مناقب صحابہ وصحابیات رضی اللہ عنہم أجمعین सहाबा और शाबिया रज़ि अल्लाहु अन्हुम की विशेषताएं سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت “ हज़रत मुआव्या रज़ि अल्लाहु अन्ह की फ़ज़ीलत ”
اور اسی سند کے ساتھ روایت ہے کہ (سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے) فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قباء جاتے تو ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلاتی تھیں، ام حرام بنت ملحان سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں پس اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا کھلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر (کے بالوں) میں ٹٹولنے لگیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے تو ہنس رہے تھے، ام حرام رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسو ل اللہ! آ پ کیوں ہنس رہے ہیں؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے (نیند میں) میری امت کے کچھ لوگ دکھائے گئے جو اس سمندر کے درمیان اللہ کے راستے میں جہاد کر رہے تھے گویا کہ وہ تختوں پر بادشاہ بیٹھے ہیں۔“ انہوں نے کہا: میں نے عرض کیا: یا رسو ل اللہ! اللہ سے دعا کریں کہ اللہ مجھے ان میں شامل کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی پھر سر رکھ کر سو گئے پھر جب نیند سے اٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے، ام حرام رضی اللہ عنہا نے کہا: کہ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! آ پ کس وجہ سے ہنس رہے ہیں؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے کچھ لوگ مجھے (نیند میں) دکھائے جو تخت نشین بادشاہوں کی طرح بیٹھے اللہ کی راستے میں جہاد کر رہے ہیں۔“ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی دفعہ فرمایا تھا تو ام حرام رضی اللہ عنہا نے کہا: کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے ان میں شامل کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پہلے گروہ میں ہو۔“ (سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے) فرمایا: پھر وہ سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ (کے دور امارت) کے زمانے میں سمندری جہاد میں شامل ہوئیں پھر جب وہ سمندر سے باہر تشرف لائیں تو سواری سے گر کر فوت ہو گئیں۔
تخریج الحدیث: «117- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 464/2، 465 ح 1026، ك 21 ب 18 ح 39) التمهيد 225/1، الاستذكار: 963، و أخرجه البخاري (2788، 2789) ومسلم (1912/160) من حديث مالك به.»
|