أَحَادِيثُ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات حدیث نمبر 835
835-یزید مولیٰ منبعث بیان کرتے ہیں: ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس چیز کے بارے میں دریافت کیا: جو کہیں گری ہوئی ملتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس کی تھیلی کو اور اس تھیلی کے منہ پر باندھنے والی رسی کو پہچان لو۔ پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرتے رہو۔ اگر اس کا اعتراف کر لیا جائے، تو ٹھیک ہے ورنہ تم اسے اپنے مال میں شامل کرلو۔“
راوی کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ بکری کے بارے میں دریافت کیاگیا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وہ یا تمہیں ملے گی، یا تمہارے کسی بھائی کو ملے گی، یا بھیڑیے کو ملے گی“۔ راوی کہتے ہیں: انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ اونٹ کے بارے میں دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٖغضبناک ہوگئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا اس کے کیا واسطہ ہے؟ اس کا پیٹ اور اس کے پاؤں ا س کے ساتھ ہیں۔ وہ خود ہی پانی تک پہنچ جائے گااور گھاس کھالے گا، یہاں تک کہ اس مالک اس تک پہنچ جائے گا۔“ سفیان کہتے ہیں۔ مجھے یہ بات پتہ چلی ہے ربیعہ بن ابوعبدالرحٰمن نامی راوی اس روایت کو سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مسند روایت کے طور پر نقل کرتے ہیں۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے ان سے کہا: وہ حدیث جسے آپ یزید مولیٰ منبعت کے حوالے سے بیان کرتے ہیں، جو گمشدہ چیز کے، گمشدہ اونٹ یا بکری کے بارے میں ہے، تو کیا وہ سیدنا زید بن خالد رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے؟ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں۔ سفیان کہتے ہیں: میں ان کی رائے کی وجہ سے انہیں پسند نہیں کرتا تھا۔ اس لیے میں نے ان سے اس بارے میں دریافت نہیں کیا۔ اگر انہوں نے اس کی سند بیان نہ کی ہوتی، تو میں ان سے اس سند کے بارے میں بھی دریافت نہ کرتا۔ تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 91، 2372، 2427، 2428، 2429، 2436، 2438، 5292، 6112، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1722، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4889، 4890، 4893، 4895، 4898، وأبو داود فى "سننه برقم: 1704 1706 برقم: 1707، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1372، 1373، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2504، 2507، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12175، 12176، 12177 12178، 12179، 12190 12191، 12192، 12208، 12209، 12210، 12211، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 17311 برقم: 17320»
|