الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب السَّلَامِ سلامتی اور صحت کا بیان 26. باب لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ وَاسْتِحْبَابُ التَّدَاوِي: باب: ہر بیماری کی ایک دوا ہے اور دوا کرنا مستحب ہے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر بیماری کی ایک دوا ہے جب وہ دوا پہنچتی ہے تو اللہ کے حکم سے شفا ہو جاتی ہے۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے عیادت کی مقنع کی پھر کہا: میں نہیں ٹھہروں گا جب تک تم پچھنے نہ لگاؤ، کیونکہ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”بے شک اس میں شفا ہے۔“
عاصم بن عمر بن قتادہ سے روایت ہے، سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ ہمارے گھر آئے اور ایک شخص کو شکوہ تھا زخم کا (یعنی قرحہ پڑ گیا تھا) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تجھ کو کیا شکایت ہے؟ وہ بولا: ایک قرحہ ہو گیا ہے جو نہایت سخت ہے مجھ پر۔ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے غلام! ایک پچھنے لگانے والے کو لے آ۔ وہ بولا: پچھنے والے کا کیا کام ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس زخم پر پچھنا لگانا چاہتا ہوں، وہ بولا: قسم اللہ کی مکھیاں مجھ کو ستائیں گی اور کپڑا لگے گا تو تکلیف ہو گی مجھ کو اور سخت گزرے گا مجھ پر۔ جب سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اس کو رنج ہوتا ہے پچھنے لگانے سے تو کہا کہ میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اگر تمہاری دواؤں میں کوئی بہتر دوا ہے تو تین ہی دوائیاں ہیں ایک تو پچھنا لگانا، دوسرے شہد کا ایک گھونٹ، تیسرے انگارے جلانا“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”میں داغ لینا بہتر نہیں جانتا“ راوی نے کہا: پھر پچھنے لگانے والا آیا اور پچھنے لگائے اس کو، تو اس کی بیماری جاتی رہی۔
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے اجازت چاہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھنے لگانے کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ابوطیبہ کو ان کے پچھنے لگانے کا۔ راوی نے کہا: ابوطیبہ ام سلمہ کے رضاعی بھائی تھے یا نابالغ لڑکے تھے (جن سے پردہ ضروری نہیں اور ضرورت کے وقت دوا کے لیے اجنبی شخص بھی لگا سکتا ہے اگر عورت یا لڑکا نہ ملے)۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب کے پاس ایک حکیم کو بھیجا اس نے ایک رگ کاٹی (یعنی فصد لی) پھر داغ دیا اس پر۔
اعمش سے روایت ہے اور اس میں رگ کاٹنے کا ذکر نہیں ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو احزاب کی جنگ میں ایک تیر لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے داغ دیا۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو الاکحل (ایک رگ ہے) میں تیر لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داغ دیا ان کو تیر کے پھل سے اپنے ہاتھ سے، ان کا ہاتھ سوج گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ داغ دیا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگائے اور پچھنے لگانے والے کو مزدوری دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناک میں بھی دوا ڈالی (یعنی ناس لی)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی مزدوری نہ رکھتے تھے۔ (یعنی دے دے دیتے تھے تو پچھنے لگانے والے کو بھی دی)۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بخار دوزخ کی سخت گرمی سے ہے تو اس کو ٹھنڈا کرو پانی سے۔“
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا ہے۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس حدیث میں پانی سے ٹھنڈا کرنے کی بجائے جہنم کی گرمی کو پانی سے بجھانے کا ذکر ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بخار جہنم کی سوزش سے ہے تو اس کو ٹھنڈا کرو پانی سے۔
ہشام سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت ہے۔
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس جب کوئی عورت بخار والی لائی جاتی تو وہ پانی منگواتیں اور اس کے گریبان میں ڈالتیں اور کہتیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھنڈا کرو اس کو پانی سے۔“ اور فرمایا: ”بخار جہنم کی سخت گرمی سے ہوتا ہے۔“
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماتے تھے: ”بخار جہنم کے جوش مارنے سے ہوتا ہے تو اس کو ٹھنڈا کرو پانی سے۔“
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
|