الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْإِمَارَةِ امور حکومت کا بیان 18. باب اسْتِحْبَابِ مُبَايَعَةِ الإِمَامِ الْجَيْشَ عِنْدَ إِرَادَةِ الْقِتَالِ وَبَيَانِ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ تَحْتَ الشَّجَرَةِ: باب: لڑائی کے وقت مجاہدین سے بیعت لینا مستحب ہے اور شجرہ کے نیچے بیعت رضوان کے بیان میں۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم حدیبیہ کے دن ایک ہزار چار سو آدمی تھے تو ہم نے بیعت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑے ہوئے شجرہ رضوان کے تلے تھے اور وہ سمرہ کا درخت تھا (سمرہ ایک جنگلی درخت ہے جو ریگستان میں ہوتا ہے) اور ہم نے بیعت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شرط پر کہ نہ بھاگیں گے اور یہ بیعت نہیں کی کہ مر جائیں گے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مر جانے پر بیعت نہیں کہ بلکہ نہ بھاگنے پر کی۔
ابوالزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا ان سے پوچھا گیا کہ حدیبیہ کے دن کتنے آدمی تھے؟ انہوں نے کہا: ہم چودہ سو آدمی تھے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑے ہوئے سمرہ کے درخت کے تلے تھے، پھر ہم سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی مگر جد بن قیس انصاری نے بیعت نہیں کی وہ اپنے اونٹ کے پیٹ تلے چھپ رہا۔
ابوالزبیر نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، ان سے پوچھا گیا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لی ذوالحلیفہ میں؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز پڑھی اور کسی درخت کے پاس بیعت نہ لی مگر حدیبیہ کے درخت کے پاس۔ ابن جریج نے کہا: مجھ سے ابوالزبیر نے بیان کیا، انہوں نے سنا سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی حدیبیہ کے کنویں پر (اس کا پانی بڑھ گیا اور یہ قصہ اوپر گزر چکا۔)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم حدیبیہ کے دن چودہ سو آدمی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج کے دن تم سب زمین والوں سے بہتر ہو۔“ اور جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میری بینائی ہوتی تو میں تم کو اس درخت کا مقام دکھلا دیتا۔
سالم بن ابی الجعد سے روایت ہے، میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اصحاب شجرہ کتنے آدمی تھے، انہوں نے کہا: اگر ہم لاکھ آدمی ہوتے تب بھی وہاں کا کنواں ہم کو کافی ہو جاتا (کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے اس کا پانی بہت بڑھ گیا تھا) ہم پندرہ سو آدمی تھے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم پندرہ سو تھے۔ اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو (بھی وہ پانی) ہمیں کافی ہو جاتا۔
سالم بن ابی الجعد نے کہا: میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا: تم کتنے آدمی تھے اس دن؟ انہوں نے کہا: چودہ سو آدمی تھے۔
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اصحاب شجرہ تیرہ سو آدمی تھے اور اسلم کے لوگ مہاجرین کا آٹھواں حصہ تھے۔
شعبہ سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔
سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے اپنے آپ کو شجرہ کے دن دیکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لے رہے تھے لوگوں سے اور میں ایک شاخ کو درخت کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر سے اٹھائے ہوئے تھا ہم چودہ سو آدمی تھے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرنے پر بیعت نہیں کی بلکہ بھاگنے پر۔
یونس سے بھی یہ حدیث مبارکہ اس سند سے روایت کی گئی ہے۔
سیدنا سعید بن مسیّب رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے باپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے بیعت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شجرہ رضوان کے پاس۔ انہوں نے کہا: جب ہم دوسرے سال حج کو آئے تو اس درخت کی جگہ معلوم ہی نہیں ہوئی اگر تم کو معلوم ہو جائے تو تم زیادہ جانتے ہو۔
سیدنا سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ سے روایت کیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے شجرۂ رضوان کی جس سال بیعت ہوئی پھر دوسرے سال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس درخت کو بھول گئے۔
سیدنا سعید بن مسیّب رضی اللہ عنہ کے باپ نے کہا: میں نے شجرہ رضوان دیکھا تھا لیکن پھر جو میں اس کے پاس آیا تو پہچان نہ سکا۔
یزید بن ابی عبید نے کہا: میں نے سلمہ سے پوچھا: تم نے کس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی؟ انہوں نے کہا مر جانے پر کی۔
سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ سے مذکورہ حدیث کی طرح مروی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی آیا اور کہنے لگا، یہ حنظلہ کا بیٹا ہے جو لوگوں سے بیعت لے رہا ہے مرنے پر۔ انہوں نے کہا: میں ایسی بیعت کسی سے کرنے والا نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد۔
|