاَتِهِ إِلَاَّ عُشْرُهَا، وَتُسْعُهَا، أَوْ ثُمُنُهَا، أَوْ سُبُعُهَا" حَتَّى انْتَهَى إِلَى آخِرِ الْعَدَدِ .
ابوبکر بن عبدالرحمن رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوئے اور دو ہلکی لیکن مکمل رکعتیں پڑھیں، اس کے بعد بیٹھ گئے ابوبکر بن عبدالرحمن رحمہ اللہ نے ان سے عرض کیا کہ اے ابوالیقظان! آپ نے یہ دو رکعتیں تو بہت ہی ہلکی پڑھی ہیں؟ انہوں نے فرمایا کیا میں نے اس کی حدود میں کچھ کمی کی ہے؟ انہوں نے کہا نہیں البتہ آپ نے بہت مختصر کر کے پڑھا ہے انہوں نے فرمایا میں نے ان رکعتوں میں بھولنے پر سبقت کی ہے کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک آدمی نماز پڑھتا ہے لیکن اسے نماز کا دسواں، نواں، آٹھواں، یا ساتو اں حصہ ہی نصیب ہو پاتا ہے یہاں تک کہ آخری عدد تک پہنچ گئے۔
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن حبيب بن ابي ثابت ، عن ابي البختري ، قال: قال عمار يوم صفين: ائتوني بشربة لبن، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " آخر شربة تشربها من الدنيا شربة لبن" فاتي بشربة لبن، فشربها، ثم تقدم فقتل .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، قَالَ: قَالَ عَمَّارٌ يَوْمَ صِفِّينَ: ائْتُونِي بِشَرْبَةِ لَبَنٍ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " آخِرُ شَرْبَةٍ تَشْرَبُهَا مِنَ الدُّنْيَا شَرْبَةُ لَبَنٍ" فَأُتِيَ بِشَرْبَةِ لَبَنٍ، فَشَرِبَهَا، ثُمَّ تَقَدَّمَ فَقُتِلَ .
ابوالبختری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جنگ صفین کے موقع پر حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے پاس دودھ کا پیالہ لاؤ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا دنیا میں سب سے آخری گھونٹ جو تم پیوگے وہ دودھ کا گھونٹ ہوگا چناچہ ان کے پاس دودھ لایا گیا انہوں نے اسے نوش فرمایا اور آگے بڑھ گئے اور شہید ہوگئے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو البختري لم يدرك عمار بن ياسر
حضرت عماربن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت کی مثال بارش کی سی ہے جس کے بارے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا آغاز بہتر ہے یا اختتام؟
حكم دارالسلام: حديث قوي بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، الحسن البصري لم يسمع من عمار بن ياسر، وقد روي عن الحسن مرسلاً، وهو الصحيح عنه