قال عامر فحدثت به معاوية، فقال: ليس هكذا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولكنه قال:" هم مني وإلي"، فقال: ليس هكذا، حدثني ابي، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولكنه قال:" هم مني، وانا منهم"، قال: فانت إذا اعلم بحديث ابيك، قال عبد الله: هذا من اجود الحديث ما رواه إلا جرير.قَالَ عَامِرٌ فَحَدَّثْتُ بِهِ مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ: لَيْسَ هَكَذَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنَّهُ قَالَ:" هُمْ مِنِّي وَإِلَيَّ"، فَقَالَ: لَيْسَ هَكَذَا، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنَّهُ قَالَ:" هُمْ مِنِّي، وَأَنَا مِنْهُمْ"، قَالَ: فَأَنْتَ إِذًا أَعْلَمُ بِحَدِيثِ أَبِيكَ، قَالَ عَبْد اللَّهِ: هَذَا مِنْ أَجْوَدِ الْحَدِيثِ مَا رَوَاهُ إِلَّا جَرِيرٌ.
سیدنا ابوعامر رضی اللّٰہ عنہ کے صاحبزادے عامر کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث سیدنا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کو سنائی تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے «هُمࣿ منّيِ» کے بعد «وَاَنَا مِنهُمࣿ» نہیں فرمایا: تھا بلکہ «وَإِلَيَّ» فرمایا تھا، عامر نے کہا: میرے والد نے اس طرح بیان نہیں کیا بلکہ یہی فرمایا: «وَ اَنَا مِنࣿهُمࣿ» تو سیدنا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ اپنے والد کی حدیث تم زیادہ بہتر جانتے ہو گے۔
حدثنا ابو اليمان ، اخبرنا شعيب ، قال: حدثنا عبد الله بن ابي حسين ، حدثنا شهر بن حوشب ، عن عامر ، او ابي عامر ، او ابي مالك ، ان النبي صلى الله عليه وسلم بينما هو جالس في مجلس فيه اصحابه جاءه جبريل عليه السلام في غير صورته يحسبه رجلا من المسلمين، فسلم عليه، فرد عليه السلام، ثم وضع جبريل يده على ركبتي النبي صلى الله عليه وسلم، وقال له: يا رسول الله، ما الإسلام؟ فقال: " ان تسلم وجهك لله، وان تشهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا عبده ورسوله، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة"، قال: فإذا فعلت ذلك فقد اسلمت؟ قال:" نعم" . ثم قال: ما الإيمان؟ قال: " ان تؤمن بالله، واليوم الآخر، والملائكة، والكتاب، والنبيين، والموت، والحياة بعد الموت، والجنة، والنار، والحساب، والميزان، والقدر كله خيره وشره"، قال: فإذا فعلت ذلك فقد آمنت؟ قال:" نعم" . ثم قال: ما الإحسان يا رسول الله؟ قال: " ان تعبد الله كانك تراه، فإنك إن كنت لا تراه فهو يراك"، قال: فإذا فعلت ذلك فقد احسنت؟ قال:" نعم" ونسمع رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم إليه، ولا يرى الذي يكلمه ولا يسمع كلامه. قال: فمتى الساعة يا رسول الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " سبحان الله، خمس من الغيب لا يعلمها إلا الله عز وجل إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الارحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس باي ارض تموت إن الله عليم خبير سورة لقمان آية 34"، فقال السائل: يا رسول الله، إن شئت حدثتك بعلامتين تكونان قبلها؟ فقال: حدثني، فقال:" إذا رايت الامة تلد ربها ويطول اهل البنيان بالبنيان، وعاد العالة الحفاة رؤوس الناس"، قال: ومن اولئك يا رسول الله؟ قال:" العريب"، قال: ثم ولى، فلما لم نر طريقه بعد، قال:" سبحان الله ثلاثا هذا جبريل جاء ليعلم الناس دينهم، والذي نفس محمد بيده، ما جاءني قط إلا وانا اعرفه، إلا ان يكون هذه المرة" .حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي حُسَيْنٍ ، حَدَّثَنَا شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، أَوْ أَبِي عَامِرٍ ، أَوْ أَبِي مَالِكٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَمَا هُوَ جَالِسٌ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ أَصْحَابُهُ جَاءَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فِي غَيْرِ صُورَتِهِ يَحْسِبُهُ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ، ثُمَّ وَضَعَ جِبْرِيلُ يَدَهُ عَلَى رُكْبَتَيْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْإِسْلَامُ؟ فَقَالَ: " أَنْ تُسْلِمَ وَجْهَكَ لِلَّهِ، وَأَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ"، قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ فَقَدْ أَسْلَمْتُ؟ قَالَ:" نَعَمْ" . ثُمَّ قَالَ: مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: " أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالْكِتَابِ، وَالنَّبِيِّينَ، وَالْمَوْتِ، وَالْحَيَاةِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْجَنَّةِ، وَالنَّارِ، وَالْحِسَابِ، وَالْمِيزَانِ، وَالْقَدَرِ كُلِّهِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ"، قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ فَقَدْ آمَنْتُ؟ قَالَ:" نَعَمْ" . ثُمَّ قَالَ: مَا الْإِحْسَانُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ كُنْتَ لَا تَرَاهُ فَهُوَ يَرَاكَ"، قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ فَقَدْ أَحْسَنْتُ؟ قَالَ:" نَعَمْ" وَنَسْمَعُ رَجْعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ، وَلَا يُرَى الَّذِي يُكَلِّمُهُ وَلَا يُسْمَعُ كَلَامُهُ. قَالَ: فَمَتَى السَّاعَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سُبْحَانَ اللَّهِ، خَمْسٌ مِنَ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ سورة لقمان آية 34"، فَقَالَ السَّائِلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ شِئْتَ حَدَّثْتُكَ بِعَلَامَتَيْنِ تَكُونَانِ قَبْلَهَا؟ فَقَالَ: حَدِّثْنِي، فَقَالَ:" إِذَا رَأَيْتَ الْأَمَةَ تَلِدُ رَبَّهَا وَيَطُولُ أَهْلُ الْبُنْيَانِ بِالْبُنْيَانِ، وَعَادَ الْعَالَةُ الْحُفَاةُ رُؤوسَ النَّاسِ"، قَالَ: وَمَنْ أُولَئِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" الْعَرِيبُ"، قَالَ: ثُمَّ وَلَّى، فَلَمَّا لَمْ نَرَ طَرِيقَهُ بَعْدُ، قَالَ:" سُبْحَانَ اللَّهِ ثَلَاثًا هَذَا جِبْرِيلُ جَاءَ لِيُعَلِّمَ النَّاسَ دِينَهُمْ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، مَا جَاءَنِي قَطُّ إِلَّا وَأَنَا أَعْرِفُهُ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ هَذِهِ الْمَرَّةُ" .
سیدنا ابوعامر رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کی ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کہ ساتھ کسی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ جبریل علیہ السلام اپنی شکل و صورت بدل کر آ گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہی سمجھے کے یہ کوئی مسلمان آدمی ہے، انہوں نے سلام کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا، پھر انہوں نے اپنے ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں پر رکھ دئیے اور پوچھا: یا رسول اللّٰہ! اسلام سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے آپ کو اللّٰہ کے سامنے جھکا دو، لا الہ الا اللّٰہ کی گواہی دو اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بندے اور رسول ہیں، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو“، انہوں نے پوچھا: جب میں یہ کام کر لوں گا تو مسلمان کہلاؤں گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! پھر انہوں نے پوچھا کہ ایمان سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللّٰہ پر، یوم آخرت، ملائکہ، کتابوں، نبیوں، موت اور حیات اور بعد الموت، جنت و جہنم، حساب و میزان اور ہر اچھی بری تقدیر اللّٰہ کی طرف سے ہونے کا یقین رکھو، انہوں نے پوچھا کہ جب میں یہ کام کر لوں گا تو مؤمن بن جاؤں گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! پھر انہوں نے پوچھا: یا رسول اللّٰہ! احسان سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللّٰہ کی عبادت اس طرح کرنا کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر یہ تصور نہیں کر سکتے تو پھر یہی تصور کر لو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔“ انہوں نے پوچھا کہ اگر میں ایسا کر لوں تو کیا میں نے احسان کا درجہ حاصل کر لیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ راوی کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جوابات تو سن رہے تھے لیکن وہ شخص نظر نہیں آ رہا تھا جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے تھے اور نہ ہی اس کی بات سنائی دے رہی تھی۔ پھر سائل نے پوچھا: یا رسول اللّٰہ! قیامت کب آئے گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللّٰہ! غیب کی پانچ چیزیں ایسی ہیں جنہیں اللّٰہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، (پھر یہ آیت تلاوت فرمائی) بیشک قیامت کا علم اللّٰہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے“، وہی جانتا ہے کہ رحم مادر میں کیا ہے؟ کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائے گا؟ اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کس سرزمیں میں مرے گا، بےشک اللّٰہ بڑا جاننے والا باخبر ہے۔“ پہر سائل نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو دو علامتیں بتا سکتا ہوں جو قیامت سے پہلے رونما ہوں گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بتاؤ“، اس نے کہا: جب آپ دیکھیں کہ باندی اپنی مالکن کو جنم دے رہی ہے اور عمارتوں والے عمارتوں میں ایک دوسرے پر فخر کر رہے ہیں اور ننگے افراد لوگوں کے سردار بن گئے ہیں (تو قیامت قریب آ جائے گی) راوی نے پوچھا: یا رسول اللّٰہ! یہ کون لوگ ہوں گے؟ فرمایا: ”دیہاتی لوگ۔“ پہر وہ سائل چلا گیا اور ہمیں بعد میں اس کا راستہ نظر نہیں آیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ سبحان اللّٰہ کہہ کر فرمایا: ”یہ جبریل تھے جو لوگوں کو ان کے دین کی تعلیم دینے کے لیے آئے تھے، اس ذات کی قسم جس کی دست قدرت میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، جبریل میرے پاس (اس مرتبہ کے علاوہ) جب بھی آئے۔ میں نے انہیں پہچان لیا (لیکن اس مرتبہ نہیں پہچان سکا)۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف على نكارة فى بعض الفاظه، وقد اختلف فيه على شهر
وذكر ملصقا به، قال: جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم مجلسا، فاتاه جبريل عليه السلام، فجلس بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر الحديث، وقال فيه:" إن شئت حدثتك بمعالم لها دون ذلك؟" قال: اجل يا رسول الله، فحدثني. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا رايت الامة ولدت ربتها" ، فذكر الحديث.وَذَكَرَ مُلْصِقًا بِهِ، قَالَ: جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَجْلِسًا، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، فَجَلَسَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ فِيهِ:" إِنْ شِئْتَ حَدَّثْتُكَ بِمَعَالِمَ لَهَا دُونَ ذَلِكَ؟" قَالَ: أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَحَدِّثْنِي. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا رَأَيْتَ الْأَمَةَ وَلَدَتْ رَبَّتَهَا" ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
حدثنا عفان ، حدثنا ابو خلف موسى بن خلف كان يعد في البدلاء، حدثنا يحيى بن ابي كثير ، عن زيد بن سلام ، عن جده ممطور، عن الحارث الاشعري ، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الله عز وجل، امر يحيى بن زكريا عليهما السلام بخمس كلمات، ان يعمل بهن، وان يامر بني إسرائيل ان يعملوا بهن، وكاد ان يبطئ، فقال له عيسى:" إنك قد امرت بخمس كلمات ان تعمل بهن، وتامر بني إسرائيل ان يعملوا بهن، فإما ان تبلغهن، وإما ان ابلغهن"، فقال: يا اخي، إني اخشى إن سبقتني ان اعذب او يخسف بي، قال: فجمع يحيى بني إسرائيل في بيت المقدس، حتى امتلا المسجد، فقعد على الشرف، فحمد الله، واثنى عليه، ثم قال: " إن الله عز وجل امرني بخمس كلمات ان اعمل بهن، وآمركم ان تعملوا بهن، اولهن: ان تعبدوا الله لا تشركوا به شيئا، فإن مثل ذلك مثل رجل اشترى عبدا من خالص ماله بورق او ذهب، فجعل يعمل، ويؤدي غلته إلى غير سيده، فايكم سره ان يكون عبده كذلك، وإن الله عز وجل خلقكم ورزقكم، فاعبدوه، ولا تشركوا به شيئا، وآمركم بالصلاة، فإن الله عز وجل ينصب وجهه لوجه عبده ما لم يلتفت، فإذا صليتم فلا تلتفتوا، وآمركم بالصيام، فإن مثل ذلك كمثل رجل معه صرة من مسك في عصابة كلهم يجد ريح المسك، وإن خلوف فم الصائم عند الله اطيب من ريح المسك، وآمركم بالصدقة، فإن مثل ذلك كمثل رجل اسره العدو، فشدوا يديه إلى عنقه، وقدموه ليضربوا عنقه، فقال: هل لكم ان افتدي نفسي منكم؟ فجعل يفتدي نفسه منهم بالقليل والكثير حتى فك نفسه، وآمركم بذكر الله عز وجل كثيرا، وإن مثل ذلك كمثل رجل طلبه العدو سراعا في اثره، فاتى حصنا حصينا، فتحصن فيه، وإن العبد احصن ما يكون من الشيطان إذا كان في ذكر الله عز وجل" . قال: قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وانا آمركم بخمس الله امرني بهن: بالجماعة، والسمع، والطاعة، والهجرة، والجهاد في سبيل الله، فإنه من خرج من الجماعة قيد شبر فقد خلع ربقة الإسلام من عنقه إلا ان يرجع، ومن دعا بدعوى الجاهلية، فهو من جثا جهنم"، قالوا: يا رسول الله، وإن صام، وإن صلى؟ قال:" وإن صام، وإن صلى، وزعم انه مسلم، فادعوا المسلمين باسمائهم بما سماهم الله عز وجل المسلمين المؤمنين عباد الله عز وجل" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَلَفٍ مُوسَى بْنُ خَلَفٍ كَانَ يُعَدُّ فِي الْبُدَلَاءِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ سَلَّامٍ ، عَنْ جَدِّهِ مَمْطُورٍ، عَنِ الْحَارِثِ الْأَشْعَرِيِّ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، أَمَرَ يَحْيَى بْنَ زَكَرِيَّا عَلَيْهِمَا السَّلَام بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ، أَنْ يَعْمَلَ بِهِنَّ، وَأَنْ يَأْمُرَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يَعْمَلُوا بِهِنَّ، وَكَادَ أَنْ يُبْطِئَ، فَقَالَ لَهُ عِيسَى:" إِنَّكَ قَدْ أُمِرْتَ بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ أَنْ تَعْمَلَ بِهِنَّ، وَتَأْمُرَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يَعْمَلُوا بِهِنَّ، فَإِمَّا أَنْ تُبَلِّغَهُنَّ، وَإِمَّا أَنْ أُبَلِّغَهُنَّ"، فَقَالَ: يَا أَخِي، إِنِّي أَخْشَى إِنْ سَبَقْتَنِي أَنْ أُعَذَّبَ أَوْ يُخْسَفَ بِي، قَالَ: فَجَمَعَ يَحْيَى بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ، حَتَّى امْتَلَأَ الْمَسْجِدُ، فَقُعِدَ عَلَى الشُّرَفِ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَمَرَنِي بِخَمْسِ كَلِمَاتٍ أَنْ أَعْمَلَ بِهِنَّ، وَآمُرَكُمْ أَنْ تَعْمَلُوا بِهِنَّ، أَوَّلُهُنَّ: أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ لَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِكَ مَثَلُ رَجُلٍ اشْتَرَى عَبْدًا مِنْ خَالِصِ مَالِهِ بِوَرِقٍ أَوْ ذَهَبٍ، فَجَعَلَ يَعْمَلُ، وَيُؤَدِّي غَلَّتَهُ إِلَى غَيْرِ سَيِّدِهِ، فَأَيُّكُمْ سَرَّهُ أَنْ يَكُونَ عَبْدُهُ كَذَلِكَ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَكُمْ وَرَزَقَكُمْ، فَاعْبُدُوهُ، وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَآمُرُكُمْ بِالصَّلَاةِ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْصِبُ وَجْهَهُ لِوَجْهِ عَبْدِهِ مَا لَمْ يَلْتَفِتْ، فَإِذَا صَلَّيْتُمْ فَلَا تَلْتَفِتُوا، وَآمُرُكُمْ بِالصِّيَامِ، فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِكَ كَمَثَلِ رَجُلٍ مَعَهُ صُرَّةٌ مِنْ مِسْكٍ فِي عِصَابَةٍ كُلُّهُمْ يَجِدُ رِيحَ الْمِسْكِ، وَإِنَّ خُلُوفَ فَمِ الصَّائِمِ عِنْدَ اللَّهِ أَطْيَبُ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ، وَآمُرُكُمْ بِالصَّدَقَةِ، فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِكَ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَسَرَهُ الْعَدُوُّ، فَشَدُّوا يَدَيْهِ إِلَى عُنُقِهِ، وَقَدَّمُوهُ لِيَضْرِبُوا عُنُقَهُ، فَقَالَ: هَلْ لَكُمْ أَنْ أَفْتَدِيَ نَفْسِي مِنْكُمْ؟ فَجَعَلَ يَفْتَدِي نَفْسَهُ مِنْهُمْ بِالْقَلِيلِ وَالْكَثِيرِ حَتَّى فَكَّ نَفْسَهُ، وَآمُرُكُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ كَثِيرًا، وَإِنَّ مَثَلَ ذَلِكَ كَمَثَلِ رَجُلٍ طَلَبَهُ الْعَدُوُّ سِرَاعًا فِي أَثَرِهِ، فَأَتَى حِصْنًا حَصِينًا، فَتَحَصَّنَ فِيهِ، وَإِنَّ الْعَبْدَ أَحْصَنُ مَا يَكُونُ مِنَ الشَّيْطَانِ إِذَا كَانَ فِي ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" . قَالَ: قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَأَنَا آمُرُكُمْ بِخَمْسٍ اللَّهُ أَمَرَنِي بِهِنَّ: بِالْجَمَاعَةِ، وَالسَّمْعِ، وَالطَّاعَةِ، وَالْهِجْرَةِ، وَالْجِهَادِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَإِنَّهُ مَنْ خَرَجَ مِنَ الْجَمَاعَةِ قِيدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ إِلَّا أَنْ يَرْجِعَ، وَمَنْ دَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ، فَهُوَ مِنْ جُثَا جَهَنَّمَ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَإِنْ صَامَ، وَإِنْ صَلَّى؟ قَالَ:" وَإِنْ صَامَ، وَإِنْ صَلَّى، وَزَعَمَ أَنَّهُ مُسْلِمٌ، فَادْعُوا الْمُسْلِمِينَ بِأَسْمَائِهِمْ بِمَا سَمَّاهُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُسْلِمِينَ الْمُؤْمِنِينَ عِبَادَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
سیدنا حارث اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللّٰہ تعالیٰ نے یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کو پانچ باتوں کے متعلق حکم دیا کہ ان پر خود بھی عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کا حکم دیں، قریب تھا کہ یحییٰ علیہ السلام سے اس معاملے میں تاخیر ہو جاتی کہ عیسٰی علیہ السلام کہنے لگے آپ کو پانچ باتوں کے متعلق حکم ہوا ہے کہ خود بھی ان پر عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دیں، اب یا تو یہ پیغام آپ خود پہنچا دیں، ورنہ میں پہنچائے دیتا ہوں، یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا: بھائی! مجھے اندیشہ ہے کہ اگر آپ مجھ پر سبقت لے گئے تو میں عذاب میں مبتلا ہو جاؤں گا یا زمین میں دھنسا دیا جاؤں گا۔ چنانچہ اس کے بعد یحییٰ علیہ السلام نے بیت المقدس میں بنی اسرائیل کو جمع کیا، جب مسجد بھر گئی تو وہ ایک ٹیلے پر بیٹھ گئے، اللّٰہ کی حمد و ثناء کی اور فرمایا: اللّٰہ نے مجھے پانچ باتوں کے متعلق حکم دیا ہے کہ خود بھی ان پر عمل کروں اور تمہیں بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دوں، ان میں سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ تم صرف اللّٰہ کی عبادت کرو اور اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھراؤ، اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے اپنے خالص مال یعنی سونے چاندی سے ایک غلام خریدا، وہ غلام اپنے آقا کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے مزدوری کرنا اور اسے اپنی تنخواہ دینا شروع کر دے تو تم میں سے کون چاہے گا کہ اس کا غلام ایسا ہو؟ چونکہ اللّٰہ نے تمہیں پیدا کیا اور رزق دیا ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھراؤ۔ نیز میں تمہیں نماز کا حکم دیتا ہوں کیونکہ اللّٰہ اپنی تمام تر توجیہات اپنے بندے پر مرکوز فرما دیتا ہے بشرطیکہ وہ ادھر ادھر نہ دیکھے، اس لیے جب تم نماز پڑھا کرو تو دائیں بائیں نہ دیکھا کرو، نیز میں تمہیں روزوں کا حکم دیتا ہوں کیونکہ اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو بھری محفل میں مشک کی ایک شیشی لے کر آئے اور سب کو اس کی مہک کا احساس ہو، اور اللّٰہ کے نزدیک روزہ دار کے منہ کی بھبک مشک کی مہک سے بھی زیادہ عمدہ ہوتی ہے۔ نیز میں تمہیں صدقہ کرنے کا حکم دیتا ہوں کیونکہ اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جسے دشمن نے قید کر کے اس کے ہاتھ گردن سے باندہ دئیے ہوں اور پھر اسے قتل کرنے کے لیے لے چلیں اور وہ ان سے کہے کہ کیا تم میری جان کا فدیہ وصول کرنے کے لیے تیار ہو؟ پھر وہ تھوڑے اور زیادہ کے ذریعے جس طرح بھی بن پڑے، اپنی جان کا فدیہ پیش کرنے لگے یہاں تک کہ اپنے آپ کو چھڑا لے، اور میں تمہیں کثرت کے ساتھ اللّٰہ کا ذکر کرنے کا حکم دیتا ہوں، کیونکہ اس کی مثال اس شخص کی سی ہے، دشمن جس کا بہت تیزی سے پیچھا کر رہا ہو، اور وہ ایک مضبوط قلعہ میں گھس کر پناہ گزین ہو جائے، اسی طرح بندہ بھی جب تک اللہ کے ذکر میں مصروف رہتا ہے، شیطان کے حملوں سے محفوظ ایک قلعے میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بہی تمہیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں جنہیں اختیار کرنے کا اللّٰہ نے مجہے حکم دیا ہے، اجتماعیت کا، حکمران کی بات سننے کا، بات ماننے کا، ہجرت کا اور جہاد فی سبیل اللّٰہ کا، کیونکہ جو شخص بھی ایک بالشت کے برابر جماعت مسلمین سے خروج کرتا ہے، وہ اپنی گردن سے اسلام کا قلادہ پھینکتا ہے، الا یہ کہ واپس جماعت کی طرف لوٹ آئے، اور جو شخص زمانہ جاہلیت کے نعرے لگاتا ہے، وہ جہنم کا ایندھن ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللّٰہ! اگرچہ وہ نماز روزہ کرتا ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگرچہ نماز روزہ کرتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو، سو تم مسلمانوں کو ان کے ناموں سے پکارو جن ناموں سے اللّٰہ نے اپنے مسلمان بندوں کو پکارا ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح، أبو خلف موسي بن خلف - وإن اختلف فيه - متابع
سیدنا مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص اپنے کسی بھائی سے محبت کرتا ہو تو اسے چاہیے کہ اسے بتا دے۔“
سیدنا مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”مہمان کی رات ہر مسلمان پر (اس کی خبر گیری کرنا) واجب ہے، اگر وہ اپنے میزبان کے صحن میں صبح تک محروم رہا تو وہ اس کا مقروض ہو گیا، چاہے تو ادا کر دے اور چاہے تو چھوڑ دے۔“
حدثنا زياد بن عبد الله البكائي ، قال: حدثنا منصور ، عن عامر ، عن ابي كريمة رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ليلة الضيف واجبة على كل مسلم، فإن اصبح بفنائه محروما، كان دينا له عليه، إن شاء اقتضاه، وإن شاء تركه" .حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَكَّائِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ أَبِي كَرِيمَةَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْلَةُ الضَّيْفِ وَاجِبَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، فَإِنْ أَصْبَحَ بِفِنَائِهِ مَحْرُومًا، كَانَ دَيْنًا لَهُ عَلَيْهِ، إِنْ شَاءَ اقْتَضَاهُ، وَإِنْ شَاءَ تَرَكَهُ" .
سیدنا مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”مہمان کی رات ہر مسلمان پر (اس کی خبرگیری کرنا) واجب ہے، اگر وہ اپنے میزبان کے صحن میں صبح تک محروم رہا تو وہ اس کا مقروض ہو گیا، چاہے تو ادا کر دے اور چاہے تو چھوڑ دے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، زياد بن عبدالله مختلف فيه، لكنه متابع
حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا حريز ، عن عبد الرحمن بن ابي عوف الجرشي ، عن المقدام بن معدي كرب الكندي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الا إني اوتيت الكتاب ومثله معه، الا إني اوتيت القرآن ومثله معه، لا يوشك رجل ينثني شبعانا على اريكته يقول: عليكم بالقرآن، فما وجدتم فيه من حلال فاحلوه، وما وجدتم فيه من حرام فحرموه، الا لا يحل لكم لحم الحمار الاهلي، ولا كل ذي ناب من السباع، الا ولا لقطة من مال معاهد إلا ان يستغني عنها صاحبها، ومن نزل بقوم، فعليهم ان يقروهم، فإن لم يقروهم، فلهم ان يعقبوهم بمثل قراهم" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَرِيزٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَوْفٍ الْجُرَشِيِّ ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ، لَا يُوشِكُ رَجُلٌ يَنْثَنِي شَبْعَانًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَقُولُ: عَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ، فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلَالٍ فَأَحِلُّوهُ، وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ، أَلَا لَا يَحِلُّ لَكُمْ لَحْمُ الْحِمَارِ الْأَهْلِيِّ، وَلَا كُلُّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، أَلَا وَلَا لُقَطَةٌ مِنْ مَالِ مُعَاهَدٍ إِلَّا أَنْ يَسْتَغْنِيَ عَنْهَا صَاحِبُهَا، وَمَنْ نَزَلَ بِقَوْمٍ، فَعَلَيْهِمْ أَنْ يَقْرُوهُمْ، فَإِنْ لَمْ يَقْرُوهُمْ، فَلَهُمْ أَنْ يُعْقِبُوهُمْ بِمِثْلِ قِرَاهُمْ" .
سیدنا مقدام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”یاد رکھو! مجھے قرآن کریم اور اس کے ساتھ کچھ اور بھی دیا گیا ہے، یاد رکھو! مجھے قرآن کریم اور اس کے ساتھ کچھ اور بھی دیا گیا ہے، یاد رکھو! عنقریب ایک آدمی آئے گا جو تخت پر بیٹھ کر یہ کہے گا کہ قرآن کو اپنے اوپر لازم کر لو، صرف اس میں جو چیز تمہیں حلال ملے، اسے حلال سمجھو اور جو حرام ملے، اسے حرام سمجھو، یاد رکھو! تمہارے لیے پالتو گدھوں کا گوشت اور کوئی کچلی والا درندہ حلال نہیں ہے، کسی ذمی کے مال کی گری پڑی چیز بھی حلال نہیں ہے۔ الا یہ کہ اس کے مالک کو اس کی ضرورت نہ ہو، اور جو شخص کسی قوم کے یہاں مہمان بنے، انہیں اس کی مہمان نوازی کرنی چاہیے، اگر وہ اس کی مہمان نوازی نہ کریں تو انہیں اجازت ہے کہ وہ اسی طرح ان کی بھی مہمان نوازی کریں۔“
سیدنا مقدام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص کوئی بوجھ چھوڑ کر فوت ہو جائے، وہ اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ داری میں ہے، اور جو شخص مال و دولت چھوڑ کر مر جائے وہ اس کے ورثاء کا ہو گا، اور ماموں اس شخص کا وارث ہوتا ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو، اور میں اس شخص کا وارث ہوں جس کا کوئی وارث نہیں، میں اس کا وارث ہوں اور اس کی طرف سے دیت ادا کروں گا۔“