851 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا ايوب السختياني، قال: سمعت ابا قلابة يحدث، عن عمه، عن عمران بن حصين، قال: كانت بنو عقيل حلفاء لثقيف في الجاهلية، وكانت ثقيف قد اسرت رجلين من المسلمين، ثم إن المسلمين اسروا رجلا من عقيل معه ناقة له، وكانت له ناقة سبقت الحاج في الجاهلية كذا وكذا مرة، وكانت الناقة إذا سبقت الحاج في الجاهلية لم تمنع من كلا ترتع فيه، ولم تمنع من حوض تشرع فيه، قال: فاتي به النبي صلي الله عليه وسلم فقال: يا محمد بم اخذتني واخذت سابقة الحاج؟ فقال: بجريرة حلفائك ثقيف، وحبس حيث يمر به رسول الله صلي الله عليه وسلم، قال: فمر به رسول الله صلي الله عليه وسلم بعد ذلك، فقال: يا محمد إني مسلم، فقال النبي صلي الله عليه وسلم: «لو قلتها وانت تملك امرك، كنت قد افلحت كل الفلاح» ، قال: ثم مر به مرة اخري، فقال: يا محمد إني جائع فاطعمني، وظمآن فاسقني، قال: «تلك حاجتك» ، ثم ان رسول الله صلي الله عليه وسلم بدا له، ففادي به الرجلين اللذين اسرت ثقيف، وامسك الناقة لنفسه، ثم إنه اغار عدو علي المدينة فاخذوا سرحا لرسول الله صلي الله عليه وسلم، فاصابوا الناقة فيها، قال: وقد كانت عندهم امراة من المسلمين قد اسروها، وكانوا يروحون النعم عشيا، فجاءت المراة ذات ليلة إلي النعم، فجعلت لا تجئ إلي بعير إلا رغا حتي انتهت إليها، فلم ترغ، فاستوت عليها، فنخستها، فقدمت المدينة، فقال الناس: العضباء العضباء، قال: فقالت المراة: إني نذرت إن انجاني الله عليها ان انحرها، قال: فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «بئس ما جزيتها، لا وفاء لنذر في معصية الله، ولا فيما لا يملك ابن آدم» 851 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا أَيُّوبُ السِّخْتِيَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا قِلَابَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمِّهِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: كَانَتْ بَنُو عَقِيلٍ حُلَفَاءَ لِثَقِيفٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَتْ ثَقِيفٌ قَدْ أَسَرَتْ رَجُلَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، ثُمَّ إِنَّ الْمُسْلِمِينَ أَسَرُوا رَجُلًا مِنْ عَقِيلٍ مَعَهُ نَاقَةٌ لَهُ، وَكَانَتْ لَهُ نَاقَةٌ سَبَقَتِ الْحَاجَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ كَذَا وَكَذَا مَرَّةً، وَكَانَتِ النَّاقَةُ إِذَا سَبَقَتِ الْحَاجَّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ لَمْ تُمْنَعْ مِنْ كَلَأَ تَرْتَعُ فِيهِ، وَلَمْ تُمْنَعْ مِنْ حَوْضٍ تَشْرَعُ فِيهِ، قَالَ: فَأُتِيَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ بِمَ أَخَذْتَنِي وَأَخَذْتَ سَابِقَةَ الْحَاجِّ؟ فَقَالَ: بِجَرِيرَةِ حُلَفَائِكَ ثَقِيفٍ، وَحُبِسَ حَيْثُ يَمُرُّ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَمَرَّ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنِّي مُسْلِمٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ قُلْتَهَا وَأَنْتَ تَمْلِكُ أَمْرَكَ، كُنْتَ قَدْ أَفْلَحْتَ كُلَّ الْفَلَاحِ» ، قَالَ: ثُمَّ مَرَّ بِهِ مَرَّةً أُخْرَي، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنِّي جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِي، وَظَمْآنُ فَاسْقِنِي، قَالَ: «تِلْكَ حَاجَتُكَ» ، ثُمَّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَا لَهُ، فَفَادَي بِهِ الرَّجُلَيْنِ اللَّذَيْنِ أَسَرَتْ ثَقِيفٌ، وَأَمْسَكَ النَّاقَةَ لِنَفْسِهِ، ثُمَّ إِنَّهُ أَغَارَ عَدُوٌّ عَلَي الْمَدِينَةِ فَأَخَذُوا سَرْحًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَصَابُوا النَّاقَةَ فِيهَا، قَالَ: وَقَدْ كَانَتْ عِنْدَهُمُ امْرَأَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ قَدْ أَسَرُوهَا، وَكَانُوا يُرَوِّحُونَ النَّعَمَ عَشِيًّا، فَجَاءَتِ الْمَرْأَةُ ذَاتَ لَيْلَةٍ إِلَي النَّعَمِ، فَجَعَلَتْ لَا تَجِئُ إِلَي بَعِيرٍ إِلَّا رَغَا حَتَّي انْتَهَتْ إِلَيْهَا، فَلَمْ تَرْغُ، فَاسْتَوَتْ عَلَيْهَا، فَنَخَسَتْهَا، فَقَدِمَتِ الْمَدِينَةَ، فَقَالَ النَّاسُ: الْعَضْبَاءُ الْعَضْبَاءُ، قَالَ: فَقَالَتِ الْمَرْأَةُ: إِنِّي نَذَرْتُ إِنْ أَنْجَانِي اللَّهُ عَلَيْهَا أَنْ أَنْحَرَهَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بِئْسَ مَا جَزَيْتِهَا، لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ»
851- سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: بنو عقیل زمانہ جاہلیت میں ثقیف قبیلے کے حلیف تھے۔ ثقیف قبیلے کے لوگوں نے دو مسلمانوں کو قیدی بنالیا پھر اس کے بعد مسلمانوں نے عقیل کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو پکڑلیا جس کے ساتھ اس کی اونٹنی بھی تھی اس شخص کی اونٹنی زمانہ جاہلیت میں حاجیوں سے آگے نکل جایا کرتی تھی اور وہ کئی مرتبہ یہ عمل کرچکی تھی۔ زمانہ جاہلیت کا یہ رواج تھا کہ جب کوئی اونٹنی حاجیوں سے آگے نکل جاتی تھی، تو پھر اسے کسی بھی جگہ پر چرنے سے نہیں روکا جاتا تھا۔ کسی بھی حوض پر آکر پانی پینے سے نہیں روکا جاتا تھا۔ (راوی بیان کرتے ہیں) اس شخص کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا وہ بولا: اے سیدنا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )!! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور حاجیوں سے آگے نکل جانے والی (اونٹنی) کو کس وجہ سے پکڑا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے حلیف ثقیف قبیلے کی زیادتی کی وجہ سے۔“ راوی بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس کے پاس سے گزرے، تو وہ بندھا ہوا تھا۔ ایک مرتبہ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گزرے تو وہ بولا: اے سیدنا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! میں بھوکا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ کھانے کے لیے دیجئے۔ میں پیاسا ہوں کچھ پینے کے لیے دیجئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ لو! تمہاری ضرورت کا سامان (یعنی اسے کھانے پینے کی چیز یں فراہم کردیں)“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات مناسب لگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ذریعے ان دو آدمیوں کا فدیہ دیا جنہیں ثقیف قبیلے کے لوگوں نے قیدی بنالیا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اونٹنی کو اپنے لیے روک لیا۔ پھرا یک مرتبہ دشمن نے مدینہ منورہ پر رات کے وقت حملہ کیا وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانوروں کے باڑے میں گئے اور انہوں نے وہاں سے اس اونٹنی کو چرالیا۔ راوی بیان کرتے ہیں: ان جانوروں کے پاس ایک خاتون بھی تھی، انہوں نے اسے بھی قیدی بنالیا۔ وہ لوگ شام کے وقت اپنے جانوروں کو چرنے کے لیے چھوڑتے تھے۔ ایک رات وہ خاتون اونٹوں کے پاس آئی وہ جس بھی اونٹ کے پاس آتی تھی وہ اونٹ آواز نکالنے لگتا تھا۔ لیکن جب وہ خاتون اس اونٹنی کے پاس آئی تو اس نے آواز نہیں نکالی وہ خاتون اس پر سوار ہوئی اور اسے وہاں سے نجات مل گئی۔ وہ عورت مدینہ منورہ آئی تو لوگ بولے: یہ تو عضباء، یہ عضباء ہے (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی آواز لگتی ہے) راوی کہتے ہیں: وہ عورت بولی: میں نے یہ نذرمانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس اونٹنی پر نجات عطا کی، تو میں اسے ذبح کردوں گی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم نے اسے بہت برا بدلہ دیا ہے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے متعلق نذر کو پورا نہیں کیا جاتا۔ اور آدمی جس چیز کا مالک نہ ہو اس کے بارے میں نذر کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وعم أبى قلابة هو أبو المهلب الجرمي۔ وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1641، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4391، 4392، 4859، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7935، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3821، 3849، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3316، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1568، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2382، 2509، 2547، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2124، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12965، 18111، 18112، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 20141 برقم: 20172»