حدثنا علي بن بحر ، حدثنا عيسى بن يونس ، حدثنا محمد بن إسحاق ، حدثني يزيد بن محمد بن خثيم المحاربي ، عن محمد بن كعب القرظي ، عن محمد بن خثيم ابي يزيد ، عن عمار بن ياسر ، قال: كنت انا وعلي رفيقين في غزوة ذات العشيرة، فلما نزلها رسول الله صلى الله عليه وسلم، واقام بها، راينا اناسا من بني مدلج يعملون في عين لهم في نخل، فقال لي علي: يا ابا اليقظان، هل لك ان تاتي هؤلاء، فننظر كيف يعملون؟ فجئناهم، فنظرنا إلى عملهم ساعة، ثم غشينا النوم، فانطلقت انا وعلي فاضطجعنا في صور من النخل في دقعاء من التراب، فنمنا، فوالله ما اهبنا إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم يحركنا برجله، وقد تتربنا من تلك الدقعاء، فيومئذ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي:" يا ابا تراب" لما يرى عليه من التراب. قال: " الا احدثكما باشقى الناس رجلين؟" قلنا: بلى يا رسول الله. قال:" احيمر ثمود الذي عقر الناقة، والذي يضربك يا علي على هذه" يعني قرنه" حتى تبل منه هذه" يعني لحيته" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُثَيْمٍ الْمُحَارِبِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خُثَيْمٍ أَبِي يَزِيدَ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ ، قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَعَلِيٌّ رَفِيقَيْنِ فِي غَزْوَةِ ذَاتِ الْعُشَيْرَةِ، فَلَمَّا نَزَلَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَقَامَ بِهَا، رَأَيْنَا أُنَاسًا مِنْ بَنِي مُدْلِجٍ يَعْمَلُونَ فِي عَيْنٍ لَهُمْ فِي نَخْلٍ، فَقَالَ لِي عَلِيٌّ: يَا أَبَا الْيَقْظَانِ، هَلْ لَكَ أَنْ تَأْتِيَ هَؤُلَاءِ، فَنَنْظُرَ كَيْفَ يَعْمَلُونَ؟ فَجِئْنَاهُمْ، فَنَظَرْنَا إِلَى عَمَلِهِمْ سَاعَةً، ثُمَّ غَشِيَنَا النَّوْمُ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَعَلِيٌّ فَاضْطَجَعْنَا فِي صَوْرٍ مِنَ النَّخْلِ فِي دَقْعَاءَ مِنَ التُّرَابِ، فَنِمْنَا، فَوَاللَّهِ مَا أَهَبَّنَا إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَرِّكُنَا بِرِجْلِهِ، وَقَدْ تَتَرَّبْنَا مِنْ تِلْكَ الدَّقْعَاءِ، فَيَوْمَئِذٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ:" يَا أَبَا تُرَابٍ" لِمَا يُرَى عَلَيْهِ مِنَ التُّرَابِ. قَالَ: " أَلَا أُحَدِّثُكُمَا بِأَشْقَى النَّاسِ رَجُلَيْنِ؟" قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ:" أُحَيْمِرُ ثَمُودَ الَّذِي عَقَرَ النَّاقَةَ، وَالَّذِي يَضْرِبُكَ يَا عَلِيُّ عَلَى هَذِهِ" يَعْنِي قَرْنَهُ" حَتَّى تُبَلَّ مِنْهُ هَذِهِ" يَعْنِي لِحْيَتَهُ" .
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ غزوہ ذات العشیرہ میں میں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ رفیق سفر تھے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا اور وہاں قیام فرمایا تو ہم نے بنی مدلج کے کچھ لوگوں کو دیکھا جو اپنے باغات کے چشموں میں کام کر رہے تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ مجھ سے کہنے لگے اے ابوالیقظان! آؤ، ان لوگوں کے پاس چل کر دیکھتے ہیں کہ یہ کس طرح کام کرتے ہیں؟ چناچہ ہم ان کے قریب چلے گئے تھوڑی دیر تک ان کا کام دیکھا پھر ہمیں نیند کے جھونکے آنے لگے چناچہ ہم واپس آگئے اور ایک باغ میں مٹی کے اوپر ہی لیٹ گئے۔ ہم اس طرح بیخبر ہو کر سوئے کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے آکر اٹھایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے پاؤں سے ہلا رہے تھے اور ہم اس مٹی میں لت پت ہوچکے تھے اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا ابوتراب! کیونکہ ان پر تراب (مٹی) زیادہ تھی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ شقی دو آدمیوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک تو قوم ثمود کا وہ سرخ و سپید آدمی جس نے ناقتہ اللہ کی کونچیں کاٹی تھیں اور دوسرا وہ آدمی جو اے علی! تمہارے سر پر وار کر کے تمہاری ڈاڑھی کو خون سے تر کردے گا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره دون قوله: يا أبا تراب فصحيح من قصة أخرى، وهذا إسناد ضعيف، فيه ثلاث علل: الجهالة، والانقطاع، والتفرد