الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب 48. باب إِذَا أَحَبَّ اللهُ عَبْدًا، أَمَرَ جِبْرَئِيلَ فَأَحَبَّهُ وَأَحَبَّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْآرْضِ باب: جب اللہ کریم کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو بھی اس سے محبت رکھنے کا حکم کرتے ہیں اور آسمان کے فرشتے بھی اس سے محبت کر تے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے! میں محبت کرتا ہوں فلاں بندے سے تو بھی اس سے محبت کر، پھر جبرئیل علیہ السلام محبت کرتے ہیں اس سے اور آسمان میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے فلاں سے تم بھی محبت کرو اس سے، پھر آسمان والے فرشتے اس سے محبت کرتے ہیں۔ بعد اس کے زمین والوں کے دلوں میں وہ مقبول ہو جاتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ دشمنی رکھتا ہے کسی بندے سے تو جبرئیل علیہ السلام کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے: میں فلاں کا دشمن ہوں تو بھی اس کا دشمن ہو، پھر وہ بھی اس کے دشمن ہو جاتے ہیں، پھر منادی کر دیتے ہیں آسمان والوں میں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے دشمنی رکھتا ہے تم بھی اس سے دشمنی رکھو وہ بھی اس کے دشمن ہو جاتے ہیں، بعد اس کے زمین والوں کے دلوں میں اس کی دشمنی جم جاتی ہے۔“ (یعنی زمین میں بھی جو اللہ کے نیک بندے یا فرشتے ہیں وہ اس کے دشمن رہتے ہیں سچ ہے۔ از خدا گشتی ہمہ چیز از تو گشت)
سہیل سے اسی سند کے ساتھ مروی ہے البتہ ابن مسیّب کی حدیث میں بغض کا ذکر نہیں ہے۔
ابوصالح سے روایت ہے، ہم عرفات میں تھے تو عمر بن عبدالعزیز جو حاجیوں کے سردار تھے نکلے، لوگ کھڑے ہو گئے ان کے دیکھنے کو، میں نے اپنے باپ سے کہا: اے بابا! میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے عمر بن عبدالعزیز کو۔ باپ نے پوچھا: کیوں؟ میں نے کہا: اس واسطے کہ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پڑ گئی ہے۔ انہوں نے کہا:: قسم ہے تیرے باپ (کے پیدا کرنے والے) کی میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے وہ حدیث بیان کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی، پھر بیان کیا اسی طرح حدیثہ مبارکہ کو۔
|