الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ قیامت اور جنت اور جہنم کے احوال 15. باب مَثَلُ الْمُؤْمِنِ مَثَلُ النَّخْلَةِ: باب: مومن کی مثال کھجور کے درخت کی سی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں گرتے وہی مثال ہے مسلمان کی، تو مجھ سے بیان کرو وہ کون سا درخت ہے؟“ لوگوں نے جنگل کے درختوں کا خیال شروع کیا۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے دل میں آیا وہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں نے شرم کی (اور نہ کہا:)، پھر لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ بیان فرمائیے، وہ کون سا درخت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کھجور کا درخت ہے۔“ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نے یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا۔ انہوں نے کہا: اگر تو کہہ دیتا کہ وہ کھجور کا درخت ہے (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا) تو مجھے ایسی ایسی چیزوں کے ملنے سے زیادہ پسند تھا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک دن اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے مجھ سے بیان کرو وہ درخت جس کی مثال مؤمن کی مثال ہے؟“ لوگ ایک درخت کا ذکر کرنے لگے جنگلوں کے درختوں میں سے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میرے دل میں ڈالا گیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے، میں نے قصد کیا کہنے کا لیکن وہاں بڑی عمر والے لوگ بیٹھے تھے میں ڈرا بات کرنے میں۔ جب لوگ چپ ہو رہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کھجور کا درخت ہے۔“
مجاہد رحمہ اللہ سے روایت ہے، میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ رہا مدینہ تک، میں نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث بیان کرتے نہیں سنا سوائے ایک حدیث کے۔ انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے اتنے میں کھجور کا گابہہ آیا (جس کو عرب کے لوگ کھاتے ہیں، وہ نرم ہوتا ہے) پھر بیان کیا اسی طرح جیسے اوپر گزرا۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ سے بیان کرو اس درخت کو جو مشابہ ہے یا مانند ہے مرد مسلمان کے جس کے پتے نہیں جھڑتے؟“ ابراہیم بن سفیان نے کہا: امام مسلم نے شاید یوں کہا: «وَتُؤْتِى أُكُلَهَا» (بغیر «لا» کے) لیکن میں نے اپنے سوا اور لوگوں کی روایت میں بھی یوں پایا «وَلاَ تُؤْتِى أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ» اور کوئی آفت نہیں پہنچتی . وہ اپنا میوہ دیتا ہے ہر وقت پر۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میرے دل میں آیا کہ کہوں کہ کھجور ہے لیکن میں نے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا وہ نہیں بولتے تو مجھ کو برا معلوم ہوا بولنا یا کچھ کہنا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تو بول دیتا تو مجھ کو ایسی ایسی چیزوں سے زیادہ پسند تھا۔
|