بَابُ مَا جَاءَ فِي اتِّكَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کے سہارے ٹیک لگانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کا سہارا لیا
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مرض میں گیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر زرد رنگ کی پگڑی تھی۔ میں نے سلام عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے فضل!“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اس پگڑی کو میرے سر پر اچھی طرح باندھ دو۔“میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور اپنے دونوں ہاتھ میرے کندھوں پر رکھ کر کھڑے ہو گئے اور مسجد میں تشریف لے گئے۔ اور حدیث میں مفصل قصّہ ہے۔
تخریج الحدیث: «سندہ ضعیف» :
اس روایت کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے: ➊ عطاء بن مسلم کی چھ محدثین نے توثیق کی اور چھ نے جرح کی، نیز حافظ ابن حجر نے فرمایا: «صدوق يخطئ كثيرا» وہ سچا (راوی) ہے اور بہت غلطیاں کرتا تھا۔ [تقريب التهذيب:4599] حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے دیوان الضعفاء میں ذکر کیا، لہٰذا جمہور کے نزدیک مجروح ہونے کی وجہ سے یہ راوی ضعیف ہے۔ ➋ عطاء بن ابی رباح کی فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے، بلکہ حافظ مزی نے فرمایا: ”کہا گیا ہے کہ انھوں (عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ) نے فضل (بن عباس رضی اللہ عنہ) سے (کچھ) نہیں سنا۔“ [تهذيب الكمال 167/5] عطاء بن مسلم الخفاف سے ایک روایت میں عطاء اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کے درمیان عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا واسطہ ہے۔ [ديكهئيے المعجم الاوسط للطبراني 82/4 ح 311، المعجم الكبير281/18 ح719] اور اس کی سند میں عطاء بن مسلم سے محمد بن متوکل بن عبدالرحمنٰ یعنی ابن ابی السری العسقلانی راوی ہیں جو عند الجمہور موثق ہونے کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث ہیں اور ان تک سند حسن لذاتہ ہے۔ «والله اعلم» مختصر یہ کہ شمائل ترمذی والی روایت عطاء بن مسلم (ضعیف) کی وجہ سے ضعیف ہے اور المعجم الکبیر (280/18 ح 718) میں اس روایت کا ایک شاہد بھی ہے، لیکن اس کی سند میں کئی راوی نامعلوم (مجہول) ہیں۔ دیکھئیے [مجمع الزوائد 26/9] |