حضرت محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حلال و حرام کے درمیان فرق دف بجانے اور نکاح کی تشہیر کرنے سے ہوتا ہے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي بلج ، قال: قلت لمحمد بن حاطب : إني قد تزوجت امراتين لم يضرب علي بدف، قال: بئسما صنعت. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن فصل ما بين الحلال والحرام الصوت يعني الضرب بالدف" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي بَلْجٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِمُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ : إِنِّي قَدْ تَزَوَّجْتُ امْرَأَتَيْنِ لَمْ يُضْرَبْ عَلَيَّ بِدُفٍّ، قَالَ: بِئْسَمَا صَنَعْتَ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ فَصْلَ مَا بَيْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ الصَّوْتُ يَعْنِي الضَّرْبَ بِالدُّفِّ" .
حضرت محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حلال و حرام کے درمیان فرق دف بجانے اور نکاح کی تشہیر کرنے سے ہوتا ہے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سماك بن حرب ، عن محمد بن حاطب ، قال: وقعت القدر على يدي، فاحترقت يدي، فانطلق بي ابي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان يتفل فيها، ويقول: " اذهب الباس رب الناس" واحسبه قال:" واشفه إنك انت الشافي" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ ، قَالَ: وَقَعَتْ الْقِدْرُ عَلَى يَدِي، فَاحْتَرَقَتْ يَدِي، فَانْطَلَقَ بِي أَبِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ يَتْفُلُ فِيهَا، وَيَقُولُ: " أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ" وَأَحْسِبُهُ قَالَ:" وَاشْفِهِ إِنَّكَ أَنْتَ الشَّافِي" .
حضرت محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میرے ہاتھ پر ایک ہانڈی گرگئی میری والدہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئیں اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص جگہ پر تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے دعاء فرمائی کہ اے لوگوں کے رب! اس تکلیف کو دور فرما اور شاید یہ بھی فرمایا کہ تو اسے شفاء عطاء فرما کیونکہ شفاء دینے والا تو ہی ہے نبی کریم نے اس کے بعد مجھ پر اپنا لعاب دہن لگایا۔
حضرت ابویزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لوگوں کو چھوڑ دو کہ انہیں ایک دوسرے سے رزق حاصل ہو البتہ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کے ساتھ ہمدردی کرنا چاہئے تو اسے نصیحت کردے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال حكيم بن أبى يزيد، وعطاء مختلط، وسماع والد عبدالصمد من بعد اختلاطه، وقد اختلف فيه على عطاء
حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا عطاء بن السائب ، قال: كان اول يوم عرفت فيه عبد الرحمن بن ابي ليلى رايت شيخا ابيض الراس واللحية على حمار، وهو يتبع جنازة، فسمعته يقول: حدثني فلان بن فلان : سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من احب لقاء الله، احب الله لقاءه، ومن كره لقاء الله، كره الله لقاءه" قال: فاكب القوم يبكون، فقال:" ما يبكيكم؟" فقالوا: إنا نكره الموت. قال:" ليس ذلك، ولكنه إذا حضر فاما إن كان من المقربين فروح وريحان وجنة نعيم سورة الواقعة آية 88 - 89 فإذا بشر بذلك، احب لقاء الله، والله للقائه احب، واما إن كان من المكذبين الضالين فنزل من حميم سورة الواقعة آية 92 - 93" قال عطاء: وفي قراءة ابن مسعود" ثم تصلية جحيم"، فإذا بشر، بذلك يكره لقاء الله، والله للقائه اكره" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، قَالَ: كَانَ أَوَّلُ يَوْمٍ عَرَفْتُ فِيهِ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى رَأَيْتُ شَيْخًا أَبْيَضَ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ عَلَى حِمَارٍ، وَهُوَ يَتْبَعُ جِنَازَةً، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: حَدَّثَنِي فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ : سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ، أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ، كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ" قَالَ: فَأَكَبَّ الْقَوْمُ يَبْكُونَ، فَقَالَ:" مَا يُبْكِيكُمْ؟" فَقَالُوا: إِنَّا نَكْرَهُ الْمَوْتَ. قَالَ:" لَيْسَ ذَلِكَ، وَلَكِنَّهُ إِذَا حَضَرَ فَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ فَرَوْحٌ وَرَيْحَانٌ وَجَنَّةُ نَعِيمٍ سورة الواقعة آية 88 - 89 فَإِذَا بُشِّرَ بِذَلِكَ، أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ، وَاللَّهُ لِلِقَائِهِ أَحَبُّ، وَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنَ الْمُكَذِّبِينَ الضَّالِّينَ فَنُزُلٌ مِنْ حَمِيمٍ سورة الواقعة آية 92 - 93" قَالَ عَطَاءٌ: وَفِي قِرَاءَةِ ابْنِ مَسْعُودٍ" ثُمَّ تَصْلِيَةُ جَحِيمٍ"، فَإِذَا بُشِّرَ، بِذَلِكَ يَكْرَهُ لِقَاءَ اللَّه، وَاللَّهُ لِلِقَائِهِ أَكْرَهُ" .
عطاء بن سائب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جس دن سب سے پہلے مجھے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کی شناخت ہوئی ہے اسی دن میں نے سر اور ڈاڑھی کے سفید بالوں والے ایک بزرگ کو گدھے پر سوار دیکھا جو ایک جنازے کے ساتھ جارہے تھے میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھ سے فلاں بن فلاں نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص اللہ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ اس سے ملنے کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اللہ اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔ یہ سن کر لوگ سرجھکا کر رونے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے عرض کیا کہ اس طرح تو ہم سب ہی موت کو اچھا نہیں سمجھتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا یہ مطلب نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ جب کسی کی موت کا وقت آتا ہے اور وہ مقربین میں سے ہوتا ہے تو اس کے لئے راحت غذائیں اور نعمتوں والے باغات ہوں گے اور جب اسے اس کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملنے کی خواہش کرتا ہے اور اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند فرماتا ہے اور اگر وہ جھٹلانے والے گمراہ لوگوں میں سے ہو تو اس کی مہمان نوازی کھولتے ہوئے پانی سے کی جاتی ہے اور جب اسے اس کی اطلاع ملتی ہے تو وہ اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ خود بھی اس سے ملنے کو زیادہ ناپسند کرتا ہے۔
حدثنا حجاج ، حدثنا شيبان ، حدثنا منصور ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن سلمة بن نعيم ، قال: وكان من اصحاب الرسول صلى الله عليه وسلم، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من لقي الله لا يشرك به شيئا دخل الجنة، وإن زنى، وإن سرق" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ نُعَيْمٍ ، قَالَ: وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ لَقِيَ اللَّهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَإِنْ زَنَى، وَإِنْ سَرَقَ" .
حضرت سلمہ بن نعیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اس حال میں اللہ سے ملے کہ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہو کر رہے گا خواہ وہ بدکاری یا چوری ہی کرتا ہو۔
حضرت عامربن شہر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قریش کو دیکھا کرو ان کی باتوں کو لے لیا کرو اور ان کے افعال کو چھوڑ دیا کرو۔
حضرت عامر بن شہر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قریش کو دیکھا کرو ان کی باتوں کو لے لیا کرو اور ان کے افعال کو چھوڑ دیا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، شريك سيئ الحفظ، لكنه توبع، وقوله: «عن عطاء» خطأ، صوابه: «عن عامر» يعني الشعبي
حدثنا معاذ بن معاذ ، اخبرنا شعبة ، اخبرنا ابو إسحاق الهمداني ، عن جري النهدي ، عن رجل من بني سليم، قال: عقد رسول الله صلى الله عليه وسلم في يده او في يدي، فقال: " سبحان الله نصف الميزان، والحمد لله تملا الميزان، والله اكبر تملا ما بين السماء والارض، والطهور نصف الإيمان، والصوم نصف الصبر" .حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ ، عَنْ جُرَيٍّ النَّهْدِيِّ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ، قَالَ: عَقَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَدِهِ أَوْ فِي يَدِي، فَقَالَ: " سُبْحَانَ اللَّهِ نِصْفُ الْمِيزَانِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ تَمْلَأُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، وَالطُّهُورُ نِصْفُ الْإِيمَانِ، وَالصَّوْمُ نِصْفُ الصَّبْرِ" .
بنوسلیم کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک کی انگلیوں پر یہ چیزیں شمار کیں " سبحان اللہ " نصف میزان عمل کے برابر ہے " الحمدللہ " میزان عمل کو بھردے گا " اللہ اکبر " کا لفظ زمین و آسمان کے درمیان ساری فضاء کو بھر دیتا ہے صفائی نصف ایمان ہے اور روزہ نصف صبر ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد فيه جري النهدي، لم يذكر فيه جرح ولا تعديل، فهذا إسناد ضعيف، حسن بالشواهد، وإن كان هو: جري بن كليب سدوسي فالإسناد حسن
حدثنا إسماعيل ، حدثنا داود بن ابي هند ، عن الشعبي ، قال: حدثني ابو جبيرة بن الضحاك ، قال: فينا نزلت في بني سلمة ولا تنابزوا بالالقاب سورة الحجرات آية 11، قال: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة، وليس منا رجل إلا وله اسمان او ثلاثة، فكان إذا دعي احد منهم باسم من تلك الاسماء، قالوا: يا رسول الله، إنه يغضب من هذا، قال: " فنزلت ولا تنابزوا بالالقاب سورة الحجرات آية 11" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو جَبِيرَةَ بْنُ الضَّحَّاكِ ، قَالَ: فِينَا نَزَلَتْ فِي بَنِي سَلِمَةَ وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ سورة الحجرات آية 11، قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، وَلَيْسَ مِنَّا رَجُلٌ إِلَّا وَلَهُ اسْمَانِ أَوْ ثَلَاثَةٌ، فَكَانَ إِذَا دُعِيَ أَحَدٌ مِنْهُمْ بِاسْمٍ مِنْ تِلْكَ الْأَسْمَاءِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ يَغْضَبُ مِنْ هَذَا، قَالَ: " فَنَزَلَتْ وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ سورة الحجرات آية 11" .
ابوجبیرہ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کے ایک یا دو لقب نہ ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی آدمی کو اس کے لقب سے پکار کر بلاتے تو ہم عرض کرتے یا رسول اللہ! یہ نام اس کو ناپسند ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ایک دوسرے کو مختلف القاب سے طعنہ مت دیا کرو۔ "
حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن صحت صحبة أبى جبيرة بن الضحاك ، وإلا فمرسل