حدثنا عفان ، ويونس ، قالا: حدثنا ابان ، حدثنا قتادة ، عن عزرة ، عن سعيد بن عبد الرحمن بن ابزى ، عن ابيه ، عن عمار بن ياسر ، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم. قال يونس إنه سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن التيمم، فقال: " ضربة للكفين والوجه" . وقال عفان: إن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول في التيمم:" ضربة للوجه والكفين".حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، وَيُونُسُ ، قَالاَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ عَزْرَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ يُونُسُ إِنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ التَّيَمُّمِ، فَقَالَ: " ضَرْبَةٌ لِلْكَفَّيْنِ وَالْوَجْهِ" . وَقَالَ عَفَّانُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي التَّيَمُّمِ:" ضَرْبَةٌ لِلْوَجْهِ وَالْكَفَّيْنِ".
حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تیمم کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک ضرب دونوں ہاتھوں کے لئے اور ایک ضرب چہرے کے لئے لگائی جائے۔
حدثنا محمد بن عبد الله بن الزبير ، حدثنا إسرائيل ، عن سماك ، عن ثروان بن ملحان ، قال: كنا جلوسا في المسجد، فمر علينا عمار بن ياسر ، فقلنا له حدثنا ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في الفتنة، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " يكون بعدي قوم ياخذون الملك، يقتل عليه بعضهم بعضا" . قال: قلنا له: لو حدثنا غيرك ما صدقناه! قال: فإنه سيكون.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ ثَرْوَانَ بْنِ مِلْحَانَ ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا فِي الْمَسْجِدِ، فَمَرَّ عَلَيْنَا عَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ ، فَقُلْنَا لَهُ حَدِّثْنَا مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي الْفِتْنَةِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يَكُونُ بَعْدِي قَوْمٌ يَأْخُذُونَ الْمُلْكَ، يَقْتُلُ عَلَيْهِ بَعْضُهُمْ بَعْضًا" . قَالَ: قُلْنَا لَهُ: لَوْ حَدَّثَنَا غَيْرُكَ مَا صَدَّقْنَاهُ! قَالَ: فَإِنَّهُ سَيَكُونُ.
ثروان بن ملحان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ہمارے پاس سے گذرے ہم نے ان سے درخواست کی کہ فتنوں کے حوالے سے آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے میرے بعد ایک ایسی قوم آئے گی جو اقتدار حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کو قتل کردے گی ہم نے ان سے کہا کہ اگر آپ کے علاوہ کوئی اور شخص ہم سے یہ حدیث بیان کرتا تو ہم کبھی اس کی تصدیق نہ کرتے انہوں نے فرمایا ایسا ہو کر رہے گا۔
حدثنا علي بن بحر ، حدثنا عيسى بن يونس ، حدثنا محمد بن إسحاق ، حدثني يزيد بن محمد بن خثيم المحاربي ، عن محمد بن كعب القرظي ، عن محمد بن خثيم ابي يزيد ، عن عمار بن ياسر ، قال: كنت انا وعلي رفيقين في غزوة ذات العشيرة، فلما نزلها رسول الله صلى الله عليه وسلم، واقام بها، راينا اناسا من بني مدلج يعملون في عين لهم في نخل، فقال لي علي: يا ابا اليقظان، هل لك ان تاتي هؤلاء، فننظر كيف يعملون؟ فجئناهم، فنظرنا إلى عملهم ساعة، ثم غشينا النوم، فانطلقت انا وعلي فاضطجعنا في صور من النخل في دقعاء من التراب، فنمنا، فوالله ما اهبنا إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم يحركنا برجله، وقد تتربنا من تلك الدقعاء، فيومئذ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي:" يا ابا تراب" لما يرى عليه من التراب. قال: " الا احدثكما باشقى الناس رجلين؟" قلنا: بلى يا رسول الله. قال:" احيمر ثمود الذي عقر الناقة، والذي يضربك يا علي على هذه" يعني قرنه" حتى تبل منه هذه" يعني لحيته" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُثَيْمٍ الْمُحَارِبِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خُثَيْمٍ أَبِي يَزِيدَ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ ، قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَعَلِيٌّ رَفِيقَيْنِ فِي غَزْوَةِ ذَاتِ الْعُشَيْرَةِ، فَلَمَّا نَزَلَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَقَامَ بِهَا، رَأَيْنَا أُنَاسًا مِنْ بَنِي مُدْلِجٍ يَعْمَلُونَ فِي عَيْنٍ لَهُمْ فِي نَخْلٍ، فَقَالَ لِي عَلِيٌّ: يَا أَبَا الْيَقْظَانِ، هَلْ لَكَ أَنْ تَأْتِيَ هَؤُلَاءِ، فَنَنْظُرَ كَيْفَ يَعْمَلُونَ؟ فَجِئْنَاهُمْ، فَنَظَرْنَا إِلَى عَمَلِهِمْ سَاعَةً، ثُمَّ غَشِيَنَا النَّوْمُ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَعَلِيٌّ فَاضْطَجَعْنَا فِي صَوْرٍ مِنَ النَّخْلِ فِي دَقْعَاءَ مِنَ التُّرَابِ، فَنِمْنَا، فَوَاللَّهِ مَا أَهَبَّنَا إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَرِّكُنَا بِرِجْلِهِ، وَقَدْ تَتَرَّبْنَا مِنْ تِلْكَ الدَّقْعَاءِ، فَيَوْمَئِذٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ:" يَا أَبَا تُرَابٍ" لِمَا يُرَى عَلَيْهِ مِنَ التُّرَابِ. قَالَ: " أَلَا أُحَدِّثُكُمَا بِأَشْقَى النَّاسِ رَجُلَيْنِ؟" قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ:" أُحَيْمِرُ ثَمُودَ الَّذِي عَقَرَ النَّاقَةَ، وَالَّذِي يَضْرِبُكَ يَا عَلِيُّ عَلَى هَذِهِ" يَعْنِي قَرْنَهُ" حَتَّى تُبَلَّ مِنْهُ هَذِهِ" يَعْنِي لِحْيَتَهُ" .
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ غزوہ ذات العشیرہ میں میں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ رفیق سفر تھے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا اور وہاں قیام فرمایا تو ہم نے بنی مدلج کے کچھ لوگوں کو دیکھا جو اپنے باغات کے چشموں میں کام کر رہے تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ مجھ سے کہنے لگے اے ابوالیقظان! آؤ، ان لوگوں کے پاس چل کر دیکھتے ہیں کہ یہ کس طرح کام کرتے ہیں؟ چناچہ ہم ان کے قریب چلے گئے تھوڑی دیر تک ان کا کام دیکھا پھر ہمیں نیند کے جھونکے آنے لگے چناچہ ہم واپس آگئے اور ایک باغ میں مٹی کے اوپر ہی لیٹ گئے۔ ہم اس طرح بیخبر ہو کر سوئے کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے آکر اٹھایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے پاؤں سے ہلا رہے تھے اور ہم اس مٹی میں لت پت ہوچکے تھے اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا ابوتراب! کیونکہ ان پر تراب (مٹی) زیادہ تھی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ شقی دو آدمیوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک تو قوم ثمود کا وہ سرخ و سپید آدمی جس نے ناقتہ اللہ کی کونچیں کاٹی تھیں اور دوسرا وہ آدمی جو اے علی! تمہارے سر پر وار کر کے تمہاری ڈاڑھی کو خون سے تر کردے گا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره دون قوله: يا أبا تراب فصحيح من قصة أخرى، وهذا إسناد ضعيف، فيه ثلاث علل: الجهالة، والانقطاع، والتفرد
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن صالح ، قال: قال ابن شهاب : حدثني عبيد الله بن عبد الله ، عن ابن عباس ، عن عمار بن ياسر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم عرس باولات الجيش ومعه عائشة زوجته، فانقطع عقد لها من جزع ظفار، فحبس الناس ابتغاء عقدها وذلك حتى اضاء الفجر، وليس مع الناس ماء، فانزل الله عز وجل على رسوله صلى الله عليه وسلم رخصة التطهر بالصعيد الطيب، فقام المسلمون مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، " فضربوا بايديهم الارض، ثم رفعوا ايديهم، ولم يقبضوا من التراب شيئا فمسحوا بها وجوههم وايديهم إلى المناكب، ومن بطون ايديهم إلى الآباط، ولا يغتر بهذا الناس" . وبلغنا ان ابا بكر قال لعائشة رضي الله تعالى عنهما: والله ما علمت إنك لمباركة.حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَّسَ بِأُوَلَاتِ الْجَيْشِ وَمَعَهُ عَائِشَةُ زَوْجَتُهُ، فَانْقَطَعَ عِقْدٌ لَهَا مِنْ جَزْعِ ظَفَارِ، فَحُبِسَ النَّاسُ ابْتِغَاءَ عِقْدِهَا وَذَلِكَ حَتَّى أَضَاءَ الْفَجْرُ، وَلَيْسَ مَعَ النَّاسِ مَاءٌ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُخْصَةَ التَّطَهُّرِ بِالصَّعِيدِ الطَّيِّبِ، فَقَامَ الْمُسْلِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " فَضَرَبُوا بِأَيْدِيهِمْ الْأَرْضَ، ثُمَّ رَفَعُوا أَيْدِيَهُمْ، وَلَمْ يَقْبِضُوا مِنَ التُّرَابِ شَيْئًا فَمَسَحُوا بِهَا وُجُوهَهُمْ وَأَيْدِيَهُمْ إِلَى الْمَنَاكِبِ، وَمِنْ بُطُونِ أَيْدِيهِمْ إِلَى الْآبَاطِ، وَلَا يَغْتَرُّ بِهَذَا النَّاسُ" . وَبَلَغَنَا أَنَّ أَبَا بَكْرٍ قَالَ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمَا: وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِنَّكِ لَمُبَارَكَةٌ.
حضرت عماربن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی لشکر کے ساتھ رات کے آخری حصے میں ایک جگہ پڑاؤ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھیں اسی رات ان کا ہاتھی دانت کا ایک ہار ٹوٹ کر گرپڑا لوگ ان کا ہار تلاش کرنے کے لئے رک گئے یہ سلسلہ طلوع فجر تک چلتا رہا اور لوگوں کے پاس پانی بھی نہیں تھا (کہ نماز پڑھ سکیں) اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے وضو میں رخصت کا پہلو یعنی پاک مٹی کے ساتھ تیمم کرنے کا حکم نازل فرما دیا، چناچہ تمام مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوئے اور زمین پر ہاتھ مار کر اپنے ہاتھ اٹھائے لیکن مٹی نہیں اٹھائی اور اپنے چہروں اور کندھوں تک ہاتھوں پر انہیں پھیرلیا اسی طرح ہاتھوں کے باطنی حصے پر بغلوں تک اسے پھیرلیا لہٰذا لوگ اس میں شکوک کا شکار نہ ہوں اور ہمیں یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا بخدا! مجھے معلوم نہ تھا کہ تو اتنی مبارک ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقوله: ولا يغتر بهذا الناس، من كلام الزهري
ابن ل اس خزاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوئے اور دو ہلکی لیکن مکمل رکعتیں پڑھیں اس کے بعد بیٹھ گئے ہم بھی اٹھ کر ان کے پاس پہنچے اور بیٹھ گئے اور ان سے عرض کیا کہ ابوالیقظان! آپ نے یہ دو رکعتیں تو بہت ہی ہلکی پڑھی ہیں انہوں نے فرمایا کہ میں نے ان میں شیطان پر سبقت حاصل کی ہے، کہ وہ میرے اندر داخل نہ ہونے پائے۔ پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی۔
حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا شريك ، عن ابي هاشم ، عن ابي مجلز ، قال: " صلى عمار صلاة، فجوز فيها، فسئل او فقيل له: فقال:" ما خرمت من صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم" .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ ، قَالَ: " صَلَّى عَمَّارٌ صَلَاةً، فَجَوَّزَ فِيهَا، فَسُئِلَ أَوْ فَقِيلَ لَهُ: فَقَالَ:" مَا خَرَمْتُ مِنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" .
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، شريك سيئ الحفظ، لكنه توبع، أبو مجلز لا يذكر له رواية عن عمار
حدثنا إسحاق الازرق ، عن شريك ، عن ابي هاشم ، عن ابي مجلز ، قال: صلى بنا عمار صلاة، فاوجز فيها، فانكروا ذلك، فقال: الم اتم الركوع والسجود؟! قالوا: بلى. قال: اما إني قد دعوت فيهما بدعاء، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعو به: " اللهم بعلمك الغيب، وقدرتك على الخلق، احيني ما علمت الحياة خيرا لي، وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي، اسالك خشيتك في الغيب والشهادة، وكلمة الحق في الغضب والرضا، والقصد في الفقر والغنى، ولذة النظر إلى وجهك، والشوق إلى لقائك، واعوذ بك من ضراء مضرة، ومن فتنة مضلة، اللهم زينا بزينة الإيمان، واجعلنا هداة مهديين" .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْأَزْرَقُ ، عَنْ شَرِيكٍ ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ ، قَالَ: صَلَّى بِنَا عَمَّارٌ صَلَاةً، فَأَوْجَزَ فِيهَا، فَأَنْكَرُوا ذَلِكَ، فَقَالَ: أَلَمْ أُتِمَّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ؟! قَالُوا: بَلَى. قَالَ: أَمَا إِنِّي قَدْ دَعَوْتُ فِيهِمَا بِدُعَاءٍ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو بِهِ: " اللَّهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ، وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ، أَحْيِنِي مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتْ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي، أَسْأَلُكَ خَشْيَتَكَ فِي الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، وَكَلِمَةَ الْحَقِّ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا، وَالْقَصْدَ فِي الْفَقْرِ وَالْغِنَى، وَلَذَّةَ النَّظَرِ إِلَى وَجْهِكَ، وَالشَّوْقَ إِلَى لِقَائِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ ضَرَّاءَ مُضِرَّةٍ، وَمِنْ فِتْنَةٍ مُضِلَّةٍ، اللَّهُمَّ زَيِّنَّا بِزِينَةِ الْإِيمَانِ، وَاجْعَلْنَا هُدَاةً مَهْدِيِّينَ" .
ابومجلز رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے مختصر سی نماز پڑھی ان سے کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے سرمو بھی تفاوت نہیں کیا۔ ابومجلز رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے ہمیں بہت مختصر نماز پڑھائی لوگوں کو اس پر تعجب ہوا تو انہوں نے فرمایا میں نے رکوع سجود مکمل نہیں کیا لوگوں نے کہا کیوں نہیں، انہوں نے فرمایا میں نے اس میں ایک دعا مانگی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مانگتے تھے اور وہ یہ ہے اے اللہ اپنے علم غیب اور مخلوق پر قدرت کی وجہ سے مجھے اس وقت تک زندگی عطا فرما جب تک تیرے علم کے مطابق میں میرے لئے بہتری ہو اور جب میرے لئے موت بہتر ہو تو مجھے موت سے ہمکنار فرما، میں ظاہر باطن میں تیری خشیت کا سوال کرتا ہوں ناراضگی اور رضامندی میں کلمہ حق کہنے کی اور تنگدستی اور کشادہ دستی میں میانہ روی، آپ کے روئے انور کی زیارت اور آپ سے ملاقات کا شوق مانگتا ہوں اور نقصان دہ چیزوں سے اور گمراہ کن فتنوں سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں اے اللہ ہمیں ایمان کی زینت سے مزین فرما اور ہمیں ہدایت یافتہ اور ہدایت کنندہ بنا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، شريك سيئ الحفظ، لكنه توبع ، أبو مجلز لا يذكر له رواية عن عمار
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مندرجہ ذیل چیزیں امور فطرت میں سے ہیں کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، مونچھیں کترانا، مسواک کرنا، ناخن تراشنا، انگلیوں کے پورے دھونا، بغل کے بال نوچنا، زیر ناف بال صاف کرنا، ختنہ کرنا اور استنجاء کے بعد کپڑے پر پانی کے چھینٹے مارنا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد وسلمة بن محمد، سلمة لم يسمع من عمار
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، قال: كنت جالسا مع ابي موسى وعبد الله، قال: فقال ابو موسى: يا ابا عبد الرحمن، ارايت لو ان رجلا لم يجد الماء وقد اجنب شهرا، ما كان يتيمم؟ قال: لا، ولو لم يجد الماء شهرا، قال: فقال له ابو موسى: فكيف تصنعون بهذه الآية في سورة المائدة: فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا؟ قال: فقال عبد الله: لو رخص لهم في هذا، لاوشكوا إذا برد عليهم الماء ان يتيمموا الصعيد، ثم يصلوا. قال: فقال له ابو موسى: إنما كرهتم ذا لهذا، قال: نعم. قال له ابو موسى : الم تسمع لقول عمار : بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في حاجة، فاجنبت، فلم اجد الماء، فتمرغت في الصعيد كما تمرغ الدابة، ثم اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له، فقال:" إنما كان يكفيك ان تقول: وضرب بيده على الارض، ثم مسح كل واحدة منهما بصاحبتها، ثم مسح بها وجهه" ، لم يجز الاعمش الكفين. قال: فقال له عبد الله: الم تر عمر، لم يقنع بقول عمار؟ قال ابو عبد الرحمن: قال ابي: وقال ابو معاوية مرة قال: فضرب بيده على الارض، ثم نفضها، ثم ضرب بشماله على يمينه، ويمينه على شماله على الكفين، ثم مسح وجهه.حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِي مُوسَى وَعَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو مُوسَى: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا لَمْ يَجِدْ الْمَاءَ وَقَدْ أَجْنَبَ شَهْرًا، مَا كَانَ يَتَيَمَّمُ؟ قَالَ: لَا، وَلَوْ لَمْ يَجِدْ الْمَاءَ شَهْرًا، قَالَ: فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: فَكَيْفَ تَصْنَعُونَ بِهَذِهِ الْآيَةِ فِي سُورَةِ الْمَائِدَةِ: فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا؟ قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَوْ رُخِّصَ لَهُمْ فِي هَذَا، لَأَوْشَكُوا إِذَا بَرَدَ عَلَيْهِمْ الْمَاءُ أَنْ يَتَيَمَّمُوا الصَّعِيدَ، ثُمَّ يُصَلُّوا. قَالَ: فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: إِنَّمَا كَرِهْتُمْ ذَا لِهَذَا، قَالَ: نَعَمْ. قَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى : أَلَمْ تَسْمَعْ لِقَوْلِ عَمَّارٍ : بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ، فَأَجْنَبْتُ، فَلَمْ أَجِدْ الْمَاءَ، فَتَمَرَّغْتُ فِي الصَّعِيدِ كَمَا تَمَرَّغُ الدَّابَّةُ، ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:" إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَقُولَ: وَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى الْأَرْضِ، ثُمَّ مَسَحَ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا بِصَاحِبَتِهَا، ثُمَّ مَسَحَ بِهَا وَجْهَهُ" ، لَمْ يُجِزْ الْأَعْمَشُ الْكَفَّيْنِ. قَالَ: فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ: أَلَمْ تَرَ عُمَر، لَمْ يَقْنَعْ بِقَوْلِ عَمَّارٍ؟ قال أبو عبد الرحمن: قال أبي: وَقَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ مَرَّةً قَالَ: فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَى الْأَرْضِ، ثُمَّ نَفَضَهَا، ثُمَّ ضَرَبَ بِشِمَالِهِ عَلَى يَمِينِهِ، وَيمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ عَلَى الْكَفَّيْنِ، ثُمَّ مَسَحَ وَجْهَهُ.
شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ کہنے لگے اے ابوعبدالرحمن! یہ بتائیے کہ اگر کوئی آدمی ناپاک ہوجائے اور اسے پانی نہ ملے تو کیا وہ ایک مہینے تک جنبی ہی رہے گا اسے تیمم کرنے کی اجازت نہ ہوگی؟ انہوں نے فرمایا نہیں خواہ ایک مہینے تک پانی نہ ملے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا پھر سورت مائدہ کی اس آیت کا کیا کریں گے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ " اگر تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو " حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی گئی تو وہ معمولی سردی میں بھی مٹی سے تیمم کرکے نماز پڑھنے لگیں گے حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا آپ صرف اسی وجہ سے ہی اسے مکروہ سمجھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں!