حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی عورت عطر لگا کر کچھ لوگوں کے پاس سے گذرتی ہے تاکہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں تو وہ ایسی ایسی ہے (بدکار ہے)
حدثنا عبدة بن سليمان ، قال: حدثنا صالح بن صالح ، عن الشعبي ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى الاشعري ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كانت له جارية، فادبها، فاحسن ادبها، وعلمها، فاحسن تعليمها، ثم اعتقها، وتزوجها، فله اجران، وايما رجل من اهل الكتاب آمن بنبيه، وآمن بمحمد، فله اجران، وايما عبد مملوك ادى حق الله عز وجل عليه، وحق مواليه، فله اجران" .حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ صَالِحٍ ، عَن الشَّعْبِيِّ ، عَن أَبِي بُرْدَةَ ، عَن أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَتْ لَهُ جَارِيَةٌ، فَأَدَّبَهَا، فَأَحْسَنَ أَدَبَهَا، وَعَلَّمَهَا، فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا، ثُمَّ أَعْتَقَهَا، وَتَزَوَّجَهَا، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمَنَ بِنَبِيِّهِ، وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَأَيُّمَا عَبْدٍ مَمْلُوكٍ أَدَّى حَقَّ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ، وَحَقَّ مَوَالِيهِ، فَلَهُ أَجْرَانِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کے پاس کوئی باندی ہو اور وہ اسے عمدہ تعلیم دلائے بہترین ادب سکھائے پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کرلے تو اسے دہرا اجر ملے گا، اسی طرح وہ غلام جو اپنے اللہ کا حق بھی ادا کرتا ہو اور اپنے آقا کا حق بھی ادا کرتا ہو یا اہل کتاب میں سے وہ آدمی جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر بھی ایمان لایا ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر بھی ایمان لایا ہو اسے بھی دہرا اجر ملے گا۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ہمیشہ روزہ رکھتا ہے اس پر جہنم اس طرح تنگ ہوجائے گی یہ کہہ کر انہوں نے اپنی ہتھیلیوں کو مٹھی کی طرح بند کر کے دکھایا۔
حكم دارالسلام: موقوفه صحيح قد اختلف على أبى تميمه فى رفعه ووقفه
حدثنا وكيع ، قال: حدثنا شعبة ، عن ابي التياح الضبعي ، قال: سمعت رجلا وصفه كان يكون مع ابن عباس، قال: كتب ابو موسى إلى ابن عباس: إنك رجل من اهل زمانك، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن بني إسرائيل كان احدهم إذا اصابه الشيء من البول، قرضه بالمقاريض"، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على دمث يعني: مكانا لينا فبال فيه، وقال:" إذا بال احدكم، فليرتد لبوله" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَن أَبِي التَّيَّاحِ الضُّبَعِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا وَصَفَهُ كَانَ يَكُونُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَتَبَ أَبُو مُوسَى إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ: إِنَّكَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ زَمَانِكَ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَ أَحَدُهُمْ إِذَا أَصَابَهُ الشَّيْءُ مِنَ الْبَوْلِ، قَرَضَهُ بِالْمَقَارِيضِ"، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى دَمْثٍ يَعْنِي: مَكَانًا لَيِّنًا فَبَالَ فِيهِ، وَقَالَ:" إِذَا بَالَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَرْتَدْ لِبَوْلِهِ" .
ابوالتیاح ایک طویل سیاہ فام آدمی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ بصرہ آیا انہوں نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے انہیں جواب میں لکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ جا رہے تھے کہ ایک باغ کے پہلو میں نرم زمین کے قریب پہنچ کر پیشاب کیا اور فرمایا بنی اسرائیل میں جب کوئی شخص پیشاب کرتا اور اس کے جسم پر معمولی سا پیشاب لگ جاتا تو وہ اس جگہ کو قینچی سے کاٹ دیا کرتا تھا اور فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص پیشاب کا ارادہ کرے تو اس کے لئے نرم زمین تلاش کرے۔
حكم دارالسلام: صحيح الغيره دون قوله: إذا بال أحدكم ... وهذا إسناده ضعيف ، لإبهام الرجل الراوي عنه أبو التياح
حدثنا وكيع ، قال: حدثنا علي بن علي بن رفاعة ، عن الحسن ، عن ابي موسى رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يعرض الناس يوم القيامة ثلاث عرضات: فاما عرضتان، فجدال ومعاذير، واما الثالثة: فعند ذلك تطير الصحف في الايدي، فآخذ بيمينه، وآخذ بشماله" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَلِيِّ بْنِ رِفَاعَةَ ، عَن الْحَسَنِ ، عَن أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُعْرَضُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَاثَ عَرَضَاتٍ: فَأَمَّا عَرْضَتَانِ، فَجِدَالٌ وَمَعَاذِيرُ، وَأَمَّا الثَّالِثَةُ: فَعِنْدَ ذَلِكَ تَطِيرُ الصُّحُفُ فِي الْأَيْدِي، فَآخِذٌ بِيَمِينِهِ، وَآخِذٌ بِشِمَالِهِ" .
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن لوگوں کو تین مرتبہ پیش کیا جائے گا پہلے دو عرضوں میں جھگڑے اور معذرتیں ہوں اور تیسرے عرضے کے وقت اعمال نامے اڑ اڑ کر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچیں گے کسی کے دائیں ہاتھ میں اور کسی کے بائیں ہاتھ میں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، الحسن البصري لم يسمع من أبى موسى
حدثنا ابو عامر ، قال: حدثنا زهير ، عن اسيد بن ابي اسيد ، عن موسى بن ابي موسى الاشعري ، عن ابيه ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الميت يعذب ببكاء الحي عليه، إذا قالت النائحة: واعضداه، واناصراه، واكاسباه، جبذ الميت، وقيل له: آنت عضدها؟ آنت ناصرها؟ آنت كاسبها؟" فقلت: سبحان الله! يقول الله عز وجل: ولا تزر وازرة وزر اخرى سورة الانعام آية 164، فقال: ويحك، احدثك عن ابي موسى، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وتقول هذا! فاينا كذب؟ فوالله ما كذبت على ابي موسى، ولا كذب ابو موسى على رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَن أَسِيدِ بْنِ أَبِي أَسِيدٍ ، عَن مُوسَى بْنِ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، عَن أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ عَلَيْهِ، إِذَا قَالَتْ النَّائِحَةُ: وَاعَضُدَاهُ، وَانَاصِرَاهُ، وَاكَاسِبَاهُ، جُبِذَ الْمَيِّتُ، وَقِيلَ لَهُ: آَنْتَ عَضُدُهَا؟ آَنْتَ نَاصِرُهَا؟ آَنْتَ كَاسِبُهَا؟" فَقُلْتُ: سُبْحَانَ اللَّهِ! يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى سورة الأنعام آية 164، فَقَالَ: وَيْحَكَ، أُحَدِّثُكَ عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتَقُولُ هَذَا! فَأَيُّنَا كَذَبَ؟ فَوَاللَّهِ مَا كَذَبْتُ عَلَى أَبِي مُوسَى، وَلَا كَذَبَ أَبُو مُوسَى عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میت کو اپنے اوپر اہل محلہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے جب بین کرنے والی کہتی ہے ہائے میرا بازو، ہائے میرا مددگار، ہائے میرا کمانے والا، تو میت کو کھینچ کر پوچھا جاتا ہے کیا واقعی تو اس کا بازو، مددگار اور کمانے والا تھا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، أسيد بن أبى أسيد لم ينفرد به
حدثنا عفان ، قال: حدثنا حماد بن سلمة ، قال: اخبرنا علي بن زيد ، عن حطان بن عبد الله الرقاشي ، عن ابي موسى ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن بين يدي الساعة الهرج"، فقالوا: وما الهرج؟ قال:" القتل"، قالوا: اكثر مما نقتل؟ إنا لنقتل في العام الواحد اكثر من سبعين الفا، قال:" إنه ليس بقتلكم المشركين، ولكن قتل بعضكم بعضا"، قالوا: ومعنا عقولنا يومئذ؟ قال:" إنه ينزع عقول اكثر اهل ذلك الزمان، ويخلف له هباء من الناس، يحسب اكثرهم انه على شيء، وليسوا على شيء" ، قال ابو موسى: والذي نفسي بيده، ما اجد لي ولكم منها مخرجا، إن ادركتني وإياكم، إلا ان نخرج منها كما دخلناها، لم نصب فيها دما ولا مالا.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قال: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، قال: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَن حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيِّ ، عَن أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ الْهَرْجَ"، فَقَالُوا: وَمَا الْهَرْجُ؟ قَالَ:" الْقَتْلُ"، قَالُوا: أَكْثَرُ مِمَّا نَقْتُلُ؟ إِنَّا لَنَقْتُلُ فِي الْعَامِ الْوَاحِدِ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ أَلْفًا، قَالَ:" إِنَّهُ لَيْسَ بِقَتْلِكُمْ الْمُشْرِكِينَ، وَلَكِنْ قَتْلُ بَعْضِكُمْ بَعْضًا"، قَالُوا: وَمَعَنَا عُقُولُنَا يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ:" إِنَّهُ يُنْزَعُ عُقُولُ أَكْثَرِ أَهْلِ ذَلِكَ الزَّمَانِ، وَيُخَلَّفُ لَهُ هَبَاءٌ مِنَ النَّاسِ، يَحْسَبُ أَكْثَرُهُمْ أَنَّهُ عَلَى شَيْءٍ، وَلَيْسُوا عَلَى شَيْءٍ" ، قَالَ أَبُو مُوسَى: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مِنْهَا مَخْرَجًا، إِنْ أَدْرَكَتْنِي وَإِيَّاكُمْ، إِلَّا أَنْ نَخْرُجَ مِنْهَا كَمَا دَخَلْنَاهَا، لَمْ نُصِبْ فِيهَا دَمًا وَلَا مَالًا.
راوی اسید بن ابی اسید نے یہ حدیث سن کر کہا سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کوئی شخص کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا؟ تو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا ارے کمبخت! میں تجھے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تو یہ کہہ رہا ہے، ہم میں سے کون جھوٹا ہے؟ بخدا! میں حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ پر جھوٹ نہیں بول رہا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں باندھا۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت سے پہلے " ہرج " واقع ہوگا لوگوں نے پوچھا کہ " ہرج " سے کیا مراد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قتل، لوگوں نے پوچھا اس تعداد سے بھی زیادہ جتنے ہم قتل کردیتے ہیں؟ ہم تو ہر سال ستر ہزار سے زیادہ لوگ قتل کردیتے تھے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے مراد مشرکین کو قتل کرنا نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کو قتل کرنا مراد ہے لوگوں نے پوچھا کیا اس موقع پر ہماری عقلیں ہمارے ساتھ ہوں گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس زمانے کے لوگوں کی عقلیں چھین لی جائیں گی اور ایسے بیوقوف لوگ رہ جائیں گے جو یہ سمجھیں گے وہ کسی دین پر قائم ہیں حالانکہ وہ کسی دین پر نہیں ہوں گے۔ حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر وہ زمانہ آگیا تو میں اپنے اور تمہارے لئے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں پاتا الاّ یہ کہ ہم اس سے اسی طرح نکل جائیں جیسے داخل ہوئے تھے اور کسی کے قتل یا مال میں ملوث نہ ہوں۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح ، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ یا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو اپنے پیارے جسم میں آگ کا چھلا پہننا پسند ہو اسے چاہئے کہ سونے کا چھلا پہن لے جس شخص کو اپنے پیارے جسم پر آگ کا کنگن رکھنا پسند ہو، اسے چاہئے کہ سونے کا کنگن پہن لے، البتہ چاندی کی اجازت ہے اس لئے اسی سے دل لگی کرو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لاضطراب أسيد فيه، وقد انفرد به، فمثله لا يحتمل تفرده، وعبدالرحمن بن عبدالله ضعيف وقد أخطأ من جعل حديث أبى موسي شاهدا لحديث أبى هريرة
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی شخص یا قوم سے خوف محسوس ہوتا تو یہ دعاء فرماتے کہ اے اللہ! میں تجھے ان کے سینوں کے سامنے کرتا ہوں اور ان کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، عمران بن داود ضعيف مضطرب فيه، لكنه توبع
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی شخص یا قوم سے خوف محسوس ہوتا تو یہ دعاء فرماتے کہ اے اللہ! میں تجھے ان کے سینوں کے سامنے کرتا ہوں اور ان کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، إسناده ضعيف، قتادة لم يسمع من أبى بردة