(مرفوع) حدثنا ابو احمد مرار بن حمويه، حدثنا محمد بن يحيى ابو غسان الكناني، اخبرنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال:" لما فدع اهل خيبر عبد الله بن عمر قام عمر خطيبا، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان عامل يهود خيبر على اموالهم، وقال: نقركم ما اقركم الله، وإن عبد الله بن عمر خرج إلى ماله هناك، فعدي عليه من الليل، ففدعت يداه ورجلاه، وليس لنا هناك عدو غيرهم هم عدونا وتهمتنا، وقد رايت إجلاءهم، فلما اجمع عمر على ذلك اتاه احد بني ابي الحقيق، فقال: يا امير المؤمنين، اتخرجنا وقد اقرنا محمد صلى الله عليه وسلم وعاملنا على الاموال، وشرط ذلك لنا، فقال عمر: اظننت اني نسيت قول رسول الله صلى الله عليه وسلم، كيف بك إذا اخرجت من خيبر تعدو بك قلوصك ليلة بعد ليلة، فقال: كانت هذه هزيلة من ابي القاسم، قال: كذبت يا عدو الله، فاجلاهم عمر واعطاهم قيمة ما كان لهم من الثمر مالا وإبلا وعروضا من اقتاب وحبال وغير ذلك". رواه حماد بن سلمة، عن عبيد الله احسبه، عن نافع، عن ابن عمر، عن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم اختصره.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مَرَّارُ بْنُ حَمُّويَهْ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى أَبُو غَسَّانَ الْكِنَانِيُّ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَمَّا فَدَعَ أَهْلُ خَيْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَامَ عُمَرُ خَطِيبًا، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَامَلَ يَهُودَ خَيْبَرَ عَلَى أَمْوَالِهِمْ، وَقَالَ: نُقِرُّكُمْ مَا أَقَرَّكُمُ اللَّهُ، وَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ خَرَجَ إِلَى مَالِهِ هُنَاكَ، فَعُدِيَ عَلَيْهِ مِنَ اللَّيْلِ، فَفُدِعَتْ يَدَاهُ وَرِجْلَاهُ، وَلَيْسَ لَنَا هُنَاكَ عَدُوٌّ غَيْرَهُمْ هُمْ عَدُوُّنَا وَتُهْمَتُنَا، وَقَدْ رَأَيْتُ إِجْلَاءَهُمْ، فَلَمَّا أَجْمَعَ عُمَرُ عَلَى ذَلِكَ أَتَاهُ أَحَدُ بَنِي أَبِي الْحُقَيْقِ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَتُخْرِجُنَا وَقَدْ أَقَرَّنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَامَلَنَا عَلَى الْأَمْوَالِ، وَشَرَطَ ذَلِكَ لَنَا، فَقَالَ عُمَرُ: أَظَنَنْتَ أَنِّي نَسِيتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَيْفَ بِكَ إِذَا أُخْرِجْتَ مِنْ خَيْبَرَ تَعْدُو بِكَ قَلُوصُكَ لَيْلَةً بَعْدَ لَيْلَةٍ، فَقَالَ: كَانَتْ هَذِهِ هُزَيْلَةً مِنْ أَبِي الْقَاسِمِ، قَالَ: كَذَبْتَ يَا عَدُوَّ اللَّهِ، فَأَجْلَاهُمْ عُمَرُ وَأَعْطَاهُمْ قِيمَةَ مَا كَانَ لَهُمْ مِنَ الثَّمَرِ مَالًا وَإِبِلًا وَعُرُوضًا مِنْ أَقْتَابٍ وَحِبَالٍ وَغَيْرِ ذَلِكَ". رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ أَحْسِبُهُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَصَرَهُ.
ہم سے ابواحمد مرار بن حمویہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے محمد بن یحییٰ ابوغسان کنانی نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی نافع سے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب ان کے ہاتھ پاؤں خیبر والوں نے توڑ ڈالے تو عمر رضی اللہ عنہ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے ‘ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر کے یہودیوں سے ان کی جائیداد کا معاملہ کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب تک اللہ تعالیٰ تمہیں قائم رکھے ہم بھی قائم رکھیں گے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وہاں اپنے اموال کے سلسلے میں گئے تو رات میں ان کے ساتھ مار پیٹ کا معاملہ کیا گیا جس سے ان کے پاؤں ٹوٹ گئے۔ خیبر میں ان کے سوا اور کوئی ہمارا دشمن نہیں ‘ وہی ہمارے دشمن ہیں اور انہیں پر ہمیں شبہ ہے اس لیے میں انہیں جلا وطن کر دینا ہی مناسب جانتا ہوں۔ جب عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا پختہ ارادہ کر لیا تو بنو ابی حقیق (ایک یہودی خاندان) کا ایک شخص تھا ’ آیا اور کہا یا امیرالمؤمنین کیا آپ ہمیں جلا وطن کر دیں گے حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہاں باقی رکھا تھا اور ہم سے جائیداد کا ایک معاملہ بھی کیا تھا اور اس کی ہمیں خیبر میں رہنے دینے کی شرط بھی آپ نے لگائی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھول گیا ہوں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ تمہارا کیا حال ہو گا جب تم خیبر سے نکالے جاؤ گے اور تمہارے اونٹ تمہیں راتوں رات لیے پھریں گے۔ اس نے کہا یہ ابوالقاسم (آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) کا ایک مذاق تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کے دشمن! تم نے جھوٹی بات کہی۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں شہر بدر کر دیا اور ان کے پھلوں کی کچھ نقد قیمت کچھ مال اور اونٹ اور دوسرے سامان یعنی کجاوے اور رسیوں کی صورت میں ادا کر دی۔ اس کی روایت حماد بن سلمہ نے عبیداللہ سے نقل کی ہے جیسا کہ مجھے یقین ہے نافع سے اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختصر طور پر۔
Narrated Ibn `Umar: When the people of Khaibar dislocated `Abdullah bin `Umar's hands and feet, `Umar got up delivering a sermon saying, "No doubt, Allah's Apostle made a contract with the Jews concerning their properties, and said to them, 'We allow you (to stand in your land) as long as Allah allows you.' Now `Abdullah bin `Umar went to his land and was attacked at night, and his hands and feet were dislocated, and as we have no enemies there except those Jews, they are our enemies and the only people whom we suspect, I have made up my mind to exile them." When `Umar decided to carry out his decision, a son of Abu Al-Haqiq's came and addressed `Umar, "O chief of the believers, will you exile us although Muhammad allowed us to stay at our places, and made a contract with us about our properties, and accepted the condition of our residence in our land?" `Umar said, "Do you think that I have forgotten the statement of Allah's Apostle, i.e.: What will your condition be when you are expelled from Khaibar and your camel will be carrying you night after night?" The Jew replied, "That was joke from Abul-Qasim." `Umar said, "O the enemy of Allah! You are telling a lie." `Umar then drove them out and paid them the price of their properties in the form of fruits, money, camel saddles and ropes, etc."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 50, Number 890