مسند احمد
مسنَد الشَّامِیِّینَ
0
470. حَدِیث اَبِی عَامِر الاَشعَرِیِّ رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنه
0
حدیث نمبر: 17167
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي حُسَيْنٍ ، حَدَّثَنَا شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، أَوْ أَبِي عَامِرٍ ، أَوْ أَبِي مَالِكٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَمَا هُوَ جَالِسٌ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ أَصْحَابُهُ جَاءَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فِي غَيْرِ صُورَتِهِ يَحْسِبُهُ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ، ثُمَّ وَضَعَ جِبْرِيلُ يَدَهُ عَلَى رُكْبَتَيْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْإِسْلَامُ؟ فَقَالَ: " أَنْ تُسْلِمَ وَجْهَكَ لِلَّهِ، وَأَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ"، قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ فَقَدْ أَسْلَمْتُ؟ قَالَ:" نَعَمْ" . ثُمَّ قَالَ: مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: " أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالْكِتَابِ، وَالنَّبِيِّينَ، وَالْمَوْتِ، وَالْحَيَاةِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْجَنَّةِ، وَالنَّارِ، وَالْحِسَابِ، وَالْمِيزَانِ، وَالْقَدَرِ كُلِّهِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ"، قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ فَقَدْ آمَنْتُ؟ قَالَ:" نَعَمْ" . ثُمَّ قَالَ: مَا الْإِحْسَانُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ كُنْتَ لَا تَرَاهُ فَهُوَ يَرَاكَ"، قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ فَقَدْ أَحْسَنْتُ؟ قَالَ:" نَعَمْ" وَنَسْمَعُ رَجْعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ، وَلَا يُرَى الَّذِي يُكَلِّمُهُ وَلَا يُسْمَعُ كَلَامُهُ. قَالَ: فَمَتَى السَّاعَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سُبْحَانَ اللَّهِ، خَمْسٌ مِنَ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ سورة لقمان آية 34"، فَقَالَ السَّائِلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ شِئْتَ حَدَّثْتُكَ بِعَلَامَتَيْنِ تَكُونَانِ قَبْلَهَا؟ فَقَالَ: حَدِّثْنِي، فَقَالَ:" إِذَا رَأَيْتَ الْأَمَةَ تَلِدُ رَبَّهَا وَيَطُولُ أَهْلُ الْبُنْيَانِ بِالْبُنْيَانِ، وَعَادَ الْعَالَةُ الْحُفَاةُ رُؤوسَ النَّاسِ"، قَالَ: وَمَنْ أُولَئِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" الْعَرِيبُ"، قَالَ: ثُمَّ وَلَّى، فَلَمَّا لَمْ نَرَ طَرِيقَهُ بَعْدُ، قَالَ:" سُبْحَانَ اللَّهِ ثَلَاثًا هَذَا جِبْرِيلُ جَاءَ لِيُعَلِّمَ النَّاسَ دِينَهُمْ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، مَا جَاءَنِي قَطُّ إِلَّا وَأَنَا أَعْرِفُهُ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ هَذِهِ الْمَرَّةُ" .
سیدنا ابوعامر رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کی ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کہ ساتھ کسی مجلس میں تشریف فرما تھے کہ جبریل علیہ السلام اپنی شکل و صورت بدل کر آ گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہی سمجھے کے یہ کوئی مسلمان آدمی ہے، انہوں نے سلام کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا، پھر انہوں نے اپنے ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں پر رکھ دئیے اور پوچھا: یا رسول اللّٰہ! اسلام سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے آپ کو اللّٰہ کے سامنے جھکا دو، لا الہ الا اللّٰہ کی گواہی دو اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بندے اور رسول ہیں، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو“، انہوں نے پوچھا: جب میں یہ کام کر لوں گا تو مسلمان کہلاؤں گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! پھر انہوں نے پوچھا کہ ایمان سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللّٰہ پر، یوم آخرت، ملائکہ، کتابوں، نبیوں، موت اور حیات اور بعد الموت، جنت و جہنم، حساب و میزان اور ہر اچھی بری تقدیر اللّٰہ کی طرف سے ہونے کا یقین رکھو، انہوں نے پوچھا کہ جب میں یہ کام کر لوں گا تو مؤمن بن جاؤں گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! پھر انہوں نے پوچھا: یا رسول اللّٰہ! احسان سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللّٰہ کی عبادت اس طرح کرنا کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر یہ تصور نہیں کر سکتے تو پھر یہی تصور کر لو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔“ انہوں نے پوچھا کہ اگر میں ایسا کر لوں تو کیا میں نے احسان کا درجہ حاصل کر لیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ راوی کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جوابات تو سن رہے تھے لیکن وہ شخص نظر نہیں آ رہا تھا جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے تھے اور نہ ہی اس کی بات سنائی دے رہی تھی۔ پھر سائل نے پوچھا: یا رسول اللّٰہ! قیامت کب آئے گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللّٰہ! غیب کی پانچ چیزیں ایسی ہیں جنہیں اللّٰہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، (پھر یہ آیت تلاوت فرمائی) بیشک قیامت کا علم اللّٰہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے“، وہی جانتا ہے کہ رحم مادر میں کیا ہے؟ کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائے گا؟ اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کس سرزمیں میں مرے گا، بےشک اللّٰہ بڑا جاننے والا باخبر ہے۔“ پہر سائل نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو دو علامتیں بتا سکتا ہوں جو قیامت سے پہلے رونما ہوں گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بتاؤ“، اس نے کہا: جب آپ دیکھیں کہ باندی اپنی مالکن کو جنم دے رہی ہے اور عمارتوں والے عمارتوں میں ایک دوسرے پر فخر کر رہے ہیں اور ننگے افراد لوگوں کے سردار بن گئے ہیں (تو قیامت قریب آ جائے گی) راوی نے پوچھا: یا رسول اللّٰہ! یہ کون لوگ ہوں گے؟ فرمایا: ”دیہاتی لوگ۔“ پہر وہ سائل چلا گیا اور ہمیں بعد میں اس کا راستہ نظر نہیں آیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ سبحان اللّٰہ کہہ کر فرمایا: ”یہ جبریل تھے جو لوگوں کو ان کے دین کی تعلیم دینے کے لیے آئے تھے، اس ذات کی قسم جس کی دست قدرت میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، جبریل میرے پاس (اس مرتبہ کے علاوہ) جب بھی آئے۔ میں نے انہیں پہچان لیا (لیکن اس مرتبہ نہیں پہچان سکا)۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف على نكارة فى بعض الفاظه، وقد اختلف فيه على شهر