حدثنا ابو الوليد ، وعفان ، قالا: حدثنا عبيد الله بن إياد ، حدثنا إياد ، عن سويد بن سرحان ، عن المغيرة بن شعبة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اكل طعاما، ثم اقيمت الصلاة، فقام، وقد كان توضا قبل ذلك، فاتيته بماء ليتوضا منه، فانتهرني، وقال:" وراءك"، فساءني والله ذلك، ثم صلى، فشكوت ذلك إلى عمر، فقال: يا نبي الله، إن المغيرة قد شق عليه انتهارك إياه، وخشي ان يكون في نفسك عليه شيء، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ليس عليه في نفسي شيء إلا خير، ولكن اتاني بماء لاتوضا، وإنما اكلت طعاما، ولو فعلت، فعل ذلك الناس بعدي" .حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ ، وَعَفَّانُ ، قَالاَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ إِيَادٍ ، حَدَّثَنَا إِيَادٌ ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ سَرْحَانَ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكَلَ طَعَامًا، ثُمَّ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ، فَقَامَ، وَقَدْ كَانَ تَوَضَّأَ قَبْلَ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُهُ بِمَاءٍ لِيَتَوَضَّأَ مِنْهُ، فَانْتَهَرَنِي، وَقَالَ:" وَرَاءَكَ"، فَسَاءَنِي وَاللَّهِ ذَلِكَ، ثُمَّ صَلَّى، فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى عُمَرَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ الْمُغِيرَةَ قَدْ شَقَّ عَلَيْهِ انْتِهَارُكَ إِيَّاهُ، وَخَشِيَ أَنْ يَكُونَ فِي نَفْسِكَ عَلَيْهِ شَيْءٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ عَلَيْهِ فِي نَفْسِي شَيْءٌ إِلَّا خَيْرٌ، وَلَكِنْ أَتَانِي بِمَاءٍ لِأَتَوَضَّأَ، وَإِنَّمَا أَكَلْتُ طَعَامًا، وَلَوْ فَعَلْتُ، فَعَلَ ذَلِكَ النَّاسُ بَعْدِي" .
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا تناول فرمایا اس کے بعد نماز کھڑی ہوگئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے وضو فرما رکھا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وضو کا پانی لے کر آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جھڑکتے ہوئے فرمایا پیچھے ہٹو بخدا! مغیرہ کو آپ کا جھڑکنا بہت پریشان کر رہا ہے اسے اندیشہ ہے کہ کہیں اس کے متعلق آپ کے دل میں کوئی بوجھ تو نہیں ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے دل میں تو اس کے متعلق سوائے بھلائی کے اور کچھ نہیں البتہ یہ میرے پاس وضو کے لئے پانی لائے تھے جبکہ میں نے تو صرف کھانا کھایا تھا اگر میں وضو کرلیتا تو میرے بعد لوگ بھی اسی طرح کرنا شروع کردیتے۔
حدثنا وكيع ، حدثنا بكير بن عامر ، عن ابن ابي نعم ، عن المغيرة بن شعبة ، قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فقضى حاجته، ثم توضا، ومسح على خفيه، قلت: يا رسول الله، نسيت؟ قال:" بل انت نسيت، بهذا امرني ربي عز وجل" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا بُكَيْرُ بْنُ عَامِرٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ تَوَضَّأَ، وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَسِيتَ؟ قَالَ:" بَلْ أَنْتَ نَسِيتَ، بِهَذَا أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک وادی میں قضاء حاجت کے لئے تشریف لے گئے وہاں سے واپس آکر وضو کیا اور موزوں پر ہی مسح کرلیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! شاید آپ بھول گئے کہ آپ نے موزے نہیں اتارے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قطعاً نہیں تم بھول گئے ہو مجھے تو میرے رب نے یہی حکم دیا ہے۔
حكم دارالسلام: ضعيف بهذه السياقة، تفرد بها بكير، وهو ضعيف
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنے جسم کو آگ سے داغے یا منتر پڑھے وہ توکل سے بری ہے۔
حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا إسرائيل ، عن جابر ، عن المغيرة بن شبل ، عن قيس بن ابي حازم ، عن المغيرة بن شعبة ، قال: امنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في الظهر او العصر، فقام، فقلنا: سبحان الله، فقال:" سبحان الله"، واشار بيده يعني قوموا، فقمنا، فلما فرغ من صلاته سجد سجدتين، ثم قال: " إذا ذكر احدكم قبل ان يستتم قائما، فليجلس، وإذا استتم قائما، فلا يجلس" .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شِبْلٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَ: أَمَّنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الظُّهْرِ أَوْ الْعَصْرِ، فَقَامَ، فَقُلْنَا: سُبْحَانَ اللَّهِ، فَقَالَ:" سُبْحَانَ اللَّهِ"، وَأَشَارَ بِيَدِهِ يَعْنِي قُومُوا، فَقُمْنَا، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: " إِذَا ذَكَرَ أَحَدُكُمْ قَبْلَ أَنْ يَسْتَتِمَّ قَائِمًا، فَلْيَجْلِسْ، وَإِذَا اسْتَتَمَّ قَائِمًا، فَلَا يَجْلِسْ" .
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ظہریا عصر کی نماز پڑھائی دو رکعتیں پڑھانے کے بعد وہ بیٹھے نہیں بلکہ کھڑے ہوگئے مقتدیوں نے سبحان اللہ کہا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور ہاتھ کے اشارے سے ہمیں بھی کھڑے ہونے کے لئے فرمایا اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے سلام پھیر کر سہو کے دو سجدے کئے اور فرمایا اگر تمہیں مکمل کھڑا ہونے سے پہلے یاد آجائے تو بیٹھ جایا کرو اور اگر مکمل کھڑے ہوجاؤ تو پھر نہ بیٹھا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه، وهذا إسناد ضعيف، جابر الجعفي ضعيف
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص دو رکعتوں پر بیٹھنے کی بجائے کھڑا ہوجائے تو اگر وہ سیدھا کھڑا نہیں ہوا تو بیٹھ جائے اور اگر مکمل کھڑا ہوچکا ہو تو پھر نہ بیٹھے اور بعد میں سجدہ سہو کرلے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه، وهذا إسناد ضعيف، جابر الجعفي ضعيف
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور اپنی امت میں قیامت تک پیش آنے والے واقعات کی خبردے دی جس نے اس خطبے کو یاد رکھا سو یاد رکھا اور جس نے بھلادیا سو بھلا دیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عمر بن إبراهيم
حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا معان بن رفاعة ، حدثني علي بن يزيد ، عن القاسم ابي عبد الرحمن ، عن ابي امامة الباهلي ، عن المغيرة بن شعبة ، قال: دعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بماء، فاتيت خباء، فإذا فيه امراة اعرابية، قال: فقلت: إن هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو يريد ماء يتوضا، فهل عندك من ماء؟ قالت: بابي وامي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فوالله ما تظل السماء، ولا تقل الارض روحا احب إلي من روحه، ولا اعز، ولكن هذه القربة مسك ميتة، ولا احب انجس به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فرجعت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرته، فقال:" ارجع إليها، فإن كانت دبغته فهي طهورها" . قال: فرجعت إليها، فذكرت ذلك لها، فقالت: اي والله، لقد دبغتها. فاتيته بماء منها، وعليه يومئذ جبة شامية، وعليه خفان وخمار، قال: فادخل يديه من تحت الجبة. قال: من ضيق كميها. قال: فتوضا، فمسح على الخمار والخفين.حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ ، عَنِ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَ: دَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَاءٍ، فَأَتَيْتُ خِبَاءً، فَإِذَا فِيهِ امْرَأَةٌ أَعْرَابِيَّةٌ، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّ هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يُرِيدُ مَاءً يَتَوَضَّأُ، فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ مَاءٍ؟ قَالَتْ: بِأَبِي وَأُمِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَاللَّهِ مَا تُظِلُّ السَّمَاءُ، وَلَا تُقِلُّ الْأَرْضُ رُوحًا أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ رُوحِهِ، وَلَا أَعَزَّ، وَلَكِنَّ هَذِهِ الْقِرْبَةَ مَسْكُ مَيْتَةٍ، وَلَا أُحِبُّ أُنَجِّسُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ:" ارْجِعْ إِلَيْهَا، فَإِنْ كَانَتْ دَبَغَتْهُ فَهِيَ طَهُورُهَا" . قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَيْهَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهَا، فَقَالَتْ: أَيْ وَاللَّهِ، لَقَدْ دَبَغْتُهَا. فَأَتَيْتُهُ بِمَاءٍ مِنْهَا، وَعَلَيْهِ يَوْمَئِذٍ جُبَّةٌ شَامِيَّةٌ، وَعَلَيْهِ خُفَّانِ وَخِمَارٌ، قَالَ: فَأَدْخَلَ يَدَيْهِ مِنْ تَحْتِ الْجُبَّةِ. قَالَ: مِنْ ضِيقِ كُمَّيْهَا. قَالَ: فَتَوَضَّأَ، فَمَسَحَ عَلَى الْخِمَارِ وَالْخُفَّيْنِ.
حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پانی منگوایا میں ایک خیمے میں پہنچا وہاں ایک دیہاتی عورت تھی میں نے اس سے کہا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں اور وضو کے لئے پانی منگوا رہے ہیں تو کیا تمہارے پاس پانی ہے؟ وہ کہنے لگی میرے ماں باپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں، واللہ آسمان کے سائے تلے اور روئے زمین پر میرے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب اور معزز کوئی شخص نہیں یہ مشکیزہ مردار کی کھال کا ہے میں نہیں چاہتی کہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپاک کروں۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آیا اور یہ ساری بات بتادی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واپس جاؤ اگر اس نے کھال کو دباغت دے دی تھی تودباغت ہی اس کی پاکیزگی ہے چناچہ میں اس عورت کے پاس دوبارہ گیا اور اس یہ مسئلہ ذکر کردیا۔ اس نے کہا بخدا! میں اسے دباغت تو دی تھی چناچہ میں اس میں سے پانی لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شامی جبہ زیب تن فرما رکھا تھا موزے اور عمامہ بھی پہن رکھا تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبے کے نیچے سے ہاتھ نکالے کیونکہ اس کی آستینیں تنگ تھیں پھر وضو کیا اور عمامے اور موزوں پر مسح فرمایا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، معان بن رفاعة لين الحديث ، وعلي بن زيد ضعيف
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے لئے چلے گئے تھوڑی دیر گذرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے اور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پانی لے کر حاضر ہوا اور پانی ڈالتا رہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دونوں ہاتھ خوب اچھی طرح دھوئے پھر چہرہ دھویا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بازؤوں سے آستینیں اوپر چڑھانے لگے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شامی جبہ زیب تن فرما رکھا تھا ' اس کی آستینیں تنگ تھیں اس لئے وہ اوپر نہ ہوسکیں چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ نیچے سے نکال لئے اور انہیں دھو کر موزوں پر مسح کیا۔