حدثنا ابو احمد ، حدثنا فطر ، حدثنا ابو الضحى ، قال: سمعت النعمان بن بشير يقول: انطلق بي ابي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، يعني يشهده على عطية يعطينيها، فقال: " هل لك ولد غيره؟" قال: نعم، قال:" فسو بينهم" .حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا فِطْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الضُّحَى ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ: انْطَلَقَ بِي أَبِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَعْنِي يُشْهِدُهُ عَلَى عَطِيَّةٍ يُعْطِينِيهَا، فَقَالَ: " هَلْ لَكَ وَلَدٌ غَيْرُهُ؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَسَوِّ بَيْنَهُمْ" .
حضرت نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے والدنے انہیں کوئی تحفہ دیا اور اس پر گواہ بنانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس معاملے کا ذکر کردیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کیا اس کے علاوہ بھی تمہارے بچے ہیں؟ انہوں نے کہا جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر سب کو برابر برابر دو۔
حدثنا سليمان بن داود ، اخبرنا شعبة ، عن سماك ، قال: سمعت النعمان يخطب، وعليه خميصة له، فقال: لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب وهو يقول: " انذرتكم النار" . فلو ان رجلا موضع كذا وكذا، سمع صوته.حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ يَخْطُبُ، وَعَلَيْهِ خَمِيصَةٌ لَهُ، فَقَالَ: لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ وَهُوَ يَقُولُ: " أَنْذَرْتُكُمْ النَّارَ" . فَلَوْ أَنَّ رَجُلًا مَوْضِعَ كَذَا وَكَذَا، سَمِعَ صَوْتَهُ.
سماک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت نعمان رضی اللہ عنہ کو چادر اوڑھے ہوئے خطاب کے دوران یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے میں نے تمہیں جہنم سے ڈرا دیا ہے اگر کوئی شخص اتنی اتنی مسافت پر ہوتا تب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کو سن لیتا۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن الشعبي ، عن النعمان بن بشير ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مثل القائم على حدود الله تعالى، والمدهن فيها، كمثل قوم استهموا على سفينة في البحر، فاصاب بعضهم اسفلها، واصاب بعضهم اعلاها، فكان الذين في اسفلها يصعدون، فيستقون الماء، فيصبون على الذين في اعلاها، فقال الذين في اعلاها: لا ندعكم تصعدون، فتؤذوننا، فقال الذين في اسفلها: فإننا ننقبها من اسفلها، فنستقي" قال:" فإن اخذوا على ايديهم، فمنعوهم، نجوا جميعا، وإن تركوهم غرقوا جميعا" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَثَلُ الْقَائِمِ عَلَى حُدُودِ اللَّهِ تَعَالَى، وَالْمُدَّهِنِ فِيهَا، كَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا عَلَى سَفِينَةٍ فِي الْبَحْرِ، فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا، وَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلَاهَا، فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا يَصْعَدُونَ، فَيَسْتَقُونَ الْمَاءَ، فَيَصُبُّونَ عَلَى الَّذِينَ فِي أَعْلَاهَا، فَقَالَ الَّذِينَ فِي أَعْلَاهَا: لَا نَدَعُكُمْ تَصْعَدُونَ، فَتُؤْذُونَنَا، فَقَالَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا: فَإِنَّنَا نَنْقُبُهَا مِنْ أَسْفَلِهَا، فَنَسْتَقِي" قَالَ:" فَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيْدِيهِمْ، فَمَنَعُوهُمْ، نَجَوْا جَمِيعًا، وَإِنْ تَرَكُوهُمْ غَرِقُوا جَمِيعًا" .
حضرت نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حدود اللہ کو قائم کرنے والے اور اس میں مداہنت برتنے والوں کی مثال اس قوم کی سی ہے جو کسی سمندری سفر پر روانہ ہو کچھ لوگ نچلے حصے میں بیٹھ جائیں اور کچھ لوگ اوپر والے حصے میں بیٹھ جائیں نچلے حصے والے اوپر چڑھ کر جاتے ہوں، وہاں سے پانی لاتے ہوں جس میں سے تھوڑا بہت پانی اوپروالوں پر بھی گرجاتا ہو جیسے دیکھ کر اوپر والے کہیں کہ اب ہم تمہیں اوپر نہیں چڑھنے دیں گے تم ہمیں تکلیف دیتے ہو نیچے والے اس کا جواب دیں کہ ٹھیک ہے پھر ہم کشتی کے نیچے سوراخ کرکے وہاں سے پانی حاصل کرلیں گے اب اگر اوپر والے ان کا ہاتھ پکڑ لیں اور انہیں اس سے باز رکھیں تو سب ہی بچ جائیں گے ورنہ سب ہی غرق ہوجائیں گے۔
حدثنا ابن نمير ، حدثنا موسى يعني ابن مسلم الطحان ، عن عون بن عبد الله ، عن ابيه ، او عن اخيه ، عن النعمان بن بشير ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الذين يذكرون من جلال الله من تسبيحه وتحميده وتكبيره وتهليله، يتعاطفن حول العرش، لهن دوي كدوي النحل، يذكرون بصاحبهن، الا يحب احدكم ان لا يزال له عند الله شيء يذكر به؟" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مُوسَى يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ الطَّحَّانَ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَوْ عَنْ أَخِيهِ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الَّذِينَ يَذْكُرُونَ مِنْ جَلَالِ اللَّهِ مِنْ تَسْبِيحِهِ وَتَحْمِيدِهِ وَتَكْبِيرِهِ وَتَهْلِيلِهِ، يَتَعَاطَفْنَ حَوْلَ الْعَرْشِ، لَهُنَّ دَوِيٌّ كَدَوِيِّ النَّحْلِ، يُذَكِّرُونَ بِصَاحِبِهِنَّ، أَلَا يُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ لَا يَزَالَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ شَيْءٌ يُذَكِّرُ بِهِ؟" .
حضرت نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو لوگ اللہ کے جلال کی وجہ سے اس کی تسبیح وتحمید اور تکبیر و تہلیل کے ذریعے اس کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے یہ کلمات تسبیح عرش کے گرد گھومتے رہتے ہیں اور مکھیوں جیسی بھنبھناہٹ ان سے نکلتی رہتی ہے اور وہ ذاکر کا ذکر کرتے رہتے ہیں کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ ایک چیز مسلسل اللہ کے یہاں اس کا ذکر کرتی رہے۔
حدثنا يعلى ، اخبرنا ابو حيان ، عن الشعبي ، عن النعمان بن بشير ، قال: سالت امي ابي بعض الموهبة لي، فوهبها لي، فقالت: لا ارضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فاخذ ابي بيدي وانا غلام، واتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن ام هذا ابنة رواحة زاولتني على بعض الموهبة له، وإني قد وهبتها له، وقد اعجبها ان اشهدك، قال:" يا بشير، الك ابن غير هذا؟" قال: نعم، قال: قال:" فوهبت له مثل الذي وهبت لهذا؟" قال: لا، قال:" فلا تشهدني إذا، فإني لا اشهد على جور" .حَدَّثَنَا يَعْلَى ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، قَالَ: سَأَلَتْ أُمِّي أَبِي بَعْضَ الْمَوْهِبَةِ لِي، فَوَهَبَهَا لِي، فَقَالَتْ: لَا أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَخَذَ أَبِي بِيَدِي وَأَنَا غُلَامٌ، وَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمَّ هَذَا ابْنَةَ رَوَاحَةَ زَاوَلَتْنِي عَلَى بَعْضِ الْمَوْهِبَةِ لَهُ، وَإِنِّي قَدْ وَهَبْتُهَا لَهُ، وَقَدْ أَعْجَبَهَا أَنْ أُشْهِدَكَ، قَالَ:" يَا بَشِيْرُ، أَلَكَ ابْنٌ غَيْرُ هَذَا؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قَالَ:" فَوَهَبْتَ لَهُ مِثْلَ الَّذِي وَهَبْتَ لِهَذَا؟" قَالَ: لَا، قَالَ:" فَلَا تُشْهِدْنِي إِذًا، فَإِنِّي لَا أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ" .
حضرت نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ نے میرے والد سے مجھے کوئی چیز ہبہ کرنے کے لئے کہا انہوں نے وہ چیز مجھے ہبہ کردی، وہ کہنے لگیں کہ میں اس وقت تک مطمئن نہیں ہوسکتی جب تک تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ نہیں بنالیتے میں اس وقت نوعمر تھا میرے والدنے میرا ہاتھ پکڑا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کی والدہ بنت رواحہ نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اس بچے کو کوئی چیز ہبہ کردوں سو میں نے کردی وہ چاہتی ہے کہ میں آپ کو اس پر گواہ بناؤں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بشیر! کیا اس کے علاوہ بھی تمہارا کوئی بیٹا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کیا تم نے اپنے سارے بیٹوں کو بھی اسی طرح دے دیا ہے جیسے اسے دیا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اس پر گواہ نہ بناؤ کیونکہ میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا۔
حضرت نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے صف اول میں شامل ہونے والوں پر صلوٰۃ پڑھتے ہیں (اللہ تعالیٰ دعاء قبول فرماتے ہیں اور فرشتے ان کے لئے رحمت کی دعاء کرتے ہیں)
حدثنا عبد الوهاب الثقفي ، حدثنا ايوب ، عن ابي قلابة ، عن النعمان بن بشير ، قال: انكسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرج، فكان يصلي ركعتين ويسال، ويصلي ركعتين ويسال، حتى انجلت. فقال:" إن رجالا يزعمون ان الشمس والقمر إذا انكسف واحد منهما، فإنما ينكسف لموت عظيم من العظماء، وليس كذلك، ولكنهما خلقان من خلق الله عز وجل، فإذا تجلى الله عز وجل لشيء من خلقه، خشع له" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، قَالَ: انْكَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ، فَكَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَيَسْأَلُ، وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَيَسْأَلُ، حَتَّى انْجَلَتْ. فَقَالَ:" إِنَّ رِجَالًا يَزْعُمُونَ أَنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ إِذَا انْكَسَفَ وَاحِدٌ مِنْهُمَا، فَإِنَّمَا يَنْكَسِفُ لِمَوْتِ عَظِيمٍ مِنَ الْعُظَمَاءِ، وَلَيْسَ كَذَلِكَ، وَلَكِنَّهُمَا خَلْقَانِ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِذَا تَجَلَّى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِشَيْءٍ مِنْ خَلْقِهِ، خَشَعَ لَهُ" .
حضرت نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ایک مرتبہ سورج گرہن ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت نماز پڑھتے اور لوگوں سے صورت حال دریافت کرتے، پھر دو رکعت پڑھتے اور صورت حال دریافت کرتے حتیٰ کہ سورج مکمل روشن ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زمانہ جاہلیت میں لوگ کہتے ہیں کہ اگر چاند اور سورج میں سے کسی ایک کو گرہن لگ جائے تو وہ اہل زمین میں سے کسی بڑے آدمی کی موت کی وجہ سے ہوتا ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں یہ دونوں تو اللہ کی مخلوق ہیں البتہ جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر اپنی تجلی ظاہر فرماتا ہے تو وہ اس کے سامنے جھک جاتی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو قلابة لم يسمع الحديث من النعمان
حدثنا محمد بن ابي عدي ، عن داود ، عن الشعبي ، عن النعمان بن بشير ، قال: حملني ابي بشير بن سعد إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، اشهد اني قد نحلت النعمان كذا وكذا، شيئا سماه، قال: فقال: " اكل ولدك نحلت مثل الذي نحلت النعمان؟" قال: لا، قال:" فاشهد غيري"، قال: ثم قال:" اليس يسرك ان يكونوا إليك في البر سواء؟" قال: بلى، قال:" فلا إذا" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، قَالَ: حَمَلَنِي أَبِي بَشِيرُ بْنُ سَعْدٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اشْهَدْ أَنِّي قَدْ نَحَلْتُ النُّعْمَانَ كَذَا وَكَذَا، شَيْئًا سَمَّاهُ، قَالَ: فَقَالَ: " أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَ مِثْلَ الَّذِي نَحَلْتَ النُّعْمَانَ؟" قَالَ: لَا، قَالَ:" فَأَشْهِدْ غَيْرِي"، قال: ثُمَّ قَالَ:" أَلَيْسَ يَسُرُّكَ أَنْ يَكُونُوا إِلَيْكَ فِي الْبِرِّ سَوَاءً؟" قَالَ: بَلَى، قَالَ:" فَلَا إِذًا" .
حضرت نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے والد مجھے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ اس بات پر گواہ بن جائیے کہ میں نے نعمان کو فلاں فلاں چیز بخش دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کیا تم نے اپنے سارے بیٹوں کو بھی دے دیا ہے جسے اسے دیا ہے؟ انہوں نے کہ نہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کسی اور کو گواہ بنالو تھوڑی دیر بعد فرمایا کیا تمہیں یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ حس سلوک میں یہ سب تمہارے ساتھ برابر ہوں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اس طرح تو نہیں ہوگا۔
قال: عبد الله: وجدت في كتاب ابي بخط يده: كتب إلي الربيع بن نافع ابو توبة يعني الحلبي فكان في كتابه: حدثنا معاوية بن سلام ، عن اخيه زيد بن سلام ، انه سمع ابا سلام قال: حدثني النعمان بن بشير ، قال: كنت إلى جانب منبر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رجل: ما ابالي ان لا اعمل بعد الإسلام إلا ان اسقي الحاج، وقال آخر: ما ابالي ان لا اعمل عملا بعد الإسلام إلا ان اعمر المسجد الحرام، وقال آخر: الجهاد في سبيل الله افضل مما قلتم، فزجرهم عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه، فقال: " لا ترفعوا اصواتكم عند منبر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو يوم الجمعة، ولكن إذا صليت الجمعة، دخلت، فاستفتيته فيما اختلفتم فيه"، فانزل الله: اجعلتم سقاية الحاج وعمارة المسجد الحرام كمن آمن بالله واليوم الآخر سورة التوبة آية 19 إلى آخر الآية كلها .قَالَ: عَبْد اللَّهِ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ: كَتَبَ إِلَيَّ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ أَبُو تَوْبَةَ يَعْنِي الْحَلَبِيَّ فَكَانَ فِي كِتَابِهِ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ سَلَّامٍ ، عَنْ أَخِيهِ زَيْدِ بْنِ سَلَّامٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَّامٍ قَالَ: حَدَّثَنِي النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ ، قَالَ: كُنْتُ إِلَى جَانِبِ مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: مَا أُبَاليِ أَنْ لَا أَعْمَلَ بَعْدَ الْإِسْلَامِ إِلَّا أَنْ أَسْقِيَ الْحَاجَّ، وَقَالَ آخَرُ: مَا أُبَاليِ أَنْ لَا أَعْمَلَ عَمَلًا بَعْدَ الْإِسْلَامِ إِلَّا أَنْ أَعْمُرَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، وَقَالَ آخَرُ: الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَفْضَلُ مِمَّا قُلْتُمْ، فَزَجَرَهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، فَقَالَ: " لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ عِنْدَ مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، وَلَكِنْ إِذَا صَلَّيْتُ الْجُمُعَةَ، دَخَلْتُ، فَاسْتَفْتَيْتُهُ فِيمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ"، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ سورة التوبة آية 19 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ كُلِّهَا .
حضرت نعمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں منبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب بیٹھا ہوا تھا ایک صاحب کہنے لگے کہ اسلام لانے کے بعد مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ میں کوئی عمل کروں الاّ یہ کہ حجاج کرام کو پانی پلاتا ہوں دوسرے نے کہا کہ میں مسجد حرام کو آباد کرتا ہوں لہٰذا اسلام لانے کے بعد مجھے کسی عمل کی کوئی پرواہ نہیں اور تیسرے نے کہا کہ تم نے جو باتیں بیان کی ہیں ان سب سے افضل جہاد ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹتے ہوئے فرمایا کہ منبر نبوی کے نزدیک اپنی آوازیں بلند نہ کرو وہ جمعہ کا دن تھا نماز کے بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور اس مسئلے کے متعلق دریافت کروں گا جس میں تم اختلاف کر رہے ہو اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی کیا تم حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کو آباد و تعمیر کرنا اس شخص کے برابر قرار دیتے ہو جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے۔ "
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن مجالد ، حدثنا عامر ، قال: سمعت النعمان بن بشير يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، واوما بإصبعيه إلى اذنيه:" إن الحلال بين والحرام بين، وإن بين الحلال والحرام مشتبهات، لا يدري كثير من الناس امن الحلال هي، ام من الحرام، فمن تركها، استبرا لدينه وعرضه، ومن واقعها، يوشك ان يواقع الحرام، فمن رعى إلى جنب حمى، يوشك ان يرتع فيه، ولكل ملك حمى، وإن حمى الله محارمه" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَوْمَأَ بِإِصْبَعَيْهِ إِلَى أُذُنَيْهِ:" إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ، وَإِنَّ بَيْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُشْتَبِهَاتٍ، لَا يَدْرِي كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ أَمِنَ الْحَلَالِ هِيَ، أَمْ مِنَ الْحَرَامِ، فَمَنْ تَرَكَهَا، اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَاقَعَهَا، يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَ الْحَرَامَ، فَمَنْ رَعَى إِلَى جَنْبِ حِمًى، يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ، وَلِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ" .
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے ان دونوں کے درمیان جو کچھ ہے وہ متشابہات ہیں جو شخص ان متشابہات کو چھوڑ دے گا وہ حرام کو بآسانی چھوڑ سکے گا اور اللہ کے محرمات اس کی چراگاہیں ہیں اور جو شخص چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چراتا ہے اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ چراگاہ میں گھس جائے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 52، م: 1599، وهذا إسناد ضعيف لضعف مجالد